اشرف آصف جلالی اور ضعیف روایتوں کا استدلال
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث، حضرو

اشرف آصف جلالی اور ضعیف قصہ

الحمد لله ربّ العالمين والصلوة والسّلام على رسوله الأمين، أما بعد:

ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب اپنے گمراہ کن عقائد کو ثابت کرنے کے لئے ضعیف،مردود اور غیر ثابت قصے کہانیاں اور روایات بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عقیدہ توحید سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ورقہ بن نوفل کا واقعہ بیان کر کے اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جلالی صاحب نے النہایہ سے یہ واقعہ بیان کیا ہے:

ورقہ بن نوفل بلال رضی اللہ ان کے پاس سے گزرے جب ان کو تکلیف دی جاتی تھی ، پس انھوں (ورقہ بن نوفل) نے کہا:

اللہ کی قسم ! اگر تم نے اس (بلال رضی اللہ) کو شہید کر دیا تو میں اس کی قبر کو حنان بناؤں گا۔ ابن الا ثیر نے حنان کا مطلب بیان کیا:

رحمت، مہربانی، رزق اور برکت ۔اس (ورقہ) نے ارادہ کیا کہ میں اس کی قبر کو حنان کی جگہ بناؤں گا یعنی اللہ کی رحمت کا گہوارہ، میں اس کو چھوؤں گا بطور تبرک جس طرح چھوا جاتا تھا اگلی امتوں کے صالحین کی قبروں کو جن کو شہید کیا گیا، اللہ کی راہ میں بس یہ لوگوں کے ہاں تمھارے لیے عار اور گالی بن جائے گا۔

جلالی صاحب نے کہا:

یہ پندرھویں صدی کے ملنگوں کی بات نہیں ، توحید کے پرستاروں کی بات ہے۔ جب بلال اذان تو حید دے رہے تھے اور ورقہ حمایت کر رہے تھے۔اے مکہ کے مشرکو ! ورقہ تو حید پرست تمھیں دھمکی دے رہا ہے۔ اگر تم نے جرم محبت میں حضرت بلال کو شہید کر دیا تو بلال کی قبر پر بھی عاشقوں کا ہجوم رہے گا ، اب یہ دھمکی ہے کہتے ہیں :

میں ان کی قبر کو حنان بناؤں گا۔ حسان کا معنی کیا ، جیسے پہلی امتوں کے شہیدوں کی قبروں پر رش رہتا تھا اور ان سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا ایسے بلال بھی ہوں گے۔ ان کی قبر پر بھی ہجوم ہو گا۔ اگر یہ شہید کر دئیے تم نے تو میں ان کی قبر کو ہاتھ لگا کر چوموں گا میرا چومنا تم کو گالی لگے گا میرے چومنے سے تم شرماؤ گے جب بلال کی قبر کی میں تعظیم کروں گا تو اس سے تم شرم میں ڈوب جاؤ گے۔ یہ تمھارے لیے گالی بن جائے گا۔ لاہور کی سرزمین پر حضرت ورقہ کی نیابت میں میں کہتا ہوں:

اے جعلی توحید پرستو میں داتا کی قبر پر حاضری دوں گا ۔ آج تم شرم سے ڈوب جاؤ گے۔ دیکھو یہ میری چھپی ہوئی کتاب نہیں یہ میری لکھی ہوئی کتاب نہیں یہ چھٹی صدی کے امام کی کتاب ہے۔ یہ بات حضرت ورقہ بن نوفل کی توحید پرست زبان سے نکلی ہوئی بات ہے۔

آخر میں کہتے ہیں:

’’یہاں یہ ایک وضاحت کی بھی ضرورت ہے شاید کسی کے ذہن میں آرہا ہو کہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضرت ورقہ کا جلد وصال ہو گیا تھا۔ حضرت بلالؓ نے کلمہ بعد میں پڑھا۔ یہ میرے پاس فتح الباری شرح صحیح البخاری موجود ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ماخذ میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ فتح الباری میں با قاعدہ لکھا ہے کہ سیرت ابن اسحاق میں ہے اور با قاعدہ انھوں نے سوال کر کے جواب دیا کہ و فتر الوحی میں واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہے اور شاید راوی کو آخری بات یہی یاد ہے۔ حضرت ورقہ کی وحی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ہوتی تھی اس کے بعد راوی کو پتا نہیں کہ حضرت ورقہ کتنی دیر زندہ رہے یا ان کا وصال ہو گیا تو اس صورت حال پر امام ابن حجر نے واضح طور پر اس کی شرح کے اندر لکھا کہ حضرت ورقہ کو اس زمانے میں زندہ مانا جب حضرت بلال تو حید کی اذانیں دے رہے تھے یہ دور از تحقیق نہیں مگر راوی کے علم میں نہیں ۔ میں نے یہ وضاحت اس لیے کر دی تا کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ تمھیں تو تاریخ کا ہی پتا نہیں ورقہ کب تھے اور بلال کب تھے۔ باقاعدہ ان محققین نے اس کے جواز پر تشریح کی ہے اور میں یہ وضاحت کر رہا ہوں کہ حضرت بلالؓ اس امت کے اولین پرستاروں میں سے ہیں اور حضرت ورقہ اس وقت تو حید پرست ہیں اور لوگوں کو بتارہے ہیں کہ اگر بلال کو شہید کر دیا گیا تو میں بلال کی قبر سے تبرک لے کر تمھیں بتاؤں گا کہ قبروں سے تبرک لینے والے مشرک نہیں توحید پرست ہوتے ہیں۔‘‘ (انتھی کلامہ)

جلالی کی لفاظی کے علاوہ یہ قصہ مختلف کتابوں میں موجود ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

① محمد بن اسحاق بن یسار نے اس کو اپنی سیرت میں اس طرح روایت کیا ہے:

قال حدثني هشام بن عروة عن أبيه قال: كان ورقة بن نوفل .. إلخ( ج اص ۲۲۷)

② حلیۃ الاولیاء میں اس کی سند اس طرح ہے:

عـن مـحـمـد بـن إسحاق قال: حدثني هشام بن عروة بن الزبير عن أبيه . إلخ (ج اص ۱۴۷ – ۱۴۸)

③ اس کے علاوہ الکامل لابن الاثیر میں بغیر سند کے یہ قصہ موجود ہے۔

(ج اص ۵۸۹)

④ سیرت ابن ہشام میں ابن اسحاق کی سند سے مذکور ہے۔

(ج ا ص ۳۴۰)

⑤ البدایہ والنہایہ لابن کثیر ( ج ۳ ص ۵۷)

مراجع مذکورہ میں اس قصے کا اصل ماخذ سیرت ابن اسحاق ہے باقی جتنی کتابوں میں ہے،سب نے سیرت ابن اسحاق سے ہی نقل کیا ہے۔

اس روایت کو محمد بن اسحاق کے علاوہ امام لیث بن سعد المصری نے بھی ہشام بن عروہ عن ابیہ کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(عیون الاثر لا بن سید الناس ۱۱۴/۱)

نیز عبدالرحمٰن بن ابی الز ناد نے بھی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے۔

(زبیر بن بکار بحوالہ الاصابة لابن حجر۶۳۴/۳ت ۹۱۳۱)

یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کو بیان کرنے والے عروہ بن زبیر (م۹۴ھ) ہیں جو ورقہؓ کے زمانے میں دنیا میں موجود ہی نہیں تھے، بلکہ یہ سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۴۵۱۱)

سیدنا عثمان رضی اللہ شہادت عمر ؓ کے بعد یعنی ۲۳ ہجری میں خلیفہ ہوئے تھے اور سیدنا بلالؓ شہادت عمر سے پہلے ۲۰ ہجری یا اس سے پہلے ملک شام میں فوت ہو گئے تھے، لہٰذا عروہ رحمہ اللہ کی سیدنا بلالؓ سے روایت بھی منقطع ہے۔

ثابت ہوا کہ یہ روایت منقطع ہے اور منقطع روایت بالا تفاق ضعیف ہوتی ہے۔

طحاوی حنفی نے امام ابو حنیفہ وغیرہ سے ایک حدیث کی مخالفت نقل کر کے لکھا ہے:

’’وكان الحجة لهم في ذلك ان هذا الحدیث منقطع‘‘

اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے۔

(شرح معانی الآثار۱۶۴/۲، باب الرجل مسلم في دار الحرب وعنده اکثرمن اربع نسوة)

یعنی طحاوی کے نزدیک امام ابوحنیفہ منقطع کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

حافظ ذہبی نے بھی لکھا ہے:

’’فلا عبرة بالقول المنقطع‘‘

منقطع قول کا کوئی اعتبار نہیں۔

(میزان الاعتدال ۴۱۶/۳، کہمس بن الحسن)

ڈاکٹر محمود الطحان نے لکھا ہے :

’’المنقطع ضعیف باجماع العلماء لفقده شرطًا من شروط القبول وهو اتصال السند و للجهل بحال الراوي المحذوف.‘‘

علماء کا اجماع ہے کہ منقطع ضعیف ہے کیونکہ صحیح حدیث کی ایک شرط :

اتصال سند اس میں مفقود ہے اور حذف شدہ راوی کا حال بھی معلوم نہیں۔

(تیسیر مصطلح الحدیث ص ۲۵)

حافظ ابن حجر اور غلام رسول سعیدی (نعمۃ الباری ۱/ ۱۳۸) وغیر ہما کا اس منقطع روایت کو ’’مرسل جید‘‘ قرار دینا اصولِ حدیث کی رُو سے غلط ہے۔

جب یہ روایت ہی ضعیف ہے اور اس کا ضعیف ہونا اصولِ حدیث کی رُو سے ثابت کر دیا گیا ہے تو حافظ ابن کثیر کی تشریح حنان اور حافظ ابن حجر کی عبارت فتح الباری کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ، لہذا اس پر بحث کرنا کہ سیدنا ورقہ سیدنا بلال کے اسلام لانے کے وقت زندہ تھے یا نہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

نیز یہ ضعیف روایت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ثابت شدہ درج ذیل صحیح قول کے خلاف ہے:

’’ثم لم ينشب ورقة أن توفي و فتر الوحي‘‘

پھر اس کے بعد ورقہ زیادہ دن زندہ نہ رہے (یعنی جلدی فوت ہو گئے) اور وحی کا نزول رک گیا۔

(صحیح بخاری:۶۹۸۲،۳۹۵۳،۳)

سیدہ عائشہؓ کا یہ قول درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:

مصنف عبد الرزاق (۳۲۲/۵ ح ۹۷۱۹ ، دوسرا نسخه : ۹۷۸۲) مسند احمد (۲۳۳/۶ ح ۲۵۹۵۹) صحیح ابن حبان (الاحسان: ۳۳) صحیح ابی عوانہ (۱/ ۱۱۱ ح ۲۴۵) کتاب الایمان لابن منده (۶۸۳) ودلائل النبوة للبیہقی (۱۳۷/۲) شرح السنتہ للبغوی (۱۳/ ۳۱۸ ح ۳۷۳۵ وقال:هذا حديث متفق علىٰ صحته) وغير ذلك

یہ قول بہت سی کتابوں میں ہے اور اسے راوی کا قول کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا قول ہے اور اس صحیح و ثابت قول کے مقابلے میں ہزار منقطع ومرسل روایتیں بھی مردود ہیں، چاہے انھیں کسی نے مرسل جید ہی کیوں نہ کہہ رکھا ہو۔

جلالی صاحب اور فرقہ بریلویہ سے گزارش ہے کہ وہ اس روایت کی سند کو صحیح ثابت کریں، پھر اس پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھیں اور سیمیناروں میں بیان کرتے پھریں اور اگر ثابت نہ کر سکیں تو پھر اپنے گمراہ کن عقائد کے جواز کے لیے ایسی ضعیف روایات بیان کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اہل بدعت کی گمراہیوں اور چالبازیوں کا دارو مدار بہت سی باتوں پر ہے، جن میں بعض درج ذیل ہیں:

① وہ قرآن وحدیث کا مفہوم سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں نہ تو مانتے ہیں اور نہ اُسے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ، بلکہ خلف خالفین (یعنی زمانہ خیر القرون کے بہت بعد کے مبتدعین ، جھوٹی روایات بیان کرنے والوں اور غلط منہج والے لوگوں ) کا فہم و تشریحات ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں۔

② ضعیف، مردود اور موضوع روایات سے علانیہ استدلال کرتے ہیں اور عوام الناس کے سامنے جھوٹے قصے کہانیاں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔

③ صحیح احادیث پر اپنے ایمان و عقائد کی بنیاد نہیں رکھتے بلکہ کئی صیح احادیث پر حملے کرتے ہیں، نیز انھوں نے صحیح حدیث کو خبر واحد کہہ کر رد کرنے کا باطل اصول بھی گھڑ رکھا ہے۔ [ختم شد]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے