اطاعت رسولﷺ قرآن، حدیث اور اقوال سلف کی روشنی میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب دین اسلام اور بدعت سے ماخوذ ہے۔

مضمون کے اہم نکات:

قرآن حکیم کی روشنی میں اطاعت رسول ﷺ کی اہمیت

ذیل کی سطور میں قرآن کریم کی روشنی میں اتباع اور اطاعت رسول ﷺ کی اہمیت کو بیان کر دیا گیا ہے، تا کہ تمام مسلمان رسول اللہ ﷺ کی اطاعت گزار ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کریں اور پھر آخرت میں اس عظیم اور مبارک منہج پر عمل کی وجہ سے اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں پہ سیاہی کا قلم پھرالیں۔

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت عین ایمان ہے:

❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾

﴿النساء: 65﴾

’’تمہارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں تنازعات میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کریں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں، اور اس فیصلہ پر پوری طرح سرتسلیم خم نہ کر دیں۔‘‘

اطاعت رسول ﷺ جنت میں اعلیٰ ترین مقام کا باعث ہے:

﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا﴾

﴿النساء : 69﴾

’’اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے، تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء کرام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ، اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے:

﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾

﴿النساء : 80﴾

’’جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور اگر کوئی منہ موڑتا ہے تو ہم نے آپ کو ان پر پہرہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض عین ہے:

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾

﴿الحشر : 7﴾

’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں، وہ لے لو، اور جس سے روکیں، اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

سنت رسول اللہ ﷺ ہی اختلافات کا حل ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾

﴿النساء: 59﴾

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی ، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے ، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔‘‘

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾

﴿البقره : 143﴾

’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں متوسط امت بنایا تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہی دو، اور رسول تم پر گواہی دے، اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، قبلہ کی تبدیلی ایک بڑی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ تمہارے سابق ایمان و عمل) کو ضائع نہیں کرے گا، وہ تو لوگوں کے لیے بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘

فائدہ :

یعنی اے محمد ﷺ ہم نے آپ کو پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، پھر کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون آپ کی اتباع کرتا ہے، اور کون اپنے دین سے پھر جاتا ہے، کیونکہ اب بیت المقدس کے بجائے کعبہ کی طرف متوجہ ہونا مومنین صادقین کے علاوہ کفار اور منافقین پر تو بڑا شاق گزرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بہت سے منافقین نے اپنا نفاق ظاہر کر دیا اور کہنے لگے:

کیا بات ہے کہ محمد، ہمیں کبھی ادھر پھیرتا ہے اور کبھی اُدھر؟ مشرکین نے کہا کہ محمد کو اپنے دین میں شک ہو گیا۔

سنت رسول ﷺ پر عمل اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے:

﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾

﴿آل عمران : 31﴾

’’کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا رحیم ہے۔‘‘

ایمان کے بعد اتباع رسول ﷺ بہت ضروری ہے:

﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾

﴿آل عمران : 53﴾

’’اے ہمارے رب! ہم اس پر جو تو نے نازل کیا ہے ایمان لے آئے ، اور ہم نے رسول کی پیروی کی ہے، لہذا ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ میں اسوہ حسنہ ہے:

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾

﴿الاحزاب: 21﴾

’’در حقیقت تم مسلمانوں کے لیے رسول اللہ کی ذات مبارکہ میں بہترین نمونہ ہے، ان کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘

ماحصل:

پس معلوم ہوا کہ اختلافی اُمور میں جب تک رسول کریم ﷺ کے فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم نہ کیا جائے، بندہ مومن نہیں ہو سکتا ۔ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے بندہ روز قیامت انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین (اولیاء کرام) کی رفاقت حاصل کر لے گا۔ نبی کریم ﷺ کی اطاعت در حقیقت اطاعت الہی ہے۔ اتباع رسول ﷺ سے انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے اور یہ اہل ایمان کی بڑی علیم صفات میں سے ہے۔

اطاعت رسول ﷺ سے انحراف کے متعلق وعید

رسول کریم ﷺ کی نافرمانی ، اور آپ کی سنت سے دُوری کی وجہ سے انسان جہنم میں چلا جائے گا۔ آپ کی مخالفت نفاق کی دلیل ہے، جہالت کی علامت ہے اور باعث ذلت و رسوائی ہے۔ جیسا کہ ذیل کی آیات کریمہ سے واضح ہو رہا ہے۔

سنت رسول ﷺ کی مخالفت فتنہ کا باعث ہے۔

﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾

﴿النور : 63﴾

پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہو جائے، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔

سنت رسول ﷺ کی مخالفت نفاق کی دلیل ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا﴾

﴿النساء : 61﴾

’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے، اور رسول کی طرف آؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘

سنت رسول ﷺ سے انحراف گمراہی کی دلیل ہے:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾

﴿المائده : 104﴾

’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے، اور آؤ رسول کی طرف، تو کہتے ہیں: ہمیں تو وہی کچھ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں، اور نہ ہی ہدایت پر ہوں ۔‘‘

سنت رسول ﷺ کی مخالفت باعث ذلت و رسوائی ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ﴾

﴿المجادله : 20﴾

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ذلیل ترین قوموں میں سے ہیں۔‘‘

سنت رسول ﷺ کی مخالفت جہنم میں لے جاتی ہے:

﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾

﴿النساء: 115﴾

’’جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘

﴿وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾

﴿النساء : 14﴾

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے ، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔‘‘

احادیث نبویہ کی روشنی میں اطاعت رسول ﷺ کی اہمیت

اطاعت رسول ﷺ کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کے بیان کے بعد ضروری ہے کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں آپ سے علم کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دینا سونے پر سہاگہ کے مترادف ہوگا۔

اطاعت رسول ﷺ صراط مستقیم ہے:

﴿عن عبد الله بن مسعود قال: خط لنا رسول الله ﷺ خطاثم قال: هذا سبيل الله ، ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله وقال هذه سبل على كل سبيل منها شيطان يدعوا إليه . وقرأ (وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ) الآية .﴾
مسند أحمد: 435/1، سنن دارمی: 67/1، صحیح ابن حبان، رقم : 6 ، 7 ، مستدرك حاكم : 318/2- ابن حبان، حاکم اور شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

❀ سید نا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :

رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا اور فرمایا:

’’یہ اللہ کا راستہ ہے‘‘ پھر اس کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے اور فرمایا:

یہ شیطان کے رستے ہیں، اور ان میں سے ہر رستے پر شیطان ہے جو ان رستوں کی طرف بلاتا ہے، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ﴾

’’بے شک یہ سیدھا راستہ میرا ہے، پس اس کی پیروی کرو۔‘‘

صراط مستقیم
سبل الشياطين
سبل الشياطين
صراط مستقیم

فائدہ:

اس حدیث شریف کے مطابق جس جماعت کا بھی صبح قرآن وسنت فہم و عمل صحابہ کرامؓ نہیں وہ جماعت شیطان کے رستے پر ہے۔ اور شیطان کی طرف ہی بلاتی ہے۔

رسول اکرم ﷺ کے حکم کی اطاعت کرنا فرض ہے:

﴿عن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: ما أمرتكم به فخذوه وما نهيتكم عنه فانتهوا .﴾
سنن ابن ماجه ، بَابُ اِتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ ، رقم: 1، سلسلة الصحيحة، رقم:850۔

سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو میں تمہیں حکم دوں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کروں اس سے باز آ جاؤ۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی مومنوں کے لیے بہترین نمونہ ہے:

﴿وعن جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله ﷺ إذا خطب يقول : أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدى محمد ﷺ، وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة .﴾
صحیح مسلم، كتاب الجمعه ، باب تحفيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ ، رقم: 867 .

سیدنا جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:

”حمد وثناء کے بعد سب سے بہترین بات ’’اللہ کی کتاب‘‘ ہے، اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے۔ اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو اپنی طرف سے وضع کیے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“

فائدہ:

معلوم ہوا جو کام سنت کے خلاف ہو وہ بدعت ہے، جو کہ سراسر گمراہی ہے۔ پس سنت نور ہدایت ہے، لہذا ہر عمل صالح، نماز اور روزہ وغیرہ سنت کے عین مطابق ہو ، تو حصول رضائے الہی ممکن ہے، بصورت دیگر نہیں۔

اطاعت رسول ﷺ جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے:

﴿عن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى . قالوا: يا رسول الله ومن يأبي؟ قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد آبى﴾
صحیح بخاری ، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله، رقم: 770 .

❀ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں :

❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

میری تمام امت جنت میں جائے گی، مگر جس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا:

یا رسول اللہ ! کون شخص ہے جو جنت میں جانے سے انکار کرتا ہے؟ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا، اور جس نے میری نافرمانی کی، پس تحقیق اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘

قبولیت عمل کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت رسول ﷺ کے مطابق ہو:

﴿وعن أنسؓ قال : جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى ﷺ يسألون عن عبادة النبى ﷺ فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى ﷺ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم: أما أنا فإني أصلى الليل أبدا ، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله ﷺ إليهم ، فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا ، أما والله إنى لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكنى أصوم وأفطر ، وأصلى وأرقد، وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس منى﴾
صحیح بخاری، کتاب النكاح باب الترغيب في النكاح ، رقم: 5063 .

سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ تین شخص نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور نبی رحمت ﷺ کی عبادت سے متعلق سوال کیا، اور جب انہیں نبی مکرم ﷺ کی عبادت کے متعلق خبر دی گئی تو انہوں نے اس عبادت کو معمولی سمجھا، اور کہا :

ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا نسبت ہے، آپ کی تو اللہ نے پہلی پچھلی سب لغزشیں معاف کردی ہیں، ان میں سے ایک نے کہا:

میں تو ہمیشہ رات بھر نفل ادا کروں گا۔ دوسرے نے کہا:

میں ہمیشہ دن بھر کا روزہ رکھوں گا کبھی افطار نہیں کروں گا۔

تیسرے نے کہا:

میں عورتوں سے دور رہوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پس نبی اکرم ﷺ ان کے پاس گئے اور آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:

تم نے اس اس طرح کی باتیں کی ہیں؟ خبر دار، اللہ کی قسم! میں تم میں سب کی نسبت زیادہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ، اور پرہیز گار ہوں، اس کے باوجود روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا، میں رات کو نوافل ادا کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

اطاعت رسول ﷺ میں تمام اختلافی مسائل کا حل ہے:

﴿عن العرباض بن ساريةؓ قال: قال رسول الله ﷺ من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا ، وإياكم ومحدثات أمور فإنها ضلالة ، فمن أدرك ذلك منكم فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين ، عضوا عليها بالنواجذ﴾
سنن ترمذی، کتاب العلم ، باب ماجاء في الاخذ بالسنة واجتناب البدعة: 2676۔ محدث البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سیدنا عرباض بن ساریہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نئے کاموں سے بچو، کیوں کہ یہ گمراہی ہے۔ تم میں سے جو اس کو پائے اسے چاہیے کہ میری سنت کو لازم پکڑے، اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑے ، تم اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑو۔‘‘

تارک سنت ملعون ہے:

﴿وعن عائشة قالت: قال رسول الله ﷺ: سنة لعنتهم ولعنهم الله وكل نبي يجاب: الزائد فى كتاب الله والتارك لسنتي .﴾
سنن ترمذی، رقم : 2154، مستدرك حاكم : 36/1، رقم : 102، المشكوة، رقم : 109 ، علامہ ذہبی نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

چھ قسم کے لوگ ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں، اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت فرمائے ، اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (ان چھ میں سے) اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا اور میری سنت کو ترک کرنے والا ہے۔

اتباع رسول میں صحابہ کرامؓ کا امتیاز

خلیفہ اول بلافصل ابوبکر صدیقؓ :

سید نا ابو بکر صدیقؓ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ:

﴿لست تاركا شيئا كان رسول الله ﷺ يعمل به إلا عملت به فإنى أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ .﴾
صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، رقم : 3093 ، صحیح مسلم، کتاب الجهاد والسير، رقم : 4582 .

’’میں کسی ایسے کام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، مگر یہ کہ میں اس پر عمل پیرا رہوں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ ا اگر میں نے نبی ﷺ کی کسی سنت کو چھوڑ دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا۔‘‘

امیر المومنین عمر بن خطابؓ :

① سیدنا سعیدؓ سے روایت ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطابؓ فرمایا کرتے تھے:

﴿الدية للعاقلة ، ولا ترث المرأة من دية زوجها شيئا ، حتى قال له الضحاك بن سفيانؓ كتب إلى رسول الله ﷺ أن أورث امرأة أشيم الضبابي من دية زوجها فرجع عمرؓ﴾
سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض ، رقم : 2927 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

’’دیت صرف والد کے رشتہ داروں کے لیے ہے، لہٰذا بیوی کو اپنے شوہر کی دیت سے کوئی حصہ نہیں ملتا‘‘

سیدنا ضحاک بن سفیانؓ نے (امیر المومنین عمرؓ) سے کہا:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ پیغام لکھوا کر بھجوایا کہ میں اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دلاؤں، چنانچہ سیدنا عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔

② سیدنا عمر فاروقؓ نے ہاتھ کی انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ یہ کیا کہ انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ ، شہادت والی اور درمیانی انگلی کی دس دس اونٹ، درمیانی انگلی کے ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور چھنگلی کی چھ اونٹ ، مگر جب انھیں یہ علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے آل حزم کی طرف دیت کے بارے میں ایک خط لکھا تھا، جس میں یہ تھا کہ انگلیاں سب برابر ہیں۔ یعنی سب کی برابر برابر دیت ہوگی ، تو انھوں نے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور اس حدیث پر عمل کیا۔
مصنف عبد الرزاق : 384/9، 385.

③ اگر کوئی شخص یا عورت کسی حاملہ عورت کو قتل کر دے اور اس کی وجہ سے اس کا بچہ بھی مرجائے تو قاتل پر عورت کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص یا دیت آئے گی مگر اس کے پیٹ میں جو بچہ ہو اس کے مرجانے سے اس پر کیا لازم آئے گا۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانہ میں یہ مسئلہ پیش آیا تو انھوں نے مجلس عام میں اس کے مجے بارے میں صحابہ کرامؓ سے سوال کیا تو حمل بن مالکؓ کھڑے ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین (حمل) کے بدلے میں ایک غلام دینے کا حکم دیا تھا۔

سیّدنا عمر فاروقؓ نے جب اس حدیث کو سنا تو فرمایا :

﴿لو لم نسمع لقضينا بغيره﴾

’’اگر ہم یہ حدیث نہ سنتے تو کوئی دوسرا فیصلہ کر دیتے ۔‘‘
سنن ابوداؤد، کتاب الديات، رقم : 457، 4573 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

④ سیدنا عمرؓ حجر اسود کے پاس آئے ، اسے بوسہ دیا اور فرمایا:

’’میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ تمہیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔‘‘
صحیح بخاری ، کتاب الحج ، رقم : 1097 ، صحیح مسلم، رقم : 127 .

خلیفہ راشد عثمان غنیؓ:

آپ انتہائی متبع سنت تھے۔ جناب حمران بن ابان، سیدنا عثمان غنیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے پانی منگوایا پھر وضو کیا، کلی کی اور اور ناک میں پانی چڑھایا ، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو تین تین بار دھویا اور سر کا مسح کیا اور دونوں قدموں کو دھویا ، پھر ہنس پڑے پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

تم مجھے سے دریافت نہیں کرو گے کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا:

امیر المومنین آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تھوڑا سا پانی طلب کیا پھر جیسا میں نے وضو کیا وضو فرمایا، پھر مسکرادیے، پھر ارشاد فرمایا:

تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا:

یا رسول اللہ ! آپ کے ہسنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

بندہ جب وضو کے لیے پانی طلب کرتا ہے اور پھر اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے جو گناہ بھی صادر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے۔ اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے۔ اور جب مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے اور جب اپنے دونوں قدموں کو دھوتا ہے تو اس کے قدموں کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب الحج ، رقم : 1563۔

خلیفہ رابع سیدنا علی المرتضیؓ :

ایک بار سید نا علی کرم اللہ وجہہ سوار ہونے لگے تو رکاب میں بسم اللہ کہہ کر پاؤں رکھا ، پشت پر پہنچے تو الحمد للہ کہا ، پھر یہ آیات تلاوت کی:

﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ‎﴿١٣﴾‏ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ‎﴿١٤﴾﴾

﴿الزخرف : 13 ، 14﴾

’’تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا ہے ، اور ہم اس کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اور ہم بے شک اپنے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

پھر تین بار الحمد للہ اور تین بار اللہ اکبر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی:

﴿سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت .﴾

’’اے اللہ! تو پاک ہے، بے شک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے، پس تو مجھے معاف کر دے، کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔‘‘

پھر مسکرا دیے، لوگوں نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی، بولے:

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ان ہی پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں مسکرادیے، میں نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا:

’’جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے ۔‘‘
سنن ابوداؤد، کتاب الجهاد باب ما يقول الرجل اذا ركب، رقم : 2607- محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

سید نا عبد اللہ بن عمرؓ:

اتباع سنت میں تمام صحابہ کرام سے سید نا عبد اللہ بن عمرؓ بطور خاص ممتاز تھے، رسول اللہ ﷺ حج کے سفر سے واپس آئے تو مسجد کے دروازے پر ناقہ کو بٹھا کر پہلے دو رکعت نماز پڑھی، پھر گھر تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد سید نا عبد اللہ بن عمرؓ نے بھی یہی معمول اختیار کیا ۔
صحیح بخارى، كتاب الوضوء، الخ 196 ، صحیح مسلم ، رقم: 1187 ، سنن ،ابوداؤد، كتاب الجهاد، رقم : 2782.

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کعبہ کے صرف دونوں یمانی رکنوں یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے تھے، سبتی یعنی ایسے جوتے پہنتے تھے جن پر بال نہیں ہوتے ، زرد رنگ کا خضاب لگاتے تھے اور لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیتے تھے، لیکن وہ یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھتے تھے، جناب عبید بن جریج نے ان سے پوچھا کہ صرف آپ ہی کیوں ایسا کرتے ہیں؟ آپ کے اور اصحاب نہیں کرتے ، بولے کہ:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں ۔
سنن ابو داؤد، کتاب المناسك، رقم : 1772 .

سید نا عبد اللہ بن عباس ؓ :

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے ایک موقع پر فرمایا:

قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اور تم اس کے مقابلے میں ابوبکر اور عمرؓ کے اقوال پیش کرتے ہو۔
بحواله كتاب التوحيد، باب 38 ، ص : 296 .

فائده :

نبی کریم ﷺ کی حدیث ہوتے ہوئے سیدنا ابوبکر و عمرؓ کی بات دین نہ بن سکی ، افسوس صد افسوس! تو پھر فقہ حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی اور جعفری اور پیروں ، علماء اور مروجہ فرقوں کے طرز عمل کو حجت کیسے مانا جاسکتا ہے۔

سیدنا حذیفہؓ :

سیدنا حذیفہؓ نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود مکمل طور پر نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اس سے کہا:

﴿ما صليت ولومت مت على غير الفطرة التى فطر الله محمدا ﷺ﴾
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم : 791 .

’’تو نے نماز نہیں پڑھی، اگر تو ایسے ہی مر گیا تو اس دین اسلام پر نہیں مرے گا جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا کیا تھا۔‘‘

ائمہ اربعہ کی نظر میں اتباع سنت کی اہمیت

مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں صفائی ہو
ادھر فرمانِ محمدؐ ہو ادھر گردن جھکائی ہو

امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ :

امام ابو حنیفہؒ المتوفی 150ھ ارشاد فرماتے ہیں:

① ﴿إذا صح الحديث فهو مذهبى .﴾
رد المحتار على الدر المختار، لابن عابدين: 68/1 .

’’جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذ ہب ہے۔‘‘

فائدہ:

امام ابو حنیفہؒ اس قول کے مطابق لوگوں کو اپنی آراء کی طرف دعوت دینے کی بجائے امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور بانگ دہل اعلان فرما رہے ہیں کہ میں اہل حدیث ہوں اور صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔

② یہی وجہ ہے کہ جب امام ابو حنیفہؒ کو مسح علی الجوربین کی حدیث مل گئی تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:

❀ صالح بن محمد الترمذی کہتے ہیں:

میں نے ابو مقاتل سمرقندی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں امام ابو حنیفہ کے پاس مرض الموت میں گیا، پس انہوں نے پانی منگوایا اور وضو کیا، آپ جرابیں پہنے ہوئے تھے، پس آپ نے جرابوں پر مسح کیا، اور ارشاد فرمایا:

﴿فعلت اليوم شيئا لم أكن أفعله، مسحت على الجوربين ، وهما غير منعلين .﴾
سنن ترمذی ، کتاب الصلوة، رقم : 99 – محدث البانیؒ نے اس قول کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے.

’’میں نے آج وہ کام کیا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا، وہ یہ کہ میں نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔‘‘

③ امام ابو حنیفہؒ نے اپنے خاص شاگر د قاضی ابو یوسف سے فرمایا:

میری ہر بات نہ لکھا کرو میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے، کل دوسری رائے ہوتی ہے، تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔
تاريخ يحيى بن معين رواية الدوري : 607/2 .

④ امام ابو حنیفہؒ کا ایک قول اس طرح ہے کہ؛

﴿إذا قلت قولا يخالف كتاب الله وخبر رسول الله ﷺ فاتركوا قولي﴾
ايقاظ همم أولى الابصار، ص: 50 .

’’جب میں کوئی ایسی بات کہوں جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے خلاف ہو تو میری بات کو چھوڑ دو۔‘‘

⑤ امام ابو حنیفہؒ نے بنانگ دہل فرمایا:

﴿لا يحل لاحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين اخذناه﴾
الانتقاء في فضائل الثلاثة الائمة الفقهاء ، ص : 145 ، البحر الرائق: 293/6 ، تاريخ يحيى بن معين بحواله صفة صلاة النبي ﷺ، ص: 46 .

’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ ہماری بات کو لے۔ جب تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ بات ہم نے کہاں سے لی ہے؟‘‘

⑥ امامؒ جب کوئی فتویٰ دیتے تو یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

’’یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے اور یہ بہترین بات ہے، جو ہم کہنے کی قدرت رکھتے تھے البتہ جو اس سے بھی بہتر بات لے آئے ، تو اس کی بات صواب (درست) کہلائے جانے کی زیادہ حق دار ہے ۔‘‘
حجة الله البالغة: 157/1 .

امام مالک بن انسؓ :

امام دار الحجرةؒ استنباط احکام کے لیے سب سے پہلے قرآن کریم اور پھر حدیث مبارکہ کی طرف رجوع کرتے ۔ آپ کے نزدیک اہل مدینہ اور سید نا ابن عمرؓ کا عمل بالخصوص بہت اہمیت رکھتا تھا حتی کہ جو حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملتا تو اجتہاد و قیاس سے کام لیتے۔ آپ مصالح مرسلہ کو بھی معتبر سمجھتے تھے، جیسا کہ احناف استحسان کو معتبر سمجھتے ہیں۔ امام مالک منصوص قرآنی آیات سے قیاس کرتے تھے اور احادیث سے جو احکام ثابت ہیں، ان پر بھی قیاس کرتے تھے۔
امام مالك ابو زهره .

① چنانچہ امام مالکؒ فرماتے ہیں:

﴿إنما أنا بشر أخطىء وأصيب ، فانظروا فى رأيي ، فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوه، وكل ما يخالف الكتاب والسنة فاتركوه .﴾
الجامع لابن عبد البر : 32/2 أصول الاحكام لابن حزم: 149/6 الايقاظ ، ص: 72 ، صفة صلاة النبى للألباني، ص: 48 .

’’یقیناً میں ایک انسان ہوں، میری بات غلط بھی ہوسکتی ہے اور صحیح بھی ، لہٰذا میری رائے میں نظر دوڑاؤ، اور جو بات تمہیں کتاب وسنت کے موافق لگے، اسے لے لو، اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہوا سے ترک کر دو۔‘‘

② امام مالکؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

﴿ليس احد بعد النبى ﷺ إلا ويؤخذ من قوله ويترك ، إلا النبى ﷺ .﴾
ارشاد السالك، لابن عبدالهادى : 227/1 ، صفة صلاة النبي ﷺ، ص : 49 .

’’نبی کریم ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، مگر امام الانبیاء ﷺ کی بات کو قبول ہی کیا جائے گا۔ رد نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘

③ امام مالکؒ کے شاگرد عبداللہ بن وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مجلس میں سنا:

امام مالکؒ سے دوران وضوء پاؤں کی انگلیوں کے خلال سے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل نہیں ہے۔ عبداللہ بن وہبؒ فرماتے ہیں:

میں نے امام مالک سے اس وقت بات نہ کی۔ جب لوگ چلے گئے تو میں نے آپ سے کہا:

ہمارے پاس اس مسئلہ میں ایک سنت ہے۔ تو یہ سن کر انہوں نے کہا، وہ کون سی سنت ہے؟ تو میں نے لیث بن سعد اور عبداللہ بن لھیعہ اور عمرو بن حارث اور یزید بن عمرو المعافری از ابو عبدالرحمٰن کے طریق سے سند بیان کی کہ صحابی رسول مستورد بن شداد القرشىؓ فرماتے ہیں:

﴿رأيت رسول الله ﷺ يدلك خنصره ما بين رجليه . فقال: إن هذا الحديث حسن، وما سمعت به قط إلا الساعة. ثم سمعته بعد ذلك يسأل، فيأمر بتخليل الاصابع .﴾
الجرح والتعديل، لابن ابی حاتم -31/1۔ 32۔ امام مالک نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی سے پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے تھے۔ تو امام مالکؒ نے فرمایا:

بے شک یہ حدیث حسن ہے، اور میں نے آج سے پہلے یہ حدیث نہیں سنی۔ جناب عبداللہ بن وہب فرماتے ہیں:

پھر اس کے بعد جب بھی آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا، تو میں نے انہیں انگلیوں کے خلال کرنے کا فتویٰ دیتے سنا۔

امام محمد بن ادریس شافعیؒ :

① امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

﴿أجمع المسلمون على من استبان له سنة عن رسول الله ﷺ لم يحل له أن يدعها لقول احد .﴾
الايقاظ ، ص : 68 .

’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کسی کے لیے رسول مقبول ﷺ کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں کہ اسے کسی دوسرے کی رائے کی وجہ سے چھوڑ دے۔‘‘

② مزید فرماتے ہیں:

﴿إذا وجدتم فى كتابى خلاف سنة رسول الله ﷺ فقولوا بسنة رسول الله ﷺ، ودعوا ما قلت .﴾
تاریخ مدينه دمشق 386/51 .

’’جب تم میری کتاب میں کوئی خلاف سنت بات دیکھو تو تم رسول کریم ﷺ کی سنت کو اختیار کرو، اور میری بات کو چھوڑ دو۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ امام شافعیؒ نے ارشاد فرمایا:

﴿إذا وجدتم سنة فاتبعوها ولا تلتفتوا إلى قول احد .﴾
تاریخ مدینه دمشق 386/51 ، حلية اولياء: 114/9 .

’’جب تم کوئی سنت پاؤ تو اس کی پیروی کرو اور کسی کے بھی قول کی طرف نہ دیکھو۔‘‘

③ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

﴿إذا صح الحديث فهو مذهبى .﴾
المجموع شرح المذهب: 104/1 .

’’جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے ، پس وہی میرا مذہب ہے۔‘‘

④ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے ایک دن مجھ سے کہا:

’’تمہارے پاس حدیث اور اسماء الرجال کا علم مجھ سے زیادہ ہے۔ پس جب بھی کوئی صحیح حدیث ملے تو مجھے بتاؤ، خواہ وہ حدیث کوفی، بصری یا شامی ہو، تاکہ میں اسے اپنا مذہب قرار دوں ۔‘‘
تاریخ مدينه دمشق: 386/51 .

⑤ اسی طرح امام شافعیؒ کا ایک اور عظیم الشان فرمان ہے کہ؛

’’جب میں کوئی صحیح حدیث بیان کروں اس پر عمل نہ کروں تو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ اس وقت میری عقل زائل ہو چکی ہوگی ۔‘‘
تاريخ مدينة دمشق: 386/51 .

امام شافعیؒ کی حدیث سے بہت زیادہ محبت تھی ۔ امام اہل السنتہ احمد بن حنبلؒ فرماتے:

﴿ما رأيت أحدا أتبع للحديث من الشافعي .﴾
حلية اولياء: 114/9 .

’’میں نے امام شافعیؒ سے زیادہ متبع حدیث کسی کو بھی نہیں پایا۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے فرمایا :

﴿إذا اصح الحديث وقلت قولا فأنا راجع عن قولي وقائل بذلك .﴾
حلية الأولياء : 107/9 ، إعلام الموقعين : 363/2 بمعناه .

’’میری جو بات صحیح حدیث کے خلاف ہو، میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔‘‘

اسی طرح حرملہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعیؒ کو یہ فرماتے سنا؟

’’مجھے بغداد میں ناصر الحدیث کا لقب دیا گیا ہے۔‘‘ یعنی حدیث کی مدد کرنے والا ۔
حلية اولياء: 114/9 .

ابن مفلح حنبلی فرماتے ہیں، امام شافعیؒ کے شاگرد بویطیؒ کا بیان ہے کہ میں نے امامؒ کو فرماتے ہوئے سنا:

میں نے ان کتابوں کی تالیف کی ہے اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پھر بھی ان میں غلطی کا امکان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾

﴿النساء: 82﴾

’’اور اگر وہ (قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف دیکھتے ۔‘‘

’’اس لیے میری ان کتابوں میں کتاب وسنت کے خلاف کچھ بھی دیکھو تو میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔‘‘
الآداب الشرعيه 154/3 .

امام شافعیؒ سے آپ کے شاگرد نے پوچھا، اگر آپ کا قول حدیث کے خلاف آجائے اور اس حدیث پر آپ کا عمل بھی ثابت نہ ہو تو پھر ہم کیا کریں؟ امامؒ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور شاگرد سے کہنے لگے :

’’کیا تو مجھے گرجا گھر کی پیداوار سمجھتا ہے؟ کیا میں عیسائی ہوں؟ مجھے مسلمان نہیں سمجھتا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کو میں نہ مانوں؟ اگر ایسا ثابت ہو جائے کہ حدیث کے خلاف میرا قول ہے تو تم کو اختیار ہے کہ اعلان کر دینا کہ ہے۔ شافعی پاگل ہے۔
آئمه اربعه از محمد ایوب سپرا، ص: 108 .

یعنی امام شافعیؒ نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو اس قول سے بری الذمہ قرار دے دیا جو آپ نے حدیث معلوم نہ ہونے کی صورت میں دیا ہو۔

امام شافعیؒ سے نماز میں رفع الیدین کرنے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

نماز شروع کرتے وقت کندھوں تک دونوں ہاتھ اٹھائے جائیں، رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع الیدین کریں البتہ سجدے میں جاتے ہوئے نہ کریں۔ یہ جواب سن کر سائل ربیع نے پوچھا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :

سید نا عبداللہ بن عمرؓ نے حدیث اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ ربیع نے کہا:

ہم تو یہ کہتے ہیں کہ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کیا جائے، پھر نہ کیا جائے۔ امامؒ نے فرمایا سنو ! ہم نے امام مالکؒ سے سنا، انہوں نے امام نافعؒ سے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے ، کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے۔ امام شافعیؒ نے فرمایا کہ امام مالکؒ اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز شروع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ تم لوگ نہ ابن عمرؓ کی بات مانتے ہو نہ رسول کریم ﷺ کی۔ حالانکہ جو روایت کرتے ہو، اس میں موجود ہے کہ ابتداء میں بھی رفع الیدین کیا اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی رفع الیدین کیا۔ کیا کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ فعل رسول کو کسی صحابی کی رائے سے چھوڑے؟ کبھی تو ابن عمرؓ کے قول کو اتنا بڑھانا کہ اس پر اور کئی چیزوں کو قیاس کرنے لگنا، کہیں اتنا گھٹانا کہ نہ صرف قول ابن عمر بلکہ ان کی بیان کردہ مرفوع حدیث کو بھی چھوڑ دینا۔ کیا کسی کے لیے جائز ہے کہ نبی کریم ﷺ روایت کرے کہ آپ نے دو یا تین مرتبہ رفع الیدین کیا اور اس میں یہ بھی مروی ہو کہ دو دفعہ کیا، پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو تو لے لیں اور دوسری کو چھوڑ دیں؟ کیا کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ نے جو عمل کیا ہو، اسے چھوڑ دے اور جو آپ نے چھوڑا ہو، اسے لے لے؟ کیا کسی کے لیے جائز ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ سے روایت آئی ہو، اسے ترک کر دے؟

ربیع نے پھر اعتراض کیا کہ ہمارے صاحب فرماتے ہیں کہ آخر رفع الیدین سے مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:

’’اس کے نبی ﷺ کی سنت کی اتباع ہے اور جواب سنو! جو پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنے کا مطلب ہے، وہی رکوع سے پہلے رفع الیدین کا اور رکوع کے بعد رفع الیدین کا مطلب ہے۔ تم خود ہی تو ان تینوں اور ان دونوں جگہ میں رفع الیدین کرنے کی روایت کرتے ہو۔ پھر خود رسول اللہ ﷺ اور اس حدیث کے راوی ابن عمرؓ کے خلاف عمل کرتے ہو۔ سنو! یہ سنت تو وہ ہے جس کے راوی تیرہ یا چودہ صحابی ہیں۔ (رضی اللہ عنہم) اس حدیث کی سندیں بکثرت ہیں۔ جو شخص رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتا، وہ تارک سنتِ نبوی ہے ۔‘‘
آئمه اربعه از محمد ایوب سپرا، ص: 109 .

امام احمد بن حنبلؒ :

نہ لو قول ائمہ گر حدیثوں سے ہو متصادم
امامانِ شریعت کی یہی ہم کو وصیت ہے!

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

﴿من رد حديث رسول الله ﷺ فهو على شفا هلكة .﴾
صفة صلاة النبي ﷺ، ص : 53 .

’’جس نے بھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک کو رد کیا تو وہ شخص ہلاکت کے دھانے پر ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

﴿رأى الأوزاعي ، ورأى مالك، ورأى أبى حنيفة كله رأى، وهو عندى سواء وإنما الحجة فى الآثار .﴾
جامع بيان العلم ، لابن عبد البر : 149/2 .

’’امام اوزاعی ، امام مالک اور امام ابو حنیفہؒ کی رائے تو رائے ہی ہے۔ میرے نزدیک ان کا درجہ حجت نہ ہونے میں برابر ہے۔ دلیل و حجت تو صرف احادیث و آثار ہیں۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ نے ارشاد فرمایا کہ:

’’جو شخص اسلام اور سنت پر فوت ہوا تو اس کا خاتمہ کامل خیر پر ہوا۔‘‘
مناقب احمد، ص : 180 .

سبحان اللہ ! آج لوگ ان کی تقلید کو اتباع رسول مقبول ﷺ پر ترجیح دے رہے ہیں اور امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے۔ لہذا یہ لوگ امت مسلمہ کے فراق، انتشار اور باہمی جنگ و جدال کے ذمہ دار ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق بخشے ۔

امام احمدؒ نے اصول السنہ، اصول رقم : 48 میں فرمایا کہ جو احادیث صحیح ومحفوظ ہیں ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں اگر چہ ہم اس کی تفسیر نہ بھی جانتے ہوں یا اس کے خلاف کلام یا جدال نہیں کرتے اور ان کی تفسیر نہیں کرتے مگر اسی طرح جیسے یہ بیان ہوئی ہیں اور اسے اس کے سب سے برحق مفہوم کی طرف پھیرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!