اسلام میں برائی کی مذمت
اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر قسم کی برائی سے روکتا ہے اور نیکی و بھلائی کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں برائی کی سخت مذمت کی گئی ہے، کیونکہ برائی نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے اور امت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
قرآن میں برائی کی مذمت
1.1 نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَسْتَوِی ٱلْحَسَنَةُ وَلَا ٱلسَّیِّئَةُ ۚ
"نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔”
(سورۃ الفصلت: 34)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ برائی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ نیکی ہی انسان کی اصل پہچان ہے۔
1.2 برے کام شیطان کی طرف سے ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا یَأْمُرُکُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلْفَحْشَآءِ
"شیطان تمہیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔”
(سورۃ البقرہ: 268)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ برائی کی ترغیب دراصل شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، اور جو لوگ برائی کرتے ہیں، وہ شیطان کے پیروکار بن جاتے ہیں۔
1.3 برائی پھیلانے والوں کے لیے سخت عذاب
إِنَّ ٱلَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ ٱلْفَٰحِشَةُ فِی ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی ٱلدُّنْیَا وَٱلْءَاخِرَةِ
"جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی اور برائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔”
(سورۃ النور: 19)
یہ آیت ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو جان بوجھ کر معاشرے میں بے حیائی اور برائی کو فروغ دیتے ہیں۔
احادیث میں برائی کی مذمت
2.1 برائی کو روکنا ایمان کی علامت ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے جو شخص برائی دیکھے، وہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا سمجھے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔”
(صحیح مسلم: 49)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ برائی کو روکنا ہر مسلمان کا فرض ہے، اور جو شخص برائی کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا، اس کا ایمان کمزور شمار کیا جاتا ہے۔
2.2 برے لوگوں کی صحبت سے بچنے کا حکم
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس تم دیکھو کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔”
(سنن ابوداؤد: 4833)
یہ حدیث ہمیں نصیحت کرتی ہے کہ ہمیں اپنی صحبت کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، کیونکہ بری صحبت انسان کو بھی برائی میں مبتلا کر سکتی ہے۔
2.3 برائی کے انجام پر سخت وعید
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو قوم برائی کو دیکھ کر اسے نہ روکے، اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔”
(سنن ابوداؤد: 4338)
یہ حدیث ہمیں اجتماعی برائی کے نقصانات سے خبردار کرتی ہے اور ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم برائی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
برائی سے بچنے کے طریقے
اسلام نے برائی سے بچنے کے کئی طریقے بیان کیے ہیں جو ہر مسلمان کو اپنانے چاہئیں:
◈ اللہ کا خوف پیدا کرنا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمارے ہر عمل کا حساب ہوگا۔
◈ اچھی صحبت اپنانا: نیک لوگوں کے ساتھ رہیں، کیونکہ صحبت انسان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ برے دوستوں سے پرہیز کریں۔
◈ ذکر و تلاوت کی عادت ڈالنا: قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے سے دل میں نیکی کی روشنی پیدا ہوتی ہے، جو برائی سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔
◈ برائی کو روکنے کی کوشش کرنا: اگر کہیں برائی دیکھیں تو اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، چاہے وہ عمل، زبان یا دل کے ذریعے ہو۔
◈ صبر اور دعا: برائی سے بچنے کے لیے اللہ سے مدد مانگیں اور صبر کے ساتھ نیکی پر قائم رہیں۔
نتیجہ
قرآن و حدیث میں برائی کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اسے روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ جو لوگ برائی سے بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اللہ ہمیں ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھے اور نیکی کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔