اللہ تعالیٰ سے منسوب جھوٹے اقوال کا شرعی رد
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1،ص184

سوال

کیا یہ کلام درست ہے جو عوام میں مشہور ہے؟
مثلاً یہ جملے:

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میں انسان ہوتا تو دہی کھاتا‘‘
’’جب کوئی شخص قومِ لوط (علیہ السلام) والا عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو بخار چڑھ جاتا ہے‘‘

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ جملے اور اقوال محض جاہلوں کی خرافات ہیں، جن کا اسلامی عقائد اور قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ بے ادبی، گستاخی اور کفریہ مزاح کی قسم کے کلمات ہیں، جن سے بچنا فرضِ عین ہے۔

اولاً: اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے

کیا اللہ تعالیٰ کھانے، پینے یا کسی جسمانی خواہش کی تمنّا کرتا ہے؟
ہرگز نہیں!

یہ جملہ: "اگر میں انسان ہوتا تو دہی کھاتا”
انتہائی گھٹیا، خلافِ ادب اور باطل ہے۔
یہ شیطان کے وسوسے اور زبانوں پر جاری کی گئی بے ہودہ باتیں ہیں، جنہیں جاہل اور گمراہ لوگ دہراتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس سے پاک و منزہ ہے۔

قرآن کریم کی نصیحت:
"مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا”
ترجمہ:
"تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کا لحاظ نہیں رکھتے؟”
(سورہ نوح، آیت: 13)

سلف صالحین کا مؤقف:
سلف رحمہم اللہ فرمایا کرتے تھے:
"اللہ تعالیٰ کا تذکرہ ایسی اشیاء کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے جنہیں ذکر کرتے ہوئے انسان شرم محسوس کرے، جیسے:
کتا، خنزیر، اور ناپاک چیزیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے منافی ہے۔”

یہودیوں کی گمراہی کی پیروی

اس قسم کے کفریہ اقوال یہودیوں کی پیروی ہیں، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کفر انگیز باتیں کیں:

"اللَّهُ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ”
"اللہ فقیر ہے اور ہم امیر ہیں”
(سورہ آلِ عمران: 181)

"يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ”
"اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے”
(سورہ المائدہ: 64)

"نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ”
"ہم اللہ کے بیٹے اور اُس کے محبوب ہیں”
(سورہ المائدہ: 18)

ثانیاً: اللہ تعالیٰ کو بخار چڑھنے والی بات کا رد

یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو بخار چڑھتا ہے،
یہ بھی سراسر باطل اور خلافِ عقیدہ بات ہے۔

اللہ کی صفات میں کہیں بھی "بخار” کی صفت وارد نہیں ہوئی۔

صحیح عقیدہ کیا ہے؟

درست بات یہ ہے کہ:
"اللہ تعالیٰ اس عمل پر غیرت کرتے ہیں”

جیسا کہ حدیث میں ہے:
"إنَّ اللَّهَ يَغَارُ، وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمَرْءُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ”
"اللہ غیرت کرتے ہیں، اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ بندہ اس چیز کا ارتکاب کرے جو اللہ نے حرام کی ہے۔”
(صحیح مسلم)

یا یوں کہا جائے کہ:
"اللہ تعالیٰ اس عمل پر غضبناک ہوتے ہیں”۔

شرعی نکتہ:

جب صحیح اور پاکیزہ الفاظ موجود ہیں، تو ان گھٹیا اور فحش اقوال کی کیا ضرورت؟

سخت وعید

ان خبیث زبانوں کے لیے ہلاکت ہو جو بے شرمی سے یہ خرافات بولتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں رکھتیں۔

ایک مسلمان کو ہرگز ایسے الفاظ زبان پر نہیں لانے چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور غضب کے مستحق نہ بن جائیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1