اسلام میں جزیہ کا عدل و تحفظ پر مبنی نظام

اسلام سے پہلے جزیہ کی نوعیت

اسلام سے پہلے جزیہ کو مفتوح اقوام پر ظلم اور استحصال کے طور پر لاگو کیا جاتا تھا۔ غالب اقوام اس کے ذریعے مغلوب قوموں کی توہین، نفسیاتی دباؤ اور ان کی املاک و عزت پر قابض ہونے کی نیت رکھتی تھیں۔ جزیہ کا مقصد انتقام اور دشمنی کا اظہار تھا۔

اسلام میں جزیہ کی حقیقت

اسلام نے جزیہ کو عدل، تحفظ اور برابری کے اصولوں پر لاگو کیا۔ اس کے ذریعے غیر مسلموں کے عقائد، اموال، اور عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ مفتوح اقوام کو مسلمانوں کے برابر شہری حقوق دیے گئے، اور ان کے جان و مال کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمہ داری بنائی گئی۔

حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایک معاہدے میں فرمایا:
’’اگر ہم آپ کی حفاظت کریں تو ہمیں جزیہ لینے کا حق ہوگا، بصورت دیگر نہیں۔‘‘
(تاریخ البلاذری)

تاریخی شواہد اور مسلمان فاتحین کی مثالیں

مسلمانوں کے معاہدوں میں غیر مسلم رعایا کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اہل حمص کا جزیہ واپس کر دیا تھا، جب مسلمانوں کو ان کی حفاظت کرنے میں دقت پیش آئی۔ اسی طرح حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے بھی دمشق کے لوگوں کا جزیہ لوٹا دیا۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ جزیہ صرف تحفظ کے بدلے لیا جاتا تھا۔

اسلامی جزیہ کا نظام اور اس کی مقدار

اسلام میں جزیہ کو ایک مناسب اور قابلِ برداشت حد میں رکھا گیا۔ جزیہ تین درجات پر مشتمل تھا:

  • اغنیاء: سالانہ 48 درہم
  • اوسط درجے کے افراد (تاجر/کسان): سالانہ 24 درہم
  • کم آمدنی والے (پیشہ ور مزدور): سالانہ 12 درہم

یہ مقدار بہت معمولی تھی، اور اگر کسی کے پاس ادائیگی کی استطاعت نہ ہو تو جزیہ ساقط کر دیا جاتا تھا۔

زکوٰۃ اور جزیہ کا موازنہ

ایک مسلمان مالدار اپنی دولت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ کے طور پر ادا کرتا ہے، جو جزیہ کی رقم سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً، اگر ایک مسلمان کے پاس 10 لاکھ درہم ہوں تو اسے 25 ہزار درہم زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی، جبکہ اسی دولت کا مالک غیر مسلم سالانہ صرف 48 درہم جزیہ ادا کرے گا۔

جزیہ سے مستثنیٰ افراد

اسلام میں جزیہ کی ادائیگی صرف ان لوگوں پر لازم تھی جو اس کے متحمل ہو سکتے ہوں۔ درج ذیل افراد کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا:

  • فقراء اور مساکین
  • بچے، عورتیں، اور بوڑھے
  • بیمار اور معذور افراد
  • مذہبی راہب

حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے معاہدے میں یہ واضح کیا کہ جزیہ صرف ان افراد سے لیا جائے گا جو برسرِ روزگار ہوں، اور ان کی حفاظت اسلامی حکومت کرے گی۔
(البلاذری)

جزیہ بطور عسکری خدمت سے استثنیٰ

اسلام نے ذمیوں (غیر مسلم رعایا) کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا، کیونکہ یہ غیر منصفانہ ہوتا کہ وہ لوگ جو اسلامی عقائد کو نہیں مانتے، اسلامی جنگوں میں شامل ہوں۔
اگر کوئی ذمی رضاکارانہ طور پر اسلامی فوج میں شامل ہو تو اس سے جزیہ ساقط کر دیا جاتا تھا۔

ذمیوں کے حقوق کا تحفظ

اسلام نے ذمیوں کو نہ صرف عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیا، بلکہ ان کے فقراء اور بیمار افراد کی کفالت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس اصول کو عملی جامہ پہنایا، جب انہوں نے ایک ضعیف یہودی کو دیکھ کر اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا۔
(کتاب الخراج، امام ابویوسف)

اسلام کے اصولِ جزیہ اور جدید ریاستی نظام

اسلام میں جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ امن پسند غیر مسلم شہریوں سے جزیہ لینا نہ اسلام کا مطالبہ ہے اور نہ جدید ریاستی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔

نتیجہ

اسلام نے جزیہ کو ظلم کے بجائے عدل کا نظام بنایا، جو نہ صرف مفتوح اقوام کے حقوق کا محافظ تھا بلکہ ان کی فلاح و بہبود کا ضامن بھی تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے