اسلام میں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کی اہمیت
اسلامی تعلیمات میں عدل و انصاف کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جہاں ایک شخص نے ایک سے زیادہ شادی کی ہو۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان حقوق کی برابری کرے، کیونکہ قرآن و سنت میں اس حوالے سے سخت احکامات اور وعید آئی ہے۔
1. قرآن مجید کی روشنی میں
عدل کا حکم:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
(سورہ النساء: 3)
ترجمہ: "اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (بیویوں کے درمیان) عدل نہیں کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو یا جو تمہاری ملکیت میں ہو، یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو۔”
تشریح: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ عدل کریں۔ اگر کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ وہ عدل نہیں کرسکتا، تو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تاکہ ظلم سے بچا جا سکے۔
ناانصافی کی مذمت:
وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ
(سورہ النساء: 129)
ترجمہ: "تم ہرگز عورتوں کے درمیان پورا عدل نہیں کر سکو گے خواہ تم کتنا ہی چاہو، پس (کسی ایک کی طرف) پورے طور پر نہ جھکو کہ دوسری کو لٹکی ہوئی چھوڑ دو۔”
تشریح: اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے مطابق یہ واضح کر دیا ہے کہ مکمل عدل کرنا مشکل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک بیوی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جائے۔
2. احادیث کی روشنی میں
ناانصافی کرنے والے کی سزا:
مَن كانت له امرأتان، فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل
(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 2133)
ترجمہ: "جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف زیادہ مائل ہو تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا جسم جھکا ہوا ہوگا۔”
تشریح: یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنا قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا باعث بنے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عدل:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ
(سنن الترمذی، حدیث نمبر: 1140)
ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل کرتے اور فرماتے: ‘اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، تو مجھے ان چیزوں پر ملامت نہ کر جو تیرے اختیار میں ہیں اور میرے اختیار میں نہیں۔'”
تشریح: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے عدل کی اہمیت کو اجاگر کیا اور دل کے معاملات میں انسان کی بے بسی کو اللہ کے سپرد کیا۔
3. فقہاء اور محدثین کا موقف
امام نووی رحمہ اللہ:
"مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، لباس، رات گزارنے اور رہائش میں مساوات کا مظاہرہ کرے۔ اگر کسی ایک کے ساتھ زیادہ احسان کیا جائے تو یہ عدل کے خلاف ہوگا اور اللہ کے ہاں سخت مؤاخذے کا سبب بنے گا۔”
(شرح صحیح مسلم)
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ:
"اگر کوئی شخص اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے یا کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، تو اسے اس محبت کو اپنے سلوک اور نفقہ میں ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ان کے درمیان مساوات اور عدل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔”
(المغنی، جلد 7، صفحہ 232)
4. خلاصہ
اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت عدل و انصاف کے اصول کے ساتھ مشروط ہے۔ قرآن و سنت میں بیویوں کے درمیان برابری کا حکم دیا گیا ہے، اور ناانصافی کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ بیویوں کے درمیان عدل میں نفقہ، رہائش اور وقت کی مساوات شامل ہیں۔
جو شخص عدل کا مظاہرہ نہیں کرتا، وہ نہ صرف دنیا میں گناہ کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ قیامت کے دن ذلت کا سامنا کرے گا۔ لہٰذا، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہر مسلمان شوہر کی ذمہ داری ہے۔