اسلام میں کسی کا نام بگاڑنا، اسے بُرے یا ناپسندیدہ القابات سے پکارنا
اسلام میں کسی کا نام بگاڑنا، اسے بُرے یا ناپسندیدہ القابات سے پکارنا، یا اس کا تمسخر اڑانا ایک سنگین گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے اور انسان کی عزت و احترام کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس رویے کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے:
سورۃ الحجرات (49:11):
"اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد فسق کا نام رکھنا برا ہے۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔”
اس آیت مبارکہ میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کو بُرے القابات سے نہ پکارا جائے اور نہ اس کا مذاق اڑایا جائے، کیونکہ یہ عمل توہین اور دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔
احادیث کی روشنی میں
1. حضرت ابو درداءؓ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بُرے لوگ وہ ہوں گے جنہیں دنیا میں لوگ بُرے القاب سے پکارتے ہیں۔”
(صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ دوسروں کو بُرے ناموں سے پکارنا اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے اور آخرت میں اس کی سخت سزا ہو سکتی ہے۔
2. حضرت عائشہؓ سے روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لوگوں کے نام بگاڑنے سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ دلوں میں نفرت پیدا کرتا ہے۔”
(سنن ابوداؤد)
یہ حدیث دوسروں کے نام بگاڑنے کے رویے کو دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا سبب قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔
خلاصہ
قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کسی کا نام بگاڑنے، اسے بُرے القابات سے پکارنے، یا اس کا مذاق اڑانے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف گناہ ہے بلکہ معاشرتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ناموں کا احترام کریں اور محبت و عزت کا ماحول قائم کریں تاکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔