اللہ کی محبت اور انسان کے اعمال کا انجام
تحریر: محمد سلیم

سوال کا پس منظر:

آج کل ملحدین کی جانب سے یہ سوال بہت عام ہو چکا ہے کہ اگر خدا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو جہنم میں کیوں ڈالے گا، اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے؟

جواب: اللہ کے فیصلے اور انسان کی ذمہ داری

اللہ کی عطا کردہ زندگی

دنیاوی زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ یہ زندگی چاہے جیسی بھی ہو، اللہ کے حکم سے ہی ہے۔ آپ امیر ہوں یا غریب، صحت مند ہوں یا بیمار، اللہ ہی ہر حالت کا فیصلہ کرتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں انسان اللہ کے فیصلے کو قبول کرتا ہے۔ لیکن آخرت میں جنت یا جہنم کا فیصلہ انسان خود اپنے اعمال سے کرتا ہے۔ اللہ صرف انسان کے اعمال کے نتیجے میں کیے گئے فیصلے کو نافذ کرتا ہے۔

آغازِ انسانیت سے وضاحت

شیطان اور حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ:
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:

"وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ۝ وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ۝ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ۝ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”
"اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، جس نے انکار کیا اور تکبر کیا، اور وہ کافروں میں سے تھا۔
اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے خوب مزے سے کھاؤ جہاں سے چاہو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
پس شیطان نے انہیں وہاں سے پھسلا دیا اور انہیں اس حالت سے نکال دیا جس میں وہ تھے، اور ہم نے کہا: نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک مدت تک رہنے اور فائدہ اٹھانے کا ٹھکانا ہے۔
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اللہ نے اس پر رحم فرمایا، بے شک وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔”
(سورہ البقرہ: 34-37)

دو طرح کے رویے

شیطان کی تکبر اور ضد:
شیطان نے حکم عدولی کی اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اللہ پر الزام ڈال دیا کہ اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ گناہ نہ کرتا۔ یہ رویہ "تکبر” کہلاتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ:
حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی قبول کی اور اللہ سے معافی مانگی۔ یہی "توبہ” ہے۔

سبق:
فرق صرف رویے کا تھا۔ ایک نے توبہ کر کے اللہ کی رحمت حاصل کی، اور دوسرے نے تکبر کر کے خود کو اللہ کی رحمت سے دور کر لیا۔

ملحدین اور شیطانی وسوسے

شیطان کا وسوسہ:

شیطان آج بھی انسانوں کو بہکاتا ہے اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے کہ:

  • جو کچھ تم کرتے ہو، اس میں قصور تمہارا نہیں بلکہ خدا کا ہے۔
  • اگر خدا نہ چاہتا تو تم گناہ نہ کرتے۔

مومنین کا طرزِ عمل:

مومنین شیطان کے جال میں نہیں پھنسے۔ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوتے ہیں اور توبہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

حدیث مبارکہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے آدم کے بیٹے، جب تک تم مجھ سے دعا کرتے رہو گے اور مجھ سے امیدیں وابستہ رکھو گے، میں تمہارے گناہ معاف کرتا رہوں گا، چاہے تم نے کتنے ہی گناہ کیے ہوں، مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اگر تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر بھی تم مجھ سے معافی مانگو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اور اگر تم زمین کے برابر گناہ لے کر میرے پاس آؤ لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ تو میں تمہیں اتنی ہی بخشش کے ساتھ ملوں گا۔”
(ترمذی)

نتیجہ:

  • جہنم میں جانا اصل جرم کی وجہ سے نہیں، بلکہ گناہ پر اصرار اور تکبر کی وجہ سے ہے۔
  • جنت میں جانے والے وہ ہیں جو گناہ کے بعد توبہ کرتے ہیں۔

گناہ، توبہ اور اللہ کی پالیسی

گناہوں پر معافی:
انسان فطری طور پر خطاکار ہے، اور اللہ یہ بات اپنے بندوں سے بہتر جانتا ہے۔ اسی لیے:

  • گناہ کے بعد اگر بندہ توبہ کرے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔
  • لیکن جو شخص اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اللہ پر الزام ڈالے یا اس کی نافرمانی پر ڈٹ جائے، وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

دو ناقابلِ معافی گناہ:

کفر: خدا کے وجود سے انکار کرنا۔
شرک: خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔

کفر کا مطلب:
کفر، خدا کے وجود کا انکار نہیں بلکہ خدا کی اطاعت کا انکار ہے۔ اکثر ملحدین کسی محرومی یا آزمائش کے سبب خدا سے نفرت کرتے ہیں، بالکل شیطان کی طرح۔

اللہ کا نظام انصاف

دنیاوی اور اخروی نتائج:

  • دنیاوی سزا: کسی عمل کے نتیجے میں دنیاوی نقصان جیسے زخم، نقصان یا موت، توبہ سے فوری طور پر ختم نہیں ہوتے۔
  • اخروی معافی: توبہ کرنے والے کو اللہ آخرت میں معاف کر دیتا ہے، لیکن دنیاوی نتائج اپنے وقت پر ہی ختم ہوتے ہیں۔

انصاف کا تقاضا:
اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی کفر یا شرک میں مبتلا ہو کر جہنم میں جاتا ہے تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔

ملحدین کا تنازع اور اصل مسئلہ

خدا کا انکار:
اکثر ملحدین خدا کے وجود کا انکار نہیں کرتے بلکہ اپنی محرومیوں کے باعث اس سے نفرت کرتے ہیں۔

مثال:
کسی آزمائش یا نقصان کے بعد خدا کو ظالم قرار دینا۔ دوسروں کو بھی خدا کے انکار پر آمادہ کرنا۔

دلیل کا انکار:
ملحدین اکثر دلیل کی شکست کے بعد بھی خدا کو نہیں مانتے کیونکہ مسئلہ "عقل” کا نہیں بلکہ "ڈھٹائی” کا ہوتا ہے۔

اللہ کی رحمت اور بندوں کے لیے ہدایت

  • اللہ کی محبت: اللہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، لیکن یہ محبت خیر پھیلانے والوں کے لیے ہے، نہ کہ شر پھیلانے والوں کے لیے۔
  • آزمائش میں صبر اور شکر: اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر کریں۔ محرومیوں اور آزمائشوں پر صبر کریں۔ یہی جنت کا راستہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے