"الجزء المفقود” کا جعلی نسخہ اور انٹرنیٹ پر اس کا رد
تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

الحمد لله رب العالمين و الصلوٰة والسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد :
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من يقل على مالم أقل فليتبوأ مقعده من النار
” جو شخص مجھ پر ایسی بات کہے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ (جہنم کی) آگ میں بنالے۔“ [ صحيح البخاري : 109 ]
❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ومن كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار
جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا: تو وہ اپنا ٹھکانہ( جہنم کی) آگ میں بنالے۔ [ صحيح بخاري : 110 وصحيح مسلم : 3 ]
↰ اتنی شدید وعید کے باوجود بہت سے لوگ بغیر کسی خوف کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے تھے اور بول رہے ہیں گویا وہ اللہ کی پکڑ سے کلیتاً غافل ہیں۔
حافظ ابن حزم اندلسی( متوفی 456؁ھ ) لکھتے ہیں :
وأما الوضع فى الحديث فباق مادام إبليس و أتباعه فى الأرض
” اس وقت تک وضعِ حدیث (کا فتنہ )باقی رہے گا جب تک ابلیس اور اس کے پیروکار روئے زمین پر موجود ہیں۔“ [ المحليٰ 13/9 مسألة : 1514 ]
مجھے جب معلوم ہوا کہ بریلویوں نے مصنف عبدالرزاق کا ایک نرالا نسخہ دریافت کرنے کا دعویٰ کر کے ”نورِ حدیث“ پیش کر دی ہے تو میں نے ایک سوال کے جواب میں ایک تحقیقی مضمون لکھا جس میں قلمی اور مطبوعہ کتابوں سے استدلال کی شرائط اور دو من گھڑت کتابوں کا ذکر کیا۔ ہمارے علم کے مطابق اس مضمون کا جواب کسی حلقے سے نہیں آیا۔ بعد میں ”الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف“ کے نام سے بریلوی من گھڑت نسخہ مل گیا تو راقم الحروف نے اس کا تفصیلی و مدلل ردلکھا جو ماہنامہ الحدیث : [23 ص 22تا 25] میں شائع ہوا۔
اب صادق آباد (پنجاب) والے محمد زبیر صاحب اور حافظ ثناء اللہ الزاہدی حفظہ اللہ کے ذریعے معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ پر اس من گھڑت کتاب کا تفصیلی رد لکھا گیا ہے لہٰذا کوشش کر کے انٹرنیٹ سے یہ رد حاصل کر لیا۔ یہ رد جزیرۃ العرب کے (نوجوان عالم) محمد زیاد بن عمر التکلۃ نے ”دفاع عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم و سنتہ المطھرۃ و کشف تو اطؤ عیسی الحمیری و محمود سعید ممدوح علی وضع الحدیث“ اور ”تفنید القطعۃ المکذوبۃ التی أخرجاھا و نسباھا لمصنف عبدالرزاق“ کے نام سے 13 محرم 1427؁ھ کو چونتیس [34] صفحات میں انٹرنیٹ پر شائع کیا ہے۔
اس رد کے بعض اہم دلائل کا خلاصہ درج ذیل ہے :
➊ جزیرۃ العرب کے بڑے علماء مثلاً شیخ سعد الحمید، شیخ خالد الدریس اور شیخ احمد عاشور وغیرہ م یہ کہتے ہیں کہ یہ ”الجزء المفقود“ سارے کا سارا موضوع ہے۔ [دیکھئے ص 3]

➋ عیسیٰ بن عبداللہ بن محمد بن مانع الحمیری جہمی قبوری (قبر پرست ) اور خرافی( خرافات بیان کرنے والا) ہے۔ اس نے کتاب لکھی ہے البدعة أصل من أصول التشريع ” یعنی [اس کے نزدیک] شریعت کے اصول میں سے ایک اصل بدعت ہے۔“ [ ! ] [ ديكهئے ص 5 ]

➌ دبئی کے رہنے والے شیخ ادیب الکمدانی جو کہ علم حدیث اور مخطوطات کے ماہر ہیں، انہوں نے جب عیسیٰ الحمیری کے پاس ”مخطوطہ“ دیکھا تو کہا: إنه موضوع حديثا جدا بالنظر لورقه و خطه ” یہ نسخہ تازہ تازہ گھڑا گیا ہے جیسا کہ اس کے اور اق اور خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ “ [ص7]
شیخ ادیب الکمدانی نے کہا:
إنني لا أعطي للمخطوط عمرا أكثر من سنتين أو نحو ذلك
” میں سمجھتا ہوں کہ یہ مخطوطہ دو سال یا ان کے قریب کا ہی لکھا ہوا ہے۔“ [ص7]
شیخ محمد زیاد نے کہا:
أفاد الشيخ الكمداني أنه رآه بورق حديث و خط طري ! و أنه لما طولب واضعه الهندي بأصل نسخته أفاد أنه استنسخها من مكتبة بالإتحاد السوفيتي و أنها احترقت ! فبطل أمر المخطوط أصلا وبان كذب ماجاء فيها أنه نسخت سنة 933 فى بغداد
شیخ کمدانی نے بتایا کہ انہوں یہ مخطوطہ دیکھا ہے یہ جدید کاغذ پر تازہ خط کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور جب اس کے ہندی (پاکستانی ) گھڑنے والے سے اصل نسخے کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ اس نے اسے سویت یونین کے کسی مکتبے سے نقل کیا ہے جو کہ جل گیا ہے !۔ مخطوطے کی بات تو اصلاً ہی باطل ہو گئی اور ظاہر ہو گیا کہ یہ جھوٹ ہے کہ یہ نسخہ 933 میں بغداد میں لکھا گیا ہے۔ [ص 13]

➍ مخطوطے کا خط دسویں صدی ہجری کا خط نہیں ہے بلکہ تازہ خط ہے جسے کسی معاصر آدمی نے لکھا ہے۔ [ص12] شیخ عبدالقدوس نذیر الہندی گواہی دیتے ہیں کہ یہ خط پاکستان و ہندوستان کے کسی معاصر (ہمارے دو ر کے آدمی) کا لکھا ہوا ہے اور یہی بات شیخ عمر بن سلیمان الحفیان نے کہی ہے جنھوں نے مصر سے مخطوطات میں ایم اے کیا ہے۔ [ص 12]

➎ عیسیٰ الحمیری کا یہ کہنا کہ ا س کا (یہ من گھڑت) نسخہ بہت زیادہ صحیح ہے، سرے سے غلط ہے۔ اس (من گھڑت) نسخے کی پہلی حدیث میں صحابی سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا نام سائب بن زید لکھا ہوا ہے جو کہ غلط ہے۔ [ص 13] دیکھئے الجزء المفقود [ص 52 ح : 1]

➏ اس من گھڑت نسخے کے شروع میں”کتاب الایمان“ کا باب لکھا ہوا ہے جب کہ حاجی خلیفہ چلپی (حنفی) نے لکھا ہے :
مرتبا على الكتب و الأبواب عليٰ ترتيب الفقه
”( یہ مصنف) فقہی ترتیب کے لحاظ سے کتابوں اور ابواب پر مرتب ہے۔“ [كشف الظنون ج 2 ص 1712 ]
ابن خیر الاشبیلی نے اپنی (کتاب) فہرست [ص 129] میں لکھا ہے کہ مصنف عبدالرزاق کی ابتداء کتاب الطہارہ سے ہوتی ہے۔ [الرد علي“الجزء المفقود” ص 16 ]

➐ اس جعلی”مصنف “ میں عجمیوں کے انداز میں عربی تراکیب بنائی گئی ہیں مثلاً :
اللهم صل عليٰ من تفتقت من نور الأزهار زاد ماء وجهه [ الجزء المفقود : 11، والرد ص 21 ]

➑ محمود سعید ممدوح کے استاد عبداللہ الغماری نے کہا:
”اس روایت کا عبدالرزاق کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔ یہ عبدالرزاق کے مصنف، جامع اور تفسیر میں موجود نہیں ہے اور یہ روایت قطعاً موضوع ہے۔ اس میں صوفیوں کی اصطلاحات پائی جاتی ہیں اور عصرِ حاضر میں بعض شنقیطیوں نے اس کی سند المنکدر عن جابر بنالی ہے۔ “ [مرشد الحائر لبيان وضع حديث جابر/ الرد ص 25 ]

➒ اس جعلی”الجزء المفقود “ کے کا تب”دلائل الخیرات“ وغیرہ غیر کتابوں سے خود ساختہ فقرے لے کر ان کی سندیں بنا لی ہیں۔ [ديكهئے الرد ص 29، 28 ]

➓ اس کی سندوں میں واضح جھوٹ لکھے گئے ہیں مثلاً خود ساختہ حدیث نمبر 2 میں لکھا ہوا ہے :
ابن جريج : أخبرني البراء رضي الله عنه ( حالانکہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ، ابن جریج کی پیدائش کے پہلے فوت ہو گئے تھے ) [ديكهئے الرد ص 31]
مختصر یہ کہ یہ زبردست رد ہے جو عربی علماء کی طرف سے شائع ہوا ہے۔

تنبیہ : بعض بریلوی حضرات امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ [483/5] سے نور والی من گھڑت روایت کا ایک شاہد پیش کرتے ہیں لیکن یہ شاہد بھی باطل ہے۔ اس میں بیہقی کا استاد ابوالحسن علی بن احمد بن سیماء المقریٔ مجہول الحال ہے۔ ابن سیماء کا ذکر المنتخب من السیاق لتاریخ نیسابور [1249] میں بغیر کسی توثیق کے کیا گیا ہے۔ اس ابن سیماء کی توثیق ہمارے علم کے مطابق کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ وما علينا إلا البلاغ ( 26 ربیع الاول 1427؁ھ)

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے