لمحہ فکریہ اُن احباب کے لیے جو جان بوجھ کر رب اور رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں: یاد رکھیں کہ دین میں کسی بھی عمل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے خلاف اختیار کرنا، ایک سنگین جرم ہے، اور اس پر اللہ کا عذاب آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ جان بوجھ کر اپنی خواہشات، خود ساختہ نظریات، اور دنیاوی مفادات کی خاطر دین میں تبدیلیاں کر لیتے ہیں۔
➊ نافرمانی کا اثر
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
"وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”
(النساء: 14)
ترجمہ: "جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدوں کو پار کرتا ہے، اللہ اُسے آگ میں داخل کرے گا، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہوگا۔”
استدلال:
جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والوں کو اللہ کی سزا کا سامنا ہو گا۔
ان لوگوں کا یہ عمل نہ صرف دین کی توہین ہے بلکہ ان کے لیے آخرت میں عذاب کا سبب بنے گا۔
➋ بدعت کی سنگینی
نبی ﷺ نے فرمایا:
"مَن أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ”
(بخاری، مسلم)
ترجمہ: "جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسا عمل شروع کیا جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”
استدلال:
جان بوجھ کر بدعت اختیار کرنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے۔
بدعت کرنے والے افراد دراصل نبی ﷺ کی سنت اور صحابہؓ کا طریقہ ترک کرتے ہیں، اور یہ عمل مردود ہے۔
➌ اللہ کے احکام کی بے وقعتی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا”
(الحشر: 7)
ترجمہ: "جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دے، وہ لے لو، اور جس سے وہ تمہیں روکے، اس سے رک جاؤ۔”
استدلال:
رسول ﷺ کی ہدایات کو نظرانداز کرنا یا ان سے جان بوجھ کر انحراف کرنا اللہ کی رضا کے خلاف ہے۔
اللہ کے حکم کے خلاف جان بوجھ کر عمل کرنا، دین کی توہین ہے، اور اس کے نتائج دنیا و آخرت میں بڑے سنگین ہو سکتے ہیں۔
➍ تکبر اور ضد کا رد
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
"وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا۟ رَبَّكُمْۚ- سَارِعُوا۟ إِلَىٰ مَغْفِرَتِ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ”
(الکہف: 103-104)
ترجمہ: "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے رب سے ڈرو، تو وہ تکبر اور ضد کرتے ہیں۔”
استدلال:
تکبر اور ضد میں آ کر اللہ کے احکام کو رد کرنا ایک خطرناک عمل ہے۔
جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کرنا، ان لوگوں کی غفلت اور کسی غیر معقول دلیل پر عمل کرنا ہے۔
➎ اللہ کی سزا سے بچنے کی توبہ کا راستہ
اللہ کا دروازہ توبہ کے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔ جو شخص اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے اللہ سے رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُسے معاف کر دیتا ہے۔
"إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ”
(الزمر: 53)
استدلال:
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر گناہ یا بدعت کرتا ہے، تو وہ اللہ کی معافی کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
توبہ کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے، اور اللہ کی غضب سے بچا جا سکتا ہے۔
خلاصہ
➊ جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے لوگوں کو اللہ کی سزا کا سامنا ہو گا۔
➋ بدعت دین میں نیا اضافہ کرنا، جو نبی ﷺ اور صحابہؓ سے ثابت نہیں، ایک سنگین جرم ہے۔
➌ تکبر اور ضد کے ساتھ اللہ کے حکموں کو رد کرنا اللہ کے غضب کا سبب بنتا ہے۔
➍ اللہ کی معافی اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، اور رجوع کرنے سے انسان کو اللہ کی رضا مل سکتی ہے۔
نصیحت:
ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے، اللہ کے حکم اور رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ ہم آخرت میں اللہ کی رضا اور نجات حاصل کر سکیں۔
اللّٰہُ رَبُّنَا ہمیں اپنی ہدایت سے نوازے، اور ہمیں اپنی نافرمانی سے بچائے، آمین۔