غامدی صاحب کا مؤقف: فلسطینی جدوجہد اور عذاب کا تصور
غامدی صاحب نے فلسطینیوں کو یہ مشورہ دیا کہ موجودہ جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی طور پر مضبوط کریں اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتیں مسلمانوں کی اخلاقی پستی کی وجہ سے ہم پر مسلط ہیں، اور ہم بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سب اللہ کی جانب سے عذاب کا ایک ذریعہ ہے۔
یہی نقطۂ نظر غامدی صاحب کے شاگرد ریحان احمد یوسفی (المعروف ابویحیی) نے اپنے ناول جب زندگی شروع ہوگی میں بھی پیش کیا۔
محمد دین جوہر کا تبصرہ
-
- غامدی صاحب کی دینی تعبیر کا بنیادی مقصد مغرب کے غلبے کو تقدیری صورت حال سمجھ کر قبول کرنا ہے۔
- اس کے ذریعے مسلمانوں میں سیاسی اور تہذیبی مزاحمت کے تمام ذرائع ختم کیے جا رہے ہیں۔
حوالہ: محمد دین جوہر، ایڈیٹر سہ ماہی ’جی‘
ڈاکٹر زاہد مغل کا تبصرہ
-
- غامدی صاحب کی تعبیر میں تہذیبی غلبے اور مغلوبیت کو تقدیری بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
- وہ غلبہ دین کی فعال جدوجہد کو انبیاء کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے وحی کی شرائط رکھتے ہیں۔
- لیکن جب مسلمانوں کی طرف سے استعمار کے غلبے کو قبول کرنے کی بات آتی ہے، تو اسے اللہ کا عذاب قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے وحی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
- اس معاملے میں اپنے ذاتی علم کو کافی سمجھتے ہیں اور عذابِ الٰہی کے فیصلے پر مبنی حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔
حوالہ: ڈاکٹر زاہد مغل، پروفیسر نسٹ یونیورسٹی
مظلوم کی مزاحمت کا حق اور اسلام
مزاحمت: ایک فطری حق
- ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
- ہر ذی روح اپنی بقا کے لیے مزاحمت کرتی ہے، یہاں تک کہ ایک کیڑا بھی اپنی بقا کے خطرے پر لڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
- ظلم کے خلاف جدوجہد، درحقیقت بقا کی جدوجہد ہے، اور ہر مذہب و قانون اس جدوجہد کو جائز تسلیم کرتا ہے۔
اسلام کا مؤقف:
اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانی فطرت کے تمام جائز تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اسلام مظلوم کی مزاحمت کے حق کو تسلیم کرتا ہے، چاہے طاقت کا توازن ظالم کے حق میں ہو۔
قرآن پاک کی یہ تعلیم واضح ہے:
كتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے قانونِ صبر و استقامت سے بڑی جماعتوں پر غالب آئیں، اور اللہ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
(سورۃ البقرہ: 249)
مظلوم کے دفاع کا قرآنی جواز:
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بےشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔
(سورۃ الحج: 39-40)
تاریخ کا سبق
- دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ظلم اور جارحیت کے سامنے مزاحمت کے بغیر کبھی آزادی حاصل نہیں ہوئی۔
- صبر اور خودسپردگی کا رویہ اختیار کرنے والی اقوام ہمیشہ شکست خوردہ رہیں۔
- جب بھی کسی قوم نے مزاحمت کی، وہ ابتدا میں مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کرتی رہی، لیکن آخرکار فتح انہی کے حصے میں آئی۔
نوابزادہ نصراللہ خان کے اشعار:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
نتیجہ
ظلم کے خلاف مزاحمت انسان کی فطری اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
- مزاحمت ترک کر کے ظالم کے تسلط کو قبول کرنا، درحقیقت اپنی بقا کے حق سے دستبردار ہونا ہے۔
- حکمت عملی ضرور مدنظر رکھی جائے، لیکن ظلم کے خلاف کھڑا ہونا اور جدوجہد کرنا ضروری ہے۔