اسماء وصفات کے متعلق چند اہم قواعد اور بنیادی اصول
پہلا قاعدہ
اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے متعلق کتاب و سنت میں وارد نصوص کو ان کی ظاہری دلالت پر باقی رکھنا ہوگا ، اور کسی قسم کے تغیر یا تبدیلی کی جسارت نہ کی جائے ، اور معنی ظاہر کو تبدیل کرنا، اللہ تعالیٰ پر بلا علم بات کرنے کے مترادف ہوگا ، جو کہ شرعی طور پر حرام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾
(الأعراف : ٣٣)
’’آپ کہئے کہ میرے رب نے تمام ظاہر و پوشیدہ بدکاریوں کو ، اور گناہ اور ناحق سرکشی کو حرام کر دیا ہے، اور یہ (بھی حرام کر دیا ہے) کہ تم لوگ اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تمہیں علم نہیں۔“
مثلاً اللہ رب العزت کے لئے دو ہاتھ ثابت ہیں۔ (المائدہ : ۶۴)
لہذا انہیں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنا واجب ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں ہاتھوں سے مراد قوت ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کے ظاہر معنی سے پھیر دیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پر قولِ بلا علم کی جسارت کرنا ہے، جو کہ حرام ہے۔
دوسرا قاعدہ
اس قاعدہ کے تحت چند فروعات ہیں جن کے بیان سے پورا قاعدہ سمجھ آ جائے گا۔
➊ اللہ تعالیٰ کے تمام نام حسنی غایت درجہ اچھے اور پیارے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے نام اپنے اندر کوئی نہ کوئی صفت کا ملہ لئے ہوئے ہیں، اور ان تمام صفات میں سے کسی بھی صفت میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ
(بنی اسرائیل: ۱۱۰)
’’آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کے نام سے پکارو، جس نام سے چا ہو اسے پکارو، تمام بہترین اور اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔‘‘
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ عزوجل کے پیارے اسماء میں سے ’’الرحمن‘‘ وارد ہوا ہے، جو ایک انتہائی پیاری صفت ’’وسیع رحمت‘‘ پر مشتمل ہے۔
➋ اور اللہ تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد میں محصور نہیں ہیں، اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا وہ فرمان ہے، جس میں آپ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے :
أَسْأَلُكَ اللهُمَّ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرُتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ.
”اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، جو بھی نام تو نے اپنی ذات کے رکھے، یا جو نام تو نے اپنی کتاب میں اتارے، یا جو نام تو نے اپنی کسی مخلوق کو تعلیم فرما دئیے، یا جو نام تو نے اپنے خزانہ غیب میں محفوظ فرمادیئے ہیں۔“
مسند أحمد (٤٥٢،٣٩٤/١) صحيح ابن حبان، رقم (۲۳۷۲)
اور یادر ہے کہ جو اسماء اللہ اس کے خزانہ غیب میں ہیں، ان کا ہمارے لئے حصر واحاطہ ناممکن ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کا ایک اور فرمان ملاحظہ فرمائیے گا ، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
صحیح بخاری، کتاب الشروط، رقم : (۲۷۳٦)
”یقینا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی ایک کم سو (۱۰۰) جس نے ان کا احصاء کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔“
فائدہ
حدیث میں وارد کلمہ ’’احصاء‘‘ کا معنی پڑھنا سمجھنا، یاد کرنا اور ان کے مطابق عقیدہ بنانا ہے۔
فائدہ
یہ روایت مذکورہ روایت کے متعارض نہیں ہے جیسا کہ ظاہر سے معلوم ہے، کیونکہ اس حدیث کا معنی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ کے جملہ ناموں میں سے صرف ننانوے (۹۹) نام یاد کرنے والا اور ان کا احصاء کرنے والا جنتی ہے۔‘‘
یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کل نام ننانوے (۹۹) ہی ہیں، اور ان کے علاوہ اس کا کوئی نام نہیں۔
فائدہ
اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ننانوے (۹۹) نام ذکر کر دیتے ہیں جو ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے ملے ہیں ۔
جملہ معترضہ
ابراہیمؑ اپنے کافر باپ کا انتہائی شدید جواب سن کر بھی حد ادب سے نہیں نکلے اور اس کے لئے سلامتی کی دعا کی، گویا یہ کہنا چاہا کہ اگرچہ آپ مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، لیکن مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا ، وہ مجھ پر بہت ہی کرم فرما ہے، مجھے مایوس نہیں کرے گا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیمؑ نے برائی کا جواب بھلائی سے دیا، جیسا کہ اللہ رب العزت نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ ”جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہو ۔“ (یعنی میں تم سے جھگڑنا نہیں چاہتا ہوں۔)
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
(الفرقان : ٦٣)
اور جب نادان لوگ ان کے منہ لگتے ہیں تو (رحمن کے نیک بندے) سلام کر کے گزر جاتے ہیں ۔
مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ وعدہ کہ وہ اللہ سے اس کے لئے مغفرت طلب کریں گے، اس توقع کی بنیاد پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا اور کفر پر نہیں مرے گا، چنانچہ ایک طویل مدت تک وہ اس کے لئے استغفار کرتے رہے، شام کی طرف ہجرت کر جانے ، مسجد حرام بنانے اور اسحاق و اسماعیل کی ولادت کے بعد بھی اس کے لئے دعا کرتے رہے، جیسا کہ سورۃ ابراہیم آیت (۴۱) میں ارشاد ہے:
رَبَّنَا اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الحِسَابُ
”اے ہمارے رب! قیامت کے دن مجھے معاف کر دینا ، اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو بھی۔“
لیکن جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی براءت کا اعلان کر دیا، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾
(التوبه : ١١٤)
’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگنا صرف اُس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر رکھا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار براءت کر دیا، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے ۔“
آمدم برسر مطلب :
اور یہ بات بھی یاد رہے کہ اللہ کے بعض نام مضاف ہو کر استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ ’’مالک الملک‘‘’’احکم الحاکمین“ اور ” ارحم الراحمین“ وغیرہ۔
تفصیل دیکھئے: القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى، ص: ١٦-١٨.
➌ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ توقیفی ہیں، جن کا اثبات قرآن وحدیث کی دلیل پر موقوف ہے، اس لئے اپنی عقل سے کسی نام کا اضافہ اور کمی نہیں کی جاسکتی ، اور عقل اس کا ادراک بھی نہیں کر سکتی ، لہذا اس سلسلہ میں نص شرعی پر ہی اکتفاء کیا جائے گا۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ
’’اور جس بات کا آپ کو علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگئے ۔“
(بنی اسرائیل : ٣٦)
➍ اللہ تعالیٰ کے بعض نام غیر متعدی ہوتے ہیں، ان پر ایمان لانے کا معنی تب مکمل ہوتا ہے جب آپ درج ذیل دو چیزوں کا اثبات کریں۔
◈ اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس کی ذات پر دلالت کرتا ہے۔
◈ اور اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس صفت پر دلالت کرتا ہے جو اس کے نام کے ضمن میں موجود ہے۔
اور اگر وہ نام متعدی ہے تو اس پر ایمان لانے کا مفہوم تب مکمل ہوگا جب آپ مذکورہ دو چیزوں کے ساتھ تیسری یہ چیز ثابت کریں کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کا یہ نام متعدی ہونے کی وجہ سے اس کے اثر پر دلالت کرتا ہے، مثلاً صفت الرحمن ہے یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے جس بندے پر چاہے رحمت فرماتا ہے۔
تیسرا قاعده
اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق ہے، اس کا مکمل فہم حاصل کرنے کے لئے چند فروعات کا سمجھنا ضروری ہے۔
پہلی فرع :
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال اور مدح پر مشتمل ہیں، ان میں کسی قسم کا کوئی عیب اور نقص نہیں ہے، جیسے صفت ” الحياة “ ، ” العلم “، ” القدرة “ ، ” السمع “ ، ” البصر الرحمة “، ” العزة“، ” الحكمة “ ، ” العلو “ اور ” العظمة “ وغیرہ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ
” اور اللہ کے لئے سب سے عمدہ اور اعلیٰ صفت ہے۔“
(النحل :٦٠)
اور اللہ کے اسماء وصفات میں نقص بیان کرنے والوں کی کلام پاک میں خود اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ
’’اور یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، انہی کے ہاتھ (ان کی گردن کے ساتھ) باندھ دیئے گئے ہیں، اور اُن کے اس قول کی وجہ سے اُن پر لعنت بھیج دی گئی ہے، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں ۔“
(المآئده : ٦٤)
چونکہ اللہ رب العزت کی ذات کامل و اکمل ہے، اسی لئے اس کی ہر صفت کا کامل واکمل ہونا لازمی ہے۔ لہذا ہر وہ صفت جو کسی بھی اعتبار سے نقص وعیب پر دلالت کرتی ہو، وہ اللہ کے حق میں ممتنع ہے، جیسے صفت ” الموت “ ، ” الجهل “، ” النسيان “ ، ” العجز “، ’’ العمی “ اور ” الصم“ وغیرہ۔
بلکہ اس کا کسی صفت نقص سے متصف ہونا اس کی کمالِ ربوبیت کے منافی ہے۔
فائدہ
اور اگر کوئی صفت ایک لحاظ سے تو صفت کمال ہے لیکن ایک لحاظ سے صفتِ نقص ہے، تو اللہ تعالیٰ کے لئے نہ تو وہ مطلقاً ثابت ہوگی، اور نہ مطلقا منتفی ہوگی ، بلکہ اس صورت میں تفصیل کا پہلو مد نظر رکھا جائے گا، چنانچہ ایسی صفات کی حالت کمال اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہوگی ، اور حالت نقص ممتنع ہوگی۔ جیسے صفت ” المكر“ ، ” الكيد “ ، ” الخدع “ اور ” الخيانه “ وغیرہ ہیں ۔
یہ اور اس قسم کی تمام صفات اس صورت میں تو صفات کمال قرار پائیں گی جب مقابلہ مثل کے سیاق میں ہوں، کیونکہ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس صفت کو انجام دینے والا اپنے دشمن سے اس کے فعل کے مثل مقابلہ کرنے سے عاجز نہیں ہے۔ اور جب سیاق میں مقابلہ نہ ہو تو پھر یہ تمام صفات، صفات نقص ہیں۔ لہذا پہلی صورت میں یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں ، اور دوسری صورت میں نہیں ہیں۔
درج ذیل اُمثلہ سے بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے:
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
’’اور ادھر وہ اپنی سازش کر رہے تھے ، اور ادھر اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
(الأنفال :٣٠)
إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ﴿١٥﴾ وَأَكِيدُ كَيْدًا ﴿١٦﴾
”بے شک وہ (کفار) داؤ میں ہیں ، اور میں بھی چال چل رہا ہوں۔“
(الطارق : ١٦٠١٥)
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ
’’یقیناً منافق اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور وہ انہیں دھوکے کی سزا دے گا۔“
(النساء : ١٤٢)
قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ
’’(منافقین) کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں ، اللہ ان کو مذاق کی سزا دیتا ہے۔“
(البقره: ١٥،١٤)
چنانچہ اگر آپ سے کوئی کہے کہ کیا اللہ تعالیٰ صفت ” المكر“ ، ” الخدع “ اور ” الكيد “ سے متصف ہے، تو آپ جواباً نہ ”ہاں“ کہو، اور نہ ہی ”نا“ کہو۔ بلکہ یوں کہو کہ اللہ تعالی اس شخص سے ” جیسے اس کی ذات کے لائق ہے‘‘ معاملہ مکر ، خداع اور کید فرماتا ہے جو اس کا مستحق ہو۔واللہ اعلم
اور اللہ نے ”صفت خیانت‘‘ کو مقابلہ میں بھی اپنے لئے استعمال نہیں کیا ، کیونکہ خیانت اعتماد والی جگہ پر دھوکے کا نام ہے، جو کہ مطلقاً مذمت والی صفت ہے۔
وَإِن يُرِيدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّهَ مِن قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾
’’اور اگر وہ آپ سے خیانت کرنا چاہیں گے، تو وہ اس سے پہلے اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس نے مومنوں کو ان پر مسلط کر دیا تھا، اور اللہ بڑا علم والا ، اور بڑی حکمتوں والا ہے۔“
(الأنفال : ۷۱)
غور فرمائیے گا ” انہوں نے اللہ سے خیانت کی ہے‘‘ لیکن اس کے مقابلہ میں اللہ رب العزت نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں ؛(فَأَمْكَنَ مِنْهُمُ) پس اس نے مومنوں کو ان پر تسلط عطا فرمایا۔
دوسری فرع:
اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر ہیں:
➊ثبوتیہ
➋سلبیہ
◈ صفات ثبوتیه :
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے ثابت فرمایا ہے جیسے صفتِ ’’الحياة‘‘ ، ’’العلم‘‘ ،’’القدرة‘‘،’’ استواء على العرش“،” نزول“، ”الوجہ “ اور ” الیدین‘‘ وغیرہ۔ پس ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے شایان شان ثابت کرنا، انتہائی ضروری ہے، اور اس پر عقل ونقل سے دلائل موجود ہیں ۔
عقلی دلیل :
کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو سب سے زیادہ جانتا ہے اور ان صفات کو اس نے خود اپنے لئے ثابت فرمایا ہے۔
نقلی دلیل :
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١٣٦﴾
”اے ایمان والو! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ان کتابوں پر جو اس نے پہلے اتاری تھیں اپنے ایمان میں قوت و ثبات پیدا کرو، اور جو شخص اللہ، اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں، اور یوم آخرت کا انکار کر دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور چلا جائے گا۔“
(النساء : ١٣٦)
یادر ہے کہ ایمان باللہ، ایمان بالصفات کو بھی شامل ہے اور اسی طرح ایمان بالکتاب پر ہر اس صفت پر ایمان کو بھی شامل ہے جو صفت کتاب اللہ میں آئی ہے۔
◈ صفات سلبیه:
وہ صفات ہیں، جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کر دی ہے۔ ان صفات کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا اور ان کی ضد بدرجہ اکمل اس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ثابت تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے، مثلاً :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ
’’اور آپ ہمیشہ زندہ رہنے والے پر بھروسہ کیجیے۔“
(الفرقان : ٥٨)
اب ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے موت کی نفی کی جائے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ موت کی ضد یعنی ” حیاة “ کی صفت کو اللہ کے لئے بوجہ اکمل ثابت و تسلیم کیا جائے۔
تیسری فرع:
صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں:
➊ذاتیہ
➋فعلیہ
◈ صفات ذاتیہ:
اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں، جن سے وہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے متصف ہے، جیسے صفتِ ’’سمع“ اور ” بصر‘‘ وغيره.
◈ صفات فعلیہ :
صفات فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں، جن کا صدور اس کے ارادے پر موقوف ہے، چاہے تو وہ فعل انجام دے اور چاہے تو نہ دے۔ مثلاً صفت ’’استواء علی العرش “ اور ” المجئ“ آنا وغیرہ ہیں ۔
فائدہ
لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت ذاتی اور فعلی دونوں طرح سے ہوتی ہے، جیسے ” کلام“ اگر اس صفت کو باعتبار اصل دیکھا جائے تو یہ صفت ذاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے صفت کلام سے متصف ہے۔ اور ہمیشہ متصف رہے گا۔ لیکن کوئی کلام کرنے کے اعتبار سے یہ صفت فعلی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام فرمانا اس کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہے، چنانچہ وہ جب چاہے اور جو ارادہ فرمائے کلام فرماتا ہے ۔
چوتھی فرع:
ان صفات کے متعلق تین بنیادی قواعد کا خیال رکھنا ضروری امر ہے۔
کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات حقیقی ہیں، کیونکہ قاعدہ ہے :
لأصلُ فِي الْكَلَامِ الْحَقِيقَةُ وَلَا يُعْدَلُ عَنْهُ إِلَّا بِدَلِيْلٍ يَقْتَضِی ذَلِكَ.
کلام کو اصل حقیقت پر محمول کیا جائے گا، اور اس حقیقت سے عدول کی متقاضی دلیل کے بغیر حقیقت سے عدول جائز نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی تکلیف (کیفیت بیان کرنا) جائز نہیں ۔
نقلی دلیل :
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا
اور لوگوں کا علم اُس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
(طه : ١١٠)
نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
’’پس تم لوگ اللہ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو، یقیناً اللہ جانتا ہے اور تم لوگ (کچھ بھی)نہیں جانتے ہو۔“
(النحل : ٧٤)
عقلی دلیل :
انسان کی عقل کے لئے اللہ عزوجل کی صفات کی کیفیت کا ادراک ناممکن ہے۔ اللہ کی صفات مخلوقات کی صفات کے مشابہ اور مماثل نہیں ہیں۔
نقلی دلیل :
اللہ کا ارشاد ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ
کوئی چیز اس کی مانند نہیں ہے۔
(الشورى : ۱۱)
عقلی دلیل :
اللہ تعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جو ہر کمال سے بڑھ کر ہے، لہذا یہ ناممکن ہے کہ وہ کسی مخلوق کے مشابہ اور مماثل ہو، کیونکہ مخلوق تو ہر اعتبار سے ناقص ہے۔
تمثیل اور تکییف میں فرق :
تمثیل سے مراد یہ ہے کہ کسی صفت کی اس کے مماثل کے ساتھ مقید کر کے کیفیت بیان کی جائے ، مثلاً کوئی یوں کہے کہ اللہ کا ہاتھ انسان کے ہاتھ جیسا ہے۔
تکییف سے مراد یہ ہے کہ کسی صفت کی اس کے مماثل سے مقید کئے بغیر کیفیت بیان کی جائے ، مثلاً کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کے لئے بغیر تشبیہ وتمثیل کے، کسی معین کیفیت کا تخیل کرے۔
تمثیل اور تکییف کا حکم :
تمثیل اور تکییف باطل و نا جائز ہے۔
چوتھا قاعدہ
معطله وغیرہ پر رد کا طریقہ ۔
معطله اللہ تعالیٰ کے کچھ اسماء و صفات کا انکار کرتے ہیں، اور نصوص صفات کے ظاہری معنی میں تحریف اور تبدل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہیں مؤولہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان پر رد کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان سے کہیں گے :
◈ تمہارا یہ قول ظاہر نصوص کے خلاف ہے۔
◈ طریقہ سلف کے خلاف ہے۔
◈ تمہارے مذہب کی کسی صحیح دلیل سے تائید بھی نہیں ہوتی۔
بعض صفات میں ان کے رد کے لئے چوتھی وجہ یا اس سے زائد وجوہات بھی ممکن ہیں ۔
تفصیل دیکھئے: القواعد المثلى فى صفات الله وأسمائه الحسنى اور شرح لمعة الإعتقاد۔
توحید کی شروط :
” شروط “ شرط کی جمع ہے، عربی زبان میں ” شرط“ کہتے ہیں۔إلزام الشئى وإلتزامه في البيع۔ وغیرہ کہ بیع وغیرہ میں لزوم و پابندی کی لگائی جانے والی قید جس کی پابندی ضروری ہو۔
المعجم الوسيط، مادة شرط، ص : ٥٦٥.۔
اور فقہ اسلام کی روشنی میں ”شرط” سے مراد وہ چیز ہے جس کے ہونے پر حکم کے ہونے کا انحصار ہو، اور اس کے نہ ہونے سے حکم وجود میں نہیں آسکتا۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جب وہ ہو تو حکم بھی ضرور وجود میں آئے ، جیسے نماز کے لئے وضوء کا شرط ہونا۔
اگر وضو ہوگا تو نماز صحیح ہوگی، اور اگر وضوء نہ ہوگا تو نماز نہیں ہو سکتی لیکن اس کے ہونے سے یہ ضروری نہیں کہ نماز ضرور پڑھی جائے ۔
أصول الفقه الإسلامي، ص: ۳۱۵ زبدة النقول از راقم الحروف ، ص: ۹۸.
اسی طرح توحید کی شروط اگر نہ ہوں تو توحید بھی نہیں ہوگی ، توحید کی شروط سات (۷) ہیں:
➊علم
➋یقین
➌اخلاص
➍صدق
➎محبت
➏تابعداری اور اطاعت شعاری
➐قبول کرنا
بعض علماء نے انہیں ایک شعر میں جمع کر دیا ہے:
عِلْمٌ يَقِينٌ وَ إِخْلَاصٌ وَصِدُقُكَ مَعَ
مَحَبَّةٍ وَ إِنْقِيَادٍ وَ الْقُبُولُ لَهَا
ذیل کی سطور میں ہم اتمام فائدہ کے لئے ان کی تفصیل بیان کر دیتے ہیں۔
➊علم
توحید اور قبول اسلام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جہالت اور لاعلمی ہے، لہذا کسی بھی انسان کے لئے یہ لازمی امر ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لئے توحید کا علم رکھے۔
فرمان باری تعالی ہے:
فَاعْلَم أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
پس اے میرے نبی ! آپ جان لیجئے کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
(محمد:۱۹)
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ایک گواہی اور شہادت ہے، اور جو شخص کسی بات کی شہادت دے رہا ہو، اس کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہو جس بات کی گواہی دے رہا ہے۔ چنانچہ ابوالمظفر وزیر فرماتے ہیں۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا تقاضا ہے کہ اس کا اقرار کرنے والا اس بات سے اچھی طرح واقف ہو کہ اللہ کے علاوہ مستحق عبادت کوئی نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
فَاعْلَم أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
پس اے میرے نبی ! آپ جان لیجئے کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
فتح المجيد، ص : ٣٧،٣٦ .
اسی آیت کریمہ کو دلیل بناتے ہوئے امام بخاریؒ اپنی صحیح کتاب العلم میں باب قائم کرتے ہیں۔ ” باب العلم قبل القول والعمل “ باب اس بیان میں کہ علم(کا درجہ) قول و عمل سے پہلے ہے۔
مزید برآں رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:
مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَن لا إِلهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ .
’’جو شخص اس حال میں مر گیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو وہ آدمی جنت میں داخل ہوگا۔“
صحیح مسلم، کتاب الإيمان مسند أحمد ٦٩،٦٥/١.
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث نبوی ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کسی شخص کے لئے توحید کا مفہوم اس کے معانی اور اس کو ثابت کرنے والے امور کا جاننا اور علم رکھنا ضروری ہے۔
اور سورۃ ابراہیم (آیت : ۵۲) میں لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا علم حاصل کریں، کیونکہ علم ، توحید کے لئے ایسی شرط ہے جس سے انسان کا یقین محکم ہو جاتا ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، فرمایا:
هَٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٥٢﴾
” یہ لوگوں کے لئے اللہ کا پیغام ہے، اور تا کہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے ، اور تا کہ وہ جان لیں کہ بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، اور تا کہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے لِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهُ وَاحِدٌ فرمایا ہے جس کا معنی ہے ’’تا کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا علم حاصل کریں۔“ یہ نہیں فرمایا کہ لِيَقُولُوا إِنَّمَا هُوَ إله واحِدٌ ’’تا کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کریں۔“
یعنی اقرار نہیں، بلکہ علم رکھنا ضروری ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٨٦﴾
’’اور اللہ کے سوا جن جھوٹے معبودوں کو یہ مشرکین پکارتے ہیں۔ اُن کو شفاعت کا کوئی اختیار نہیں ہوگا ، ہاں ! جن لوگوں نے حق کو جان کر اُس کی گواہی دی (ان کو شفاعت کی اجازت ملے گی)۔ “
(الزخرف :٨٦)
اس آیت کریمہ میں (إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ) کا معنی ہے ۔ (إِلَّا مَنْ شَهِدَ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔
”ہاں! جن لوگوں نے توحید کو جان کر اُس کی گواہی دی۔“
دیکھئے: تفسير البغوى ٢٢٤/٧، فتح القدير للشوكاني ٥٦٧/٤.
کتاب وسنت سے یہ بعض دلائل ہیں جو اس بات کو قطعیت کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ توحید کے لئے ”علم“ کی شرط بڑی ضروری شرط ہے۔
➋یقین
توحید کے معانی کو سمجھنے کے بعد اس پر دل سے یقین کرنا ’’کہ تمام عبادات کے لائق اللہ تعالیٰ ہے‘‘ اور اس میں ذرا سا بھی تردد نہ کرنا توحید کی دوسری شرط ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انہیں اپنے دعویٰ ایمان میں سچا قرار دیتے ہوئے بایں الفاظ تعریف فرمائی:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿١٥﴾
’’یقیناً مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر شک میں مبتلا نہیں ہوئے ، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی لوگ سچے ہیں ۔“
(الحجرات : ١٥)
اسی طرح حدیث میں آتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدُ غَيْرَ شَادٍ فِيهِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں (محمد) اللہ کا رسول ہوں، اور پھر جس نے ان دونوں گواہیوں میں شک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“
صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم : ۱۳۸ ، مسند أحمد/ ١ / ٦٥، كنز العمال، رقم: ١١٦.
اور سیدنا معاذؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَهِيَ تَشْهَدُ أن لا إله إلا الله وأنّي رَسُولُ اللهِ يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلى قَلبِ مُوقِن إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهَا.
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ یقین کے ساتھ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اللہ (تعالی) اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔“
مسند أحمد ۲۲۹/٥ ، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ ٣٦٩/١ ، رقم : ٢٠٣. سلسلة الصحيحة۔
یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ توحید کے لئے یقین شرط ہے، بلکہ بعض ائمہ نے تو اسے اصل الایمان کہہ دیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے (فتح الباری ۴۸/۱) پر سیدنا عبد اللہ بن مسعود کا قول نقل فرمایا ہے کہ : الْيَقِينُ الْإِيْمَانُ كُلُّهُ ’’یقین سارا ایمان ہے۔‘‘
سیدنا ابن مسعود کی مراد یہ ہے کہ یقین ایمان کی بنیاد ہے ، حتی کہ سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے تھے : ”اگر یقین دل میں گھر کر جائے تو جنت کے لئے انسان کا شوق بڑھ جاتا ہے، اور جہنم سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔‘‘
فتح البارى ٤٨/١
اور اس کے برعکس ’’شک‘‘ نفاق کی علامت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا ہے۔
إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ ﴿٤٥﴾
’’آپ سے اجازت صرف وہ لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں، پس وہ اپنے اسی شک میں سرگرداں ہیں۔‘‘
(التوبه :٤٥)
➌اخلاص
توحید کی شروط میں سے تیسری شرط اخلاص ہے، اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ عبادت خالصتاً اللہ کے لئے ہو، اس میں ریا، دکھلاوا ، نمود و نمائش اور اغراض دنیا کا عمل دخل نہ ہو، وگرنہ اخلاص کی شرط ختم ہو جائے گی، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اصل الاسلام شہادتین ہے، پس جس نے عبادت میں نمود و نمائش کو طلب کیا ، اس نے توحید کا یقین نہیں کیا۔“
مجموع الفتاوى ٦١٧/١١.
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴿٣﴾
”اے میرے نبی ! بے شک ہم نے یہ کتاب آپ پر دین حق کے ساتھ نازل کی ہے، پس آپ اللہ کی بندگی، اس کے لئے دین کو خالص کر کے کرتے رہیے، آگاہ رہیے کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے، اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا غیروں کو دوست بنایا (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، بے شک وہ لوگ جس حق بات میں آج جھگڑتے ہیں اس بارے میں اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا ، بے شک اللہ جھوٹے اور حق کے منکر کو راہ حق کی ہدایت نہیں دیتا۔“
(الزمر : ۳۰۲)
دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي ﴿١٤﴾
”اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجئے ، میں تو اپنی بندگی کو اللہ کے لئے خالص کر کے صرف اُسی کی عبادت کرتا ہوں۔“
(الزمر: ١٤)
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
’’اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے یکسو ہوکر ۔“
(البينة : ٥)
اس طرح اخلاص کا معنی یہ بھی ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار کسی اور کی خاطر کسی اور کی خوشنودی کے لئے نہ ہو۔ چنانچہ پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى النَّاسِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجُهَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ .
”یقینا اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر جہنم کو حرام کر دیا ہے جو اللہ عزوجل کی رضامندی کے لئے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہتا ہے ۔“
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب العمل الذي يبتغي به وجه الله رقم : ٦٤٢٣ـ
اور سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے، یقیناً نبی ﷺ نے فرمایا:
مَنْ شَهِدَ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ.
’’جس شخص نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی گواہی دل کو خالص کرتے ہوئے دی وہ جنت میں داخل ہوگا۔“
سلسلة الصحيحة، رقم: ٢٣٥٥.
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ اے ابو ہریرہ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی ۔
أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أو نَفْسِهِ.
’’(سنو!) میری شفاعت سے قیامت کے دن سب سے زیادہ فیض یاب وہ شخص ہوگا ، جو سچے دل سے یا سچے جی سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کہے گا ۔
صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الحرص على الحديث رقم : ۹۹، مسند أحمد ۳۷۳/۲.
دل سے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شرک سے بچے ، کیونکہ جو شرک سے نہ بچا وہ دل سے اس کلمہ کا قائل نہیں ہے اگرچہ زبان سے پڑھتا ہو۔ لہذا توحید کے لئے اخلاص بنیادی شرط ہے، اس کے بغیر توحید قبول نہیں ہوتی، بلکہ کوئی بھی عمل اخلاص کے بغیر مقبول نہیں ٹھہرتا ، امیر عمرؓ دعا کیا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ اجْعَلْ عَمَلِى صَالِحًا، وَاجْعَلْهُ لَكَ خَالِصًا، وَلَا تَجْعَلُ لأحَدٍ فِيهِ شَيْئًا .
”اے اللہ ! میرے عمل کو درست کر دے، اور اس کو اپنے لئے خالص بنالے اور تو اس میں کسی کا حصہ نہ بنا۔“
الزهد للإمام أحمد، رقم : ٦١٥ بسند صحيح.
سب کو یہ معلوم ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں، وہی تنہا پیدا کرنے والا ہے، روزی دینے والا ہے اور وہی آسمان و زمین کے درمیان سارے امور کی تدبیر کرنے والا ہے، ان ساری نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ بناؤ، جو تمہاری طرح مخلوق ہیں، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٢﴾
”اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر گئے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ، جس نے زمین کو تمہارے لئے فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعہ اس نے مختلف قسم کے پھل نکالے تمہارے لئے روزی کے طور پر ، پس تم اللہ کا شریک اور مقابل نہ ٹھہراؤ ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ اس کا کوئی مقابل نہیں)۔“
(البقره: ۲۲،۲۱)
اس طرح مذکورہ بالا آیات میں تین باتیں جمع ہوگئی ہیں، صرف ایک اللہ کی خالص عبادت کا حکم ، اس کے سوا کی عبادت کا انکار، اور توحید ربوبیت کا بیان کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق، رازق اور مدبر نہیں، اور یہ واضح دلیل ہے اس بات کی کہ سارے انسانوں پر صرف اس ذات واحد کی بندگی واجب ہے۔
➍صدق
صدق کا مطلب یہ ہے کہ انسانی توحید کے مفہوم کو سمجھنے، یقین کرنے اور اخلاص پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان امور میں سچائی اور صدق سے کام لے۔ ایسا صدق پیدا کرے جو کذب کے سراسر منافی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِى جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
’’اور جو رسول سچی بات لے کر آیا، اور جن لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔“
(الزمر: ۳۳)
سیّدنا ابن عباسؓ ’’الصدق“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ’’کلمہ توحید‘‘ ہے۔
تفسير ابن كثير ٤٨٤/٤ ، الدر المنثور ۱۹۷/۷، تفسیر طبری ٤/١١
لہذا (وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ) کا معنی یہ ہوگا کہ اور جس نے ’’کلمہ توحید‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے کے بعد ایسا صدق پیدا کیا جو جھوٹ اور کذب کے منافی ہو تو وہ متقی ہے۔
اسی طرح توحید میں صدق کی شرط پر کئی ایک احادیث صراحت سے دلالت کرتی ہیں، چنانچہ ابو موسیٰ اشعریؓ کو ان کی قوم کے ساتھ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
أَنَّ مَنْ شَهِدَ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ صَادِقًا بهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
’’جس نے سچے (دل سے) لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی گواہی دی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔“
مسند أحمد ٤٠٢/٤، رقم: ١٩٥٩٧
اور آپ ﷺ نے سیدنا معاذؓ سے فرمایا :
مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولَ الله صِدقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ۔
جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کردیتا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب العلم باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفقهوا، رقم: ۱۲۸.
مگر جو شخص محض زبان سے تو اقرار کرتا ہے لیکن دل سے توحید کے مفہوم کا منکر ہے تو وہ منافق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ﴿١﴾
اے میرے نبی ! جب آپ کے پاس منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ آپ بے شک اس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین بے شک پکے جھوٹے ہیں۔“
(المنفقون: ١)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ اے میرے نبی ! جب عبداللہ بن ابی بن سلول اور دیگر منافقین آپ کی مجلس میں آتے ہیں، تو اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتے ہیں، اور آپ کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں : ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ جانتا ہے کہ آپ اُس کے رسول ہیں، چاہے منافقین اس کی گواہی دیں یا نہ دیں۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین اپنی گواہی میں جھوٹے ہیں، کیونکہ اُن کا باطن اُن کے ظاہر کے خلاف ہے۔ لہذا صدق فی التوحید لازمی امر ہے۔
➎محبت
توحید کی شروط میں سے پانچویں شرط محبت ہے ، در حقیقت توحید کی معرفت اور صحیح اعتقاد محبت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ محبت ایسے اخلاص پر دلالت کرتی ہے جو شرک کے منافی ہوتا ہے، پس جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ اس کے دین سے بھی محبت کرتا ہے۔
مختصر العقيدة الإسلاميه، ص : ٥٨ ، بيان مسائل الكفر والإيمان، ص: ١٦٧.
اور جو شخص اس کے دین اور توحید سے محبت رکھتا ہو اسے اس محبت کا اظہار اپنے عمل کے ذریعے کرنا چاہیے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ﴿١٦٥﴾ إِذْ
’’اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں ، اور اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے اور اہل ایمان اللہ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔“
(البقره: ١٦٥)
❀ حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں :
شرک کی دو قسمیں ہیں ۔
◈شرک اکبر
◈شرک اصغر
شرک اکبر کو اللہ تعالیٰ بغیر توبہ معاف نہیں کرتا ، اور وہ یہ ہے کہ بندہ کسی کو اللہ کا شریک بنالے، اور اس سے ویسی ہی محبت کرے جیسی اللہ سے کی جانی چاہیے، اور یہ وہ شرک ہے جس میں مشرکین اپنے معبودان باطلہ کو رب العالمین کے برابر قرار دیتے ہیں، اور یہ برابری محبت، تعظیم اور عبادت میں ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر مشرکین عالم کا حال ہے! بلکہ اکثر مشرکین تو اپنے معبودوں سے اللہ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ان کو یاد کرکے زیادہ خوش ہوتے ہیں، اگر ان معبودوں اور مشائخ کا جنہیں انہوں نے اپنا معبود بنالیا ہے، کوئی شخص ادب و احترام کے ساتھ نام نہیں لیتا، تو اس قدر غضبناک ہوتے ہیں اور چیتے یا کتے کے مانند غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی اللہ کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرتا ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ تھوڑے سے دنیاوی لالچ کی خاطر فورا خوش ہو جاتے ہیں ، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
شرح المنازل، باب التوبة.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿٤٥﴾
’’اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، جب اُن کے سامنے صرف ایک اللہ کا ذکر آتا ہے ، تو ان کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں ، اور جب اللہ کے سوا غیروں کا ذکر آتا ہے، تو خوشی سے ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔“
(الزمر : ٤٥)
قارئین کرام ! صادق الایمان تو وہی ہوتے ہیں ، جو توحید باری تعالیٰ کا صحیح علم رکھنے کی وجہ سے اللہ کے ساتھ اس کی محبت میں کسی غیر کو شریک نہیں بناتے ۔
❀ یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں:
” جو شخص اللہ کی حدود (میں کسی کو شریک بنائے اور اُن) کا پاس نہ رکھے تو وہ اللہ سے محبت کے دعوے میں قطعی سچا نہیں ہے۔‘‘
جامع العلوم والحكم، ص : ٣٩٧ .
❀ ابو یعقوب فرماتے ہیں:
” کوئی بھی شخص جو اللہ عزوجل سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے ،لیکن اللہ کے احکامات بجا نہیں لاتا ، تو اس کا دعوی باطل ہے، اور جو اللہ سے محبت کا دم بھرتا ہے لیکن اللہ سے نہیں ڈرتا تو وہ مغرور ہے۔“
جامع العلوم والحكم ، ص : ٣٩٧، الحلية ٣٥٦/١٠.
اللہ تعالیٰ کی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ اس کی نافرمانی نہ کریں، بلکہ اطاعت گزاری کریں ، بعض سلف کا کہنا ہے۔
تَعْصِى الإِلهَ وَأَنتَ تَزْعُمُ حُبَّهُ
هذَا لعمرى فِي الْقِيَاسِ شَنِيْعُ
لَوْ كَانَ حُبُّكَ صَادِقًا لأطَعْتَهُ
إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ
جامع العلوم والحكم، ص : ٣٩٧.
آپ اللہ کی نافرمانی بھی کرتے ہیں، اور اس سے اظہار محبت بھی کرتے ہیں۔ واللہ ! یہ تو بڑی بُری بات ہے۔ اگر آپ کی محبت سچی ہوتی تو آپ اس کی فرمانبرداری کرتے ، کیونکہ محبّ ، محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“
(آل عمران : ۳۱)
❀ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :
’’کہ یہ آیت کریمہ اُن تمام لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو کہ اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور طریقہ محمدی پر گامزن نہیں ہوتے ، جب تک آدمی اپنے تمام اقوال و افعال میں شرع محمدی کی اتباع نہیں کرتا ، وہ اللہ سے محبت کے دعوے میں کاذب ہوتا ہے۔“
تفسير ابن كثير ٤٧٢/١ ، طبعه مكتبه قدوسيه.
کوئی بھی شخص جب توحید میں محبت کی شرط پیدا کر لیتا ہے تو اسے ایمان کی مٹھاس محسوس ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ثَلَاتٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ : مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذَا أَنْقَذَهُ اللهُ كَمَا يَكْرَهُ أَن يُلْقَى فِي النَّارِ .
’’جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں ، اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لئے محبت کرے، اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔“
صحيح بخاري، كتاب الإيمان، رقم: ۲۱ ، وصحيح مسلم كتاب الإيمان، باب بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان، رقم : ١٦٥ .
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب السراج الوھاج(۸۱٫۱) پر رقم طراز ہیں:
وَهذَا الْحَدِيثُ بِمَعْنَى حَدِيث : ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَصِحُ الْمَحَبَّةُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ حَقِيْقَةٌ ، وَحُبُّ الْآدَمِي فِي اللهِ وَرَسُولِهِ ، وَكرَاهَةُ الرُّجُوعِ إِلَى الْكُفْرِ لَا يَكُونُ إِلَّا لِمَنْ قَوَى الْإِيْمَانُ يَقِيْنَهُ ، وَاطْمَأَنَّتُ بِهِ نَفْسُهُ ، وَانُشَرَحَ لَهُ صَدْرُهُ ، وَخَالَطَ لَحْمَهُ دَمَهُ ، وَهَذَا هُوَ الَّذِى وَجَدَ حَلَاوَتَهُ. وَالْحَبُّ فِى اللَّهِ مِنْ ثَمَرَاتِ حُبِّ الله .
اور یہ حدیث دوسری حدیث ” ذاق طعم الایمان الخ “ ہی کی ہم معنی ہے، جس میں ہے کہ ایمان کا مزہ اس شخص نے چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر رضامند ہو گیا، اور جس نے اسلام کو بطورِ دین کے اختیار کر لیا، اور سیدنا محمد ﷺ کو بحیثیت رسول تسلیم کر لیا، اور یہ نعمت (عظمی) اسی خوش نصیب کو حاصل ہوتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو قومی اور مضبوط کر دیا ہو، اور اس سے اس کا جی مطمئن ہو گیا، اور اس کا انشراح صدر ہو گیا، اور ایمان و یقین اس کے گوشت اور خون میں داخل ہو گیا ، اور یہی وہ خوش نصیب انسان ہے، جس نے ایمان کی مٹھاس محسوس کرلی اور اللہ کے لئے اس کے نیکو کار بندوں کی محبت اللہ ہی کی محبت کا پھل ہے۔“
اس سے تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں :
أَصْلُ الْمُحَبَّةِ : الْمَيْلُ إِلى مَا يُوَافِقُهُ الْمُحِبُّ.
ثُمَّ الْمَيْلُ قَد يَكُونُ لِمَا يَسْتَلِدُّهُ الْإِنْسَانُ وَيُحَسِنُهُ ، كَحُسُنِ الصُّورَةِ ، وَالصَّوْتِ ، وَالطَّعَامِ ، وَنَحُوهَا ، وَقَدْ يَسْتَلِنُّهُ بِعَقْلِهِ لِلْمَعَانِي الْبَاطِنَةِ ، كَمُحَبَّةِ الصَّالِحِينَ ، وَالْعُلَمَاءِ وَأَهْلُ الْفَضْلِ مُطْلَقًا ، وَقَدْ يَكُونُ لاِحْسَانِهِ إِلَيْهِ ، وَدَفَع الْمَضَارِ وَالْمَكَارِهِ عَنْهُ . وَهَذِهِ الْمَعَانِي كُلُّهَا مَوْجُودَةٌ في النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ لِمَا جَمَعَ مِنْ جَمَالِ الظَّاهِرِ وَالْبَاطِنِ ، وَكَمَالِ خِلَالِ الْجَلَالِ وَأَنْوَاعِ الْفَضَائِلِ ، وَإِحْسَانِهِ إِلَى جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ هِدَايَتَهُ إِيَّاهُمْ إِلَى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ.
’’دراصل محبت دلی میلان کا نام ہے، کبھی یہ میلان حسین و جمیل صورتوں کی طرف ہوتا ہے، کبھی خوبصورت آواز یا اچھے کھانے کی طرف، کبھی یہ لذت میلان باطنی معانی سے متعلق ہوتی ہے۔ جیسے صالحین ، علماء اور صاحب فضل سے ان کے مراتب کمال کی بناء پر محبت رکھنا، اور کبھی محبت ایسے لوگوں سے پیدا ہو جاتی ہے جو صاحب احسان ہیں، جنہوں نے مصائب اور شدائد میں مدد کی ہے، ایسے لوگوں کی محبت بھی مستحسن ہے، اور اس قسم کی جملہ خوبیاں پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں جمع ہیں ۔ آپ کا ظاہری اور باطنی جمال اور آپ کے اوصاف حمیدہ اور شمائل و فضائل اور تمام مسلمانوں پر آپ کے احسانات ظاہر ہیں کہ انہیں آپ ﷺ نے راہ حق کی ہدایت دی۔‘‘
❀ اسی لئے امام مالکؒ فرماتے تھے:
الْمُحَبَّةُ فِى اللهِ مِنْ وَاجِبَاتِ الْإِسْلَامِ وَفِي الْكِتَابِ الْعَزِيزِ۔
اللہ کی محبت واجبات اسلام سے ہے
حواله أيضًا.
کیونکہ کتاب عزیز میں فرمان باری ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ۔
” اور مومنین اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔“
[البقرة : ١٦٥]
آگے نواب مرحوم عشق مجازی پر ایک لمبا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَمِنْ أَعْظَمِ مَكَائِدِ الشَّيْطَان ، مَا فُتِنَ بِهِ عُشَّاقُ صُوَرِ الْمُرْدِ وَالنِّسْوَان وَتِلْكَ لَعَمُرُ اللَّهِ ! فِتْنَةٌ كُبُرَى ، وَبِلِيَّةٌ عُظمى ، اسْتَعَبدَاتِ النَّفُوسُ لِغَيْرِ خِلَاقِهَا .
” اور شیطان کے بڑے جالوں میں سے ایک جال یہ بھی ہے جس میں بہت سے عشاق رہتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں جو ” آمرد‘‘ لڑکوں اور عورتوں کی صورتوں پر عاشق ہو کر اپنی دنیا و آخرت تباہ و برباد کر لیتے ہیں ۔ واللہ ! یہ بہت ہی بڑی آزمائش ہے، اللہ ہر کسی کو اس سے بچا کر رکھے۔ آمین۔“
حواله أيضًا.
اور نواب مرحوم دوسری جگہ اپنے مشہور مقالہ تحريم الخمر میں رقم طراز ہیں :
’’مرض عشق کو شراب و زنا کے ساتھ مثل غنا کے ایک مناسبت خاص ہے، یہ مرض شہوت فرج سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مزاج پر شہوت غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری اس شہوت پرست کو پکڑ لیتی ہے۔ جب وصال معشوق محال ہوتا ہے یا میسر نہیں آتا تو عشق سے حرکات بے عقلی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لہذا کتب دین میں عشق کی مذمت آئی ہے اور اس کا انجام شرک ٹھہرایا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی جگہ اس منحوس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ قصہ زلیخا میں افراط محبت کو بلفظ ’’شغف حب‘‘ تعبیر کیا ہے۔ یہ حرکت زلیخا سے حالت کفر میں صادر ہوئی تھی ۔ ہنود میں بھی ظہور عشق عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بخلاف عرب کے کہ وہاں مرد عشاق زن ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قیس لیلیٰ پر فریفتہ تھا۔ اس سے بدتر عشق اہل فارس کا ہے کہ وہ ” آمرد“ پر شیفتہ ہوتے ہیں ۔ یہ ایک قسم لواط اور اغلام کی ہے۔ جس طرح کہ عورت کی طرف سے عشق کا ظہور ایک مقدمہ زنا ہے ۔ جو کوئی اس مرض کا مریض ہوتا ہے وہ شرابی زانی ہو جاتا ہے ۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ عشق بندے کو توحید الہ العالمین سے روک کر گرفتار شرک و بت پرستی کر دیتا ہے ۔ اس لئے کہ عاشق معشوق کا بندہ ہو جاتا ہے۔ اس کی رضا مندی کو خالق کی رضا مندی پر مقدم رکھتا ہے ۔ یہی اس کی صنم پرستی ہے۔‘‘
بحواله شرح صحیح بخاری از داؤد راز رحمه الله ۲۰۳،۲۰۲/۱.
ہم نے بعض عشاق کو تو یہ کہتے بھی سنا ہے، اور عشقیہ اشعار کی کتب میں پڑھا بھی ہے:
ہم نے برسوں تیری یادوں کا سہارا لے کر
تجھ کو پوجا ہے خیالوں کے صنم خانوں میں
اور اس پر بھی مستزاد یہ :
تو وہ بت ہے کہ تخیل کے صنم خانوں میں
میرے احساس کے آزر نے تراشا ہے تجھے
(بہاروں کے پھول)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس خارستان شرک سے محفوظ رکھے ، اور اپنی محبت بخش کر مجاز سے حقیقت کی طرف لائے ۔آمین
تفصیل دیکھئے: إغاثة اللهغان ٢١٢/٢ – ٢٢٥، الجواب الكافي، ص: ۳۱۰،۳۰۷.
❀علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
وَأَصْلُ الْعِبَادَةِ وَتَمَامُهَا وَكَمَالُهَا هُوَ الْمُحَبَّةُ ، وَإِفْرَادُ الرَّبِّ سُبْحَانَهُ بِهَا ، فَلَا يُشْرِكِ الْعَبْدُ بِهِ فِيهَا غَيْرَهُ.
یہ اصل عبادت ہے، اور اسی سے عبادت تمام و کمال ہوتی ہے کہ سراپا محبت ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ہو ، بندہ اس محبت میں کسی غیر کو شریک نہ کرے۔
إغاثة اللهغان ٢/ ١٨٣.
’’اس بحث سے معلوم ہوا کہ محبت کی شرط توحید کے لئے جز ولا ینفک کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ جو اللہ کے ساتھ محبت میں غیر کو شریک ٹھہراتا ہے، وہ مشرک ہے۔“
إغاثة اللهغان ٢ / ١٩٣.
➏تابعداری اور اطاعت شعاری
توحید کی شروط میں سے چھٹی شرط ’’تابعداری اور اطاعت شعاری ہے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان توحید کو سمجھنے کے بعد اس طرح مطیع ہو جائے کہ اللہ عزوجل کے فرائض پر عمل کرے اور اس کی حرام کردہ اشیاء کو ترک کر دے، کیونکہ اسلام در حقیقت اپنے جوارح کو اللہ کی توحید کے ساتھ اطاعت شعار بنانے کا نام ہے۔“
مختصر العقيدة الإسلاميه، ص : ٥٨.
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿٥٤﴾
’’اور تم سب اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اسی کی اطاعت و بندگی میں لگے رہو ، اس سے قبل کہ تم پر عذاب نازل ہو جائے ، پھر کسی کی جانب سے تمہاری مدد نہ کی جائے ۔“
(الزمر: ٥٤)
جو شخص اپنے رب کا پورے طور پر فرمانبردار ہو گیا، اور کامل اخلاص کے ساتھ اس کے اوامر ونواہی کو بجالایا ، اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا، اس آدمی کی مانند جو کسی اونچے پہاڑ پر چڑھنے کے لئے اس سے لٹکتے ہوئے مضبوط ترین سہارے کو تھام کر اس کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ
” اور جس نے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ، درآنحالیکہ وہ نیکو کار ہو، تو اس نے مضبوط سہارا تھام لیا۔“
(لقمان : ۲۲)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ الْعُرْوَةِ الْوُثْقَى یعنی مضبوط سہارے سے مراد کلمہ توحید لَا إِلَهَ إِلَّا الله ہے۔
تفسیر طبری ۲۱۹/۱۰۔
یادر ہے کہ جس طرح اللہ عزوجل کی فرمانبرداری واجبات سے ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے لئے استسلام انتہائی ضروری ہے، چنانچہ اللہ عزوجل نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول اللہ ﷺ کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لئے کہ آپ کا فیصلہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دل میں اعتقاد رکھنا اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے، اسی لئے اللہ نے اس کے بعد ذیل کی آیت کے آخر میں فرمایا ؛ یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر و باطن اسے تسلیم کرلے، اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں شبہ باقی نہ رہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ملاحظہ ہو:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’پس آپ کے رب کی قسم ! وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے ، جب تک آپ کو اپنے اختلافی اُمور میں اپنا فیصل نہ تسلیم کر لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف محسوس نہ کریں ، اور پورے طور سے اسے مان لیں۔‘‘
(النساء: ٦٥)
اس آیت کریمہ کے شانِ نزول کے سلسلہ میں وہ حدیث ملاحظہ ہو جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں (برقم: ۴۵۸۵) از عروہ بن زبیر روایت کیا ہے کہ ”سیدنا زبیرؓ کا حرہ کے پانی کے بہاؤ کے بارے میں ایک انصاری سے اختلاف ہو گیا اور معاملہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچا، تو آپ نے کہا کہ اے زبیر! زمین سیراب ہو جانے کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو، تو انصاری نے کہا؛ یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ایسا فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ اس پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور کہا کہ اے زبیر! زمین کو سیراب کرو اور پانی کو روک رکھو، یہاں تک کہ پانی تمہاری زمین کی دیوار سے لگ جائے ، اس کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف کھول دو، جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو ناراض کر دیا تو آپ نے زبیر کو صراحت کے ساتھ ان کا پورا حق دیا، حالانکہ پہلے آپ نے دونوں کو ایک ایسا مشورہ دیا تھا جس میں انصاری کی رعایت کی گئی تھی ، بعد میں زبیرؓ کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں یہ آیات اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھیں۔
❀ حافظ ابن قیمؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أَقْسَمَ سُبُحَانَهُ بِنَفْسِهِ عَلى نَفِي الْإِيمَانِ عَنِ الْعِبَادِ حَتَّى يُحَكِّمُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُلِّ مَا شَجَرَ بینھم۔
”اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا ، جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لے۔‘‘
أعلام الموقعين ٥١/١.
ڈاکٹر عبدالحلیم محمودؒ فرماتے ہیں :
أَوَالتَّحْكِيمُ إِذَا كَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَالَ حَيَاتِهِ فَإِنَّهُ بِسُنَّتِهِ وَتَعَالِيْمِهِ بَعْدَ انْتِقَالِهِ إِلَى الرَّفِيقِ الأعلى.
آپ علیہ الصلوۃ والسلام اپنی حیات مبارکہ میں حاکم تھے، اور آپ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی سنت اور آپ کی تعلیمات کو بطور فیصل ماننا ہوگا۔“
دلائل النبوة ومعجزات الرسول صلى الله عليه وسلم، ص : ٢٦٤.
پیارے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت اور احادیث مبارکہ کی اہمیت کو ذہن نشین کرنے کے لئے بعض علماء و اسلاف کے اقوال ملاحظہ فرمالیں:
امام فخر الدین رازیؒ المتوفی ۶۰۶ ھ کا قول :
امام فخر الرازیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائی جائیں:
➊ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ سے راضی ہونا۔
➋ دل میں اس بات کا یقین رکھنا کہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہی برحق ہے۔
➌ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ذرا سا بھی تردد سے کام نہ لینا۔
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہر صحیح حدیث اس آیت کے ضمن میں آتی ہے، اور ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہر صحیح حدیث کو قبول کرے، اور مذہبی تعصب کی وجہ سے کسی حدیث کو رد نہ کرے، ورنہ اس آیت میں مذکور وعید اس کو بھی شامل ہوگی ۔
تفسير كبير ١٦٤/١٠۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ المتوفی ۶۶۱ ھ کا قول :
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن وسنت اور اجماع کے ذریعہ یہ بات ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اللہ نے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض کیا ہے، اوامر و نواہی میں اللہ نے رسول ﷺ کے علاوہ اس اُمت پر کسی کی اطاعت کو فرض نہیں کیا ہے، اسی لیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کہا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں ، تم لوگ میری اطاعت کرو، اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگ میری اطاعت نہ کرو، تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، اسی لئے بہت سے ائمہ کرام نے کہا ہے کہ ہر آدمی کی کوئی بات لی جائے گی اور کوئی چھوڑ دی جائے گی سوائے رسول اللہ ﷺ کے ، اور یہی وجہ تھی کہ فقہی مذاہب کے چاروں مشہور اماموں نے لوگوں کو ہر بات میں اپنی تقلید کرنے سے منع فرمایا تھا۔‘‘
مأخوذ از تیسیر الرحمان، ص: ۲۷۳،۲۷۲.
علامہ ابن قیم الجوزیہؒ المتوفی ۶۹۱ ھ کا قول:
امام ابن قیم الجوزیہؒ لکھتے ہیں کہ ” تم بتوں کو دیکھو گے کہ جب کوئی حدیث اس امام کے قول کے موافق ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، اور اس کے راوی کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ دلیل راوی کی روایت ہے، اس کا عمل نہیں ، اور جب راوی کا عمل اس کے امام کے قول کے موافق ہوتا ہے، اور حدیث اس کے مخالف ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ راوی نے اپنی روایت کی مخالفت اس لئے کی ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہے، ورنہ اس کی یہ مخالفت اس کی عدالت کو ساقط کر دیتی ، اس طرح وہ لوگ اپنے کلام میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی باب میں بدترین تناقض کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن ہمارا ایمان یہ ہے کہ صحیح حدیث آجانے کے بعد امت کے لئے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔‘‘
أعلام الموقعين
➐قبول کرنا
توحید کی شروط میں سے آخری شرط قبول کرنا ہے۔ یعنی کلمہ توحید لَا إِلَهَ إِلَّا الله کے مفاہیم کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کر لیا جائے ، اور تکبر، حسد اور کینہ کی بناء پر یا تساہل سے کسی بھی قسم کی عبادت کو رد نہ کیا جائے وگر نہ قبول کی شرط مفقود ہو جائے گی ۔
مختصر العقيدة الإسلاميه، ص : ٥٨
اور توحید ناقص ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے کفار کی یہی خرابی بیان کی ہے:
إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ﴿٣٥﴾ وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ ﴿٣٦﴾
’’اُن سے جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تکبر وغرور کا اظہار کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک مجنون شاعر کی باتوں میں آکر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔“
(الصفت:۳۶،٣٥)
اور اس کے برعکس توحید کے مفاہیم کو سمجھ کر صرف اسی کی عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے جنت کی خوشخبریاں بھی موجود ہیں، اور ان کا اللہ انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازنے کا وعدہ فرماتا ہے۔
إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ ﴿٤١﴾ فَوَاكِهُ ۖ وَهُم مُّكْرَمُونَ ﴿٤٢﴾ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿٤٣﴾
’’مگر اللہ کے برگزیدہ بندوں کے لئے ہمیشہ باقی رہنے والی روزی مقرر ہے۔ انواع واقسام کے پھل ، درآنحالیکہ وہ معزز و مکرم ہوں گے۔“
(الصفت : ٤٠-٤٣)
اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِى عَرَضْتُهَا عَلَى عَمِّي فَرَدَّهَا عَلَيَّ، فَهِيَ لَهُ نَجَاةٌ.
’’جس نے مجھ سے کلمہ (توحید) قبول کر لیا تو یہ کلمہ اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا، اسی کلمہ کو میں نے اپنے چچا پر بھی پیش کیا تھا ، لیکن اس نے اسے رد کر دیا تھا۔ (قبول نہیں کیا تھا)۔“
مسند أحمد ٦/١ برقم: ٢٠، تاریخ بغداد ٢٧٢/١، كشف الأستار عن زوائد البزار ۹/۱، مسند أبي يعلى ٢١/١ ، رقم : ٦٤٠ ، كنز العمال، رقم : ١٦٤.
اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے کلمہ توحید کو قبول کرنے والے شخص کو نجات کی بشارت دی ہے۔