اسلام میں جہیز کی حیثیت
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کتنے ہی گھرانوں کی بچیوں سنت نکاح سے محروم ہے جہیز کی شرعی حیثیت پر آشکار فرما کر عنداللہ ماجور ہوں؟
جواب : شادی سے پہلے رشتے کی بات چیت کے وقت لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا خواہ وہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کی صورت میں ہو یا نقدی اور مختلف سامان کی صورت میں ہو اور رشتے کی منظوری کو اس پر معلق و موقوف کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے لڑکے والوں سے یہ کہنا کہ اگر آپ یہ رشتہ منظور کر لیں تو ہم جہیز میں نقد اور فلاں فلاں اشیاء دیں گے، سراسر غلط اور شریعت کے خلاف ہے۔ اس لین دین کی رسم کا نام چاہے جو بھی رکھا جائے یہ شرعی طور پر ناجائز اور ممنوع ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
➊ ہر مسلمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مطابق عمل کرنا اور زندگی کے تمام معملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
« لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا » [الأحزاب : 21]
”تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسوہ حسنہ عملی نمونہ ہے جس کی پیروی اور اتباع و اقتدا سب کے لیے ضروری ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے تمام افعال ختنہ، عقیقہ، منگنی اور شادی وغیرہ کی تقریبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے انجام دیا ہے لیکن ان کے ایام ہائے زندگی میں یہ رسومات اور مطالبات ہمیں نہیں ملتے۔ الغرض شرع میں اس کا وجود تک نہیں ہے۔
➊ ہر مسلمان کے لیے شریعت مطہرہ میں شادی کے موقع پر یا رشتہ طے کرتے وقت یا شادی کے بعد لڑکی والوں پر کسی قسم کا خرچ اور بوجھ نہیں رکھا گیا۔ بلکہ یہ سارا بوجھ لڑکی کا لڑکے پر رکھا گیا ہے کہ یہ اس کو ضروریات زندگی کے اسباب مہیاکرے۔ اس لئے شوہر کو قرآن میں قوام کہا گیا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ » [سورة النساء 34]
”مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نان و نفقہ اور مہر وغیرہ تمام اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔ تو لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی مال و متاع کا مطالبہ شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔
➋ ہندو مذہب میں لڑکی کو والدین سے وراثت نہیں ملتی، اس لیے لڑکے والے چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اور جس شکل میں بھی ہو لڑکی والوں سے زیادہ سے زیادہ مال و متاع حاصل کر لیا جائے، اس لیے وہ شادی کے موقع پر مذکورہ مطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی والے ان کے مطالبے کو پورا کرتے ہیں۔ انہی کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، حالانکہ وراثت کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور قرآن نے انہیں حدود اللہ کہا ہے اور اس کے ادا کرنے پر عظیم کامیابی خوشخبری سنائی ہے اور وراثت سے محروم کرنے پر ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
«تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ٭وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ » [النساء : 13، 14]
”یہ اللہ کی حدیں ہیں، جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اس کو وہ جنت میں داخل کرے گا، جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کو جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ وراثت کو ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ہے اور جو لوگ اس کی ادائیگی نہیں کرتے وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ابدی جہنم کی وعید ہے اور جہیز درحقیقت وراثت کی نفی ہے۔
➍ ان وجوہات کے علاوہ جہیز کے نقصانات اس قدر ہیں کہ عام طور پر غریب لوگوں کی بیٹیوں کا نکاح جہیز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتا اور نوجوان لڑکیاں اسی طرح گھر میں بیٹھ کر اپنی عمر برباد کر دیتی ہیں اور کئی لڑکیاں نکاح نہ ہونے کے باعث مختلف جرائم کا شکار ہو جاتی ہیں جس کے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلاف شرع کاموں سے محفوظ فرمائے اور جہیز جیسی لعنت سے بچنے کی توفیق دے۔ (آمین !)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: