اسلام کے پھیلاؤ میں تلوار کا کردار اور حقیقت

اسلام کے پھیلاؤ کی حقیقت

اسلام کی تاریخ کو سرسری طور پر دیکھ کر یہ تصور قائم کیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں کو اقتدار اور طاقت حاصل ہو جائے تو انہیں تلوار کے ذریعے غیر مسلموں پر چڑھائی کرنا فرض ہے۔ تاہم، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلامی ریاست نے ہمیشہ "اعلاء کلمۃ اللہ” کی بنیاد پر امن اور دعوت کے ذریعے اپنی حدود کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں نبی اکرم کے دور اور خلفاء کے ادوار کی پالیسیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اسلام کا پیغام بغیر کسی تصادم کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ ذیل میں خیر القرون کے تین نمایاں طریقوں کو پیش کیا جا رہا ہے:

اسلام کے پھیلاؤ کی تین صورتیں

<➊> اجتماعی طور پر دعوتِ اسلام کی قبولیت
مدینہ کے انصار کی طرح کسی معاشرے کے تمام طبقات اگر مجموعی طور پر اسلام کی دعوت قبول کر لیں تو تصادم کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

<➋> مخالفت کا خاتمہ اور پرامن راستہ
اگر کوئی قوم مشرکین مکہ کی طرح مخالفت اور تصادم پر قائم رہے لیکن بعد میں اپنی دشمنی اور مخالفت ختم کر دے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ امن و امان سے پیش آئیں اور قتل و غارت سے اجتناب کریں۔

<➌> جنگ صرف راستے کی رکاوٹ ہٹانے کے لیے
اگر کوئی قوم یا حکومت دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنے اور اپنی عسکری طاقت سے اسلام کی دعوت کو دبانے کی کوشش کرے، جیسے روم و فارس کی طاقتوں نے کیا، تو جنگ کا مقصد صرف ان رکاوٹوں کو ہٹانا ہوگا، نہ کہ عوام کا قتل عام یا زبردستی مذہب تبدیل کرانا۔

فقہاء کی رائے اور جنگ کا جواز

فقہاء کرام نے جنگ کو صرف اس وقت جائز قرار دیا ہے جب:

  • کوئی حکومت عملاً اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
  • وہ اسلام کو اپنی اقدار بطور آفاقی اقدار پیش کرنے کا موقع نہ دے۔
  • وہ پرامن طور پر رہنے کے لیے تیار نہ ہو۔

ایسی صورت میں، جب اور کوئی راستہ نہ بچے تو اسلامی ریاست کے لیے طاقت کا استعمال جائز ہو جاتا ہے تاکہ اللہ کا پیغام تمام انسانیت تک پہنچے۔ یہ عین انصاف پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد نہیں۔

اسلامی جنگوں اور مغربی طاقتوں کے اقدامات کا موازنہ

اسلامی جنگیں:
اسلامی جنگوں کا مقصد صرف سیاسی رکاوٹوں کو ہٹانا اور مظلوم عوام کو آزاد کرنا تھا، جیسا کہ سپین کے شہر سیوٹا کے گورنر کاونٹ جولین نے مسلمانوں کو ظالم بادشاہ سے نجات کے لیے مدد طلب کی۔ مسلمانوں نے عوام کو تعلیم و تہذیب سے آراستہ کیا اور کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا۔

سپین میں مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت اس بات کا ثبوت ہے کہ عیسائی اکثریت برقرار رہی، اور مسلمانوں نے کبھی مذہب کی تبدیلی پر زور نہیں دیا۔ لیکن جب عیسائیوں نے اقتدار حاصل کیا تو مسلمانوں کو قتل یا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

مغربی طاقتوں کے اقدامات:
عیسائی، یہودی، ہندو، اور بدھ مذہب کے ماننے والوں نے اپنے اقتدار کے دوران مسلمانوں پر بے شمار مظالم کیے۔

  • عیسائی طاقتیں: عراق، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک پر حملے جھوٹے بہانوں سے کیے گئے، جیسے نائن الیون کا واقعہ یا عراق میں ہتھیاروں کی افسانوی کہانیاں۔
  • یہودی طاقتیں: اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔
  • ہندو طاقتیں: انڈیا نے کشمیری مسلمانوں کو غلامی پر مجبور کر رکھا ہے۔
  • بدھ مت طاقتیں: برما کے مسلمانوں کے خلاف مظالم کی داستانیں سب کے سامنے ہیں۔

اسلامی طرزِ حکمرانی کی خصوصیات

اسلامی حکمرانوں نے جب بھی اقتدار حاصل کیا، غیر مسلم رعایا کو تمام حقوق فراہم کیے، امن قائم کیا اور انصاف کو فروغ دیا۔ مسلمانوں کی حکومت میں:

  • تعلیمی، سیاسی، اور معاشی ترقی ہوئی۔
  • عوام کو بہتر زندگی فراہم کی گئی۔
  • کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔

جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انہیں نہ صرف سیاسی میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ دیگر اقوام کے مظالم نے انہیں مزید نقصان پہنچایا۔

نتیجہ

اسلام کا مقصد ہمیشہ اللہ کا پیغام انسانوں تک بغیر جبر و اکراہ کے پہنچانا رہا ہے۔ مخالفین کا یہ کہنا کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا، سراسر غلط فہمی اور پروپیگنڈہ ہے۔ اسلامی جنگیں صرف رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے کی گئیں، اور عوام کو کبھی زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1