اعضاء بدن عطیہ کرنے کی وصیت
ہمارے خیال میں یہ موت سے پہلے جائز ہے نہ مرنے کے بعد ہی، چاہے مرنے والا ان کی وصیت ہی کیوں کر جائے اور کہے: جب میں مر جاؤں تو میری آنکھوں کا شفاف حصہ (کارینا) یا میرا گردہ یا جگر وغیرہ کسی کو دے دینا۔
ایسی وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حرام کام کی وصیت ہے اور حرام کام کی وصیت نافذ نہیں کی جاتی۔ علماء کرام نے اس کا ذکر کیا ہے، دیکھیں فقہ حنبلی کی کتاب ”الا قناع“ کتاب الجنائز، فصل: میت کو غسل دینا۔ وہاں اس کی تفصیل آپ کو مل جائے گی۔
علماء کرام نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میت کے اعضاء میں سے کوئی چیز بھی لینا جائز نہیں، چاہے اس نے اس کی وصیت ہی کیوں نہ کی ہو۔ انہوں نے اس حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل لی ہے کہ ”کسی میت کی کوئی ہڈی توڑنا اس کو زندہ حالت میں توڑنے کے مانند ہی ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3607 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1616]
یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی ذات کے متعلق آزاد ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا» [النساء: 129]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بےحد مہربان ہے۔“
جان کو قتل کرنے کا یہ مفہوم نہیں کہ آپ چھری لے کر اپنے نفس کو ذبح کر دیں بلکہ ہر وہ کام جو جان کو نقصان پہنچانے کا سبب ہو وہ قتل نفس میں شامل ہے۔
بطور دلیل یہ حدیث نبوی بھی پیش خدمت ہے:
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگی مہم میں بھیجا۔ ایک رات آپ جنبی (ناپاک) ہو گئے، وہ ایک خنک رات تھی، انہوں نے تییم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب وہ لوٹ کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
کیا تم نے اپنے ساتھیوں کو جنابت میں نماز پڑھا دی؟
وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آیا:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا» [النساء: 29]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔“
رات بہت زیادہ سرد تھی لہٰذا میں نے تییم کیا اور نماز پڑھا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 334]
اقرار کرتے ہوئے یا انکار؟ اقرار کرتے ہوئے، کیونکہ اگر انکار کرتے تو تنبیہ فرما دیتے۔
لہٰذا میں کہتا ہوں: زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اعضا منتقل کرنا حرام ہے۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 20/173]