اللہ تعالی سے محبت:
حصول محبت الہی کے لیے بہت ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔ چنانچہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أحب لقاء الله ، أحب الله لقاءه ، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه
صحيح مسلم، کتاب الذكر والدعاء ، باب من احب لقاء الله …. رقم : 2683
” جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند نہیں کرتا، اللہ بھی اس سے ملاقات پسند نہیں کرتا۔“
اللہ سے محبت کی دلیل کیا ہے؟
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ.﴾
[آل عمران:31،32]
” آپ کہہ دیں! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ آپ کہہ دیں تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ، پھر اگر وہ پھر جائیں تو بے شک اللہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔““
فضيلة الشيخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اس آیت میں اللہ کی محبت کا وجوب ، اس کی علامات، اس کا نتیجہ اور فوائد ذکر کیے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ﴾ ”کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو ۔“ اگر تم اس اونچے مرتبے کا دعویٰ رکھتے ہو جس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں، تو اس کے لیے صرف دعویٰ کافی نہیں ، بلکہ یہ دعویٰ سچا ہونا چاہیے اس کے سچا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں ہو، اقوال میں بھی ہو اور افعال میں بھی ، عقائد میں بھی ہو اور اعمال میں بھی ، ظاہر میں بھی ہو اور باطن میں بھی ۔ پس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے، اللہ کی محبت اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے، اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اس پر رحمت فرماتا ہے۔ اسے تمام حرکات و سکنات میں راہ راست پر قائم رکھتا ہے ۔ جس نے رسول کی اتباع نہ کی وہ اللہ سے محبت رکھنے والا نہیں کیونکہ اللہ کی محبت کا تقاضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ جب اتباع موجود نہیں تو یہ محبت نہ ہونے کی دلیل ہے، اس صورت میں اگر وہ رسول سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعوی جھوٹا ہے، اور اگر محبت موجود بھی ہو تو اس کی شرط (اتباع) کے بغیر ایسی محبت بے کار ہے۔ سب لوگوں کو اسی آیت کی ترازو پر تولنا چاہیے۔ جتنی کسی میں اتباع رسول ہو گی ، اسی قدر اس میں ایمان اور اللہ کی محبت کا حصہ ہو گا اور جس طرح اتباع میں کمی ہو گی ، اسی قدر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں نقص ہوگا۔ (تفسیر السعدی،: 359/1)
اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان کے کام اور دونوں کا انجام:
ذیل کی آیاتِ کریمہ میں اہل جنت کی نعمتہائے بے بہا مذکور ہیں، جو کہ اس سبب سے ہیں کہ وہ اعمال صالحہ کرتے تھے، اور روزِ قیامت کے عذاب سے ڈرتے تھے، مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے، باوجودیکہ اُن کے پاس کھانا کم ہوتا تھا، اور یہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا . إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا . إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا. عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا . يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا . وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا . إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا . إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا . فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا . وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا.﴾
[الإنسان:3 تا 12]
” بیشک ہم نے اسے راہ دکھائی (اب وہ) خود شکر کرنے والا بن جائے یا ناشکرا بیشک ہم نے کافروں (ناشکروں) کے لیے زنجیریں ، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ بیشک نیک لوگ ایسا جام پیئیں گے جس میں کافور ملا ہو گا، یہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پییں گے، اور اس سے نہریں نکال لے جائیں گے (جدھر چاہیں گے) وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں۔ اور وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہو گی۔ اور وہ اس کی محبت پر محتاج ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم تو تمہیں اللہ کی رضا مندی کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ جزا اور نہ شکریہ چاہتے ہیں ۔ بیشک ہم اپنے رب سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور تختی والا ہو گا۔ پس اللہ نے انہیں اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور خوشی عطا فرمائی ۔ اور انھیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمایا ۔ “
ولی ، اللہ سے کتنی محبت کرتا ہے؟
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ﴾
[البقرة:165]
”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کا شریک اوروں کو بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے، حالانکہ ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللہ سے رکھتے ہیں، اور کاش وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا جانتے ۔ جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ قوت سب کی سب اللہ کی ہے اور بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے (تو ہر گز شرک نہ کرتے) ۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
اور جو اہل ایمان ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں یعنی اہل شرک اپنے معبودوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اس سے بڑھ کر اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کی محبت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور اہل شرک اپنے معبودوں کی محبت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اہل ایمان صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا حقیقی مستحق ہے۔ جس کی محبت میں بندے کی عین صلاح، سعادت اور فوز و فلاح ہے جب کہ اہل شرک ان ہستیوں سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا کچھ استحقاق نہیں رکھتے ، ان کی محبت میں بندے کی عین بدبختی اس کا فساد اور اس کے معاملات کا بکھرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ”اگر دیکھ لیں وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا“ ، یعنی جنہوں نے غیر اللہ کو ہمسر بنا کر بندوں کے رب کے سوا دوسروں کی اطاعت کر کے ظلم کیا، اور مخلوق پر ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر کے ظلم کیا۔ (تفسیر السعدی: 1 /206 )
اللہ کے ولی بن گئے ہو تو ۔۔۔ :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
[التوبة:23]
”اے ایمان والو ! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”اے مومنو! ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو جو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس کے ساتھ موالات رکھو جو ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ان سے عداوت رکھو، اور ﴿لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ ”نہ بناؤ تم اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست“ جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے قریب ہیں اور دوسرے لوگوں کے بارے میں تو زیادہ اولیٰ ہے کہ تم ان کو دوست نہ بناؤ ﴿إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ﴾ ”اگر وہ کفر کو پسند کریں ایمان کے مقابلے میں“ یعنی اگر وہ برضا و رغبت اور محبت سے ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ ” اور جو بھی دوستی کرے گا ان میں سے پس وہی لوگ ظالم ہیں“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کی اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا چونکہ ولایت اور دوستی کی اساس محبت اور نصرت ہے، اور ان کا کفار کو دوست بنانا ، کفار کی اطاعت اور ان کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و محبت پر مقدم رکھنے کا موجب ہے ، بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس کا موجب ہے، اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ، اس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی محبت کو اس محبت کے تابع کیا ہے۔ (تفسیر السعدی)