اعتکاف صرف مساجد میں ہی کیا جا سکتا ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَأَنتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ [البقرة: 187]
”اور تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو۔“
اس آیت میں اعتکاف کے لیے صرف مساجد کا ہی ذکر کیا گیا ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی معمول تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ ایام ماہواری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ نکالا کرتی تھیں:
وهو معتكف فى المسجد
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوتے ۔“
[بخاري: 2029 ، 2046 ، كتاب الاعتكاف: باب لا يدخل البيت الالحاجة ، مسلم: 297 ، أبو داود: 2468 ، ابن ماجة: 1776 ، أحمد: 81/6 ، ابن خزيمة: 2231 ، ابن حبان: 3669]
➌ حضرت نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے مسجد کی وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کرتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2154 ، كتاب الصوم: باب أين يكون الاعتكاف ، أبو داود: 2465 ، ابن ماجة: 1773]
(علی رضی الله عنہ ) اعتکاف صرف مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جائز ہے۔
[اللباب فى علوم الكتاب ”تفسير القرآن“ : 319/3]
(حذیفہ رضی اللہ عنہ ) ان دونوں مساجد اور مسجد بیت المقدس میں جائز ہے۔
[تفسير الرازي: 197/5]
(زہریؒ) صرف جامع مسجد میں جائز ہے۔
[أيضا]
(ابو حنیفہؒ) صرف اس مسجد میں جائز ہے جہاں امام اور موذن مقرر ہو۔ علاوہ ازیں خواتین گھر میں نماز کی جگہ بھی اعتکاف کر سکتی ہیں۔
(شافعیؒ ، احمدؒ ) اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہے لیکن جامع مسجد میں افضل ہے۔
(ابن حجرؒ ) علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے (سوائے محمد بن عمر بن لبا بہ مالکی کے ، اس نے ہر جگہ جائز قرار دیا ہے۔
(جمہور ) اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 255/3 ، فتح البارى: 706/4 ، اللباب فى علوم الكتاب ”تفسير القرآن“ : 319/3]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
(بخاریؒ) تمام مساجد میں درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ [البقرة: 187]
”عورتوں سے اس وقت مباشرت مت کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ۔“
[بخاري: قبل الحديث / 2025 ، كتاب الاعتكاف: باب الاعتكاف فى العشر الأواخر]
◈ خواتین بھی مساجد میں ہی اعتکاف کریں گی۔
(شافعیؒ ، احمدؒ ) یہی موقف رکھتے ہیں۔
[المغنى: 464/4]
یہ رمضان میں زیادہ موکدہ ہے بالخصوص آخری دس دنوں میں
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہی معمول تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى تو فاه الله
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے حتی کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت کر دیا ۔“
[بخارى: 2026 ، كتاب الاعتكاف: باب الاعتكاف فى العشر الأواخر ، مسلم: 1172 ، أبو داود: 2462 ، ترمذى: 790 ، أحمد: 92/6 ، عبد الرزاق: 7682 ، ابن خزيمة: 2223 ، دار قطني: 201/2]
ان دنوں میں اعمال کے لیے کوشش کرنا اور قدر کی راتوں میں نوافل پڑھنا مستحب ہے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله إذا دخل العشر أى العشر الأخيرة من رمضان شد مئزره وأحيا ليله وأيقظ أهله
”جب رمضان کا آخری دھاکہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے ، رات بھر جاگتے رہتے اور اپنی بیویوں کو بھی جگاتے ۔“
[بخاري: 2024 ، كتاب فضل ليلة القدر: باب العمل فى العشر الأواخر من رمضان ، مسلم: 1174 ، أبو داود: 1376 ، نسائي: 217/3 ، ابن ماجة: 1768 ، ابن خزيمة: 2214 ، شرح السنة: 1823]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يجتهد فى العشر الأواخر مالا يجتهد فى غيره
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ جتنی دوسرے دنوں میں نہ کرتے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1430 ، كتاب الصوم: باب فى فضل العشر الأواخر من شهر رمضان ، الصحيحه: 2123 ، ابن ماجة: 1767]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ :
من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ماتقدم من ذنبه ”جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرتا ہے۔ اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔“
[بخاري: 2014 ، كتاب فضل ليلة القدر: باب فضل ليلة القدر ، مسلم: 760 ، نسائي فى الكبرى كما فى تحفة الأشراف: 13730/10 ، أحمد: 281/2 ، ترمذي: 808 ، ابن ماجة: 1326]
علاوہ ازیں قرآن میں شب قدر کی فضیلت یوں بیان کی گئی ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ [القدر: 3 تا 5]
”شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینوں (کی عبادت) سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام) سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرئیل علیہ السلام ) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ “