اسلام سے قبل دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوب چکی تھی
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

دین اسلام نے جہالت کو ختم کر دیا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت پوری دنیا گمراہ ہو چکی تھی ۔ لوگ بت پوجتے تھے، جو لوگ اپنے کو اہل کتاب سمجھتے اور کہلاتے تھے ، انھوں نے اپنے پاپوں اور پادریوں کو حلال و حرام کا مالک و مختار سمجھ رکھا تھا۔
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، تو میری گردن میں صلیب لٹک رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عدی ! ألق هذا الوثن من عنقك ”اپنی گردن سے یہ بت اتار دو۔“ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ سورۃ التوبہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ﴾
[التوبة: 31]
”انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا ہے۔ “
تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم نے انھیں رب نہیں بنایا ہے، آپ نے ارشاد فرمایا: ”کیوں نہیں ، کیا یہ بات نہیں؟ کہ جس حرام چیز کو وہ حلال کر دیتے تم اسے حلال جانتے اور جس حلال چیز کو حرام کر دیتے تم اسے حرام جانتے؟ “ تو میں نے کہا: ”ہاں“ یہ بات تو ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی ان کی عبادت ہوئی ۔ “
سنن ترمذی، رقم: 3095۔ السنن الكبرى للبيهقي: 116/1 – الفقيه والمتفقه: 66/2۔ محدث البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
چھٹی صدی عیسوی بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کو تاریخ انسان کا تاریک ترین اور پست ترین دور شمار کیا جاتا ہے، بلکہ اس کو دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے۔ اہل تاریخ نے رقم کیا ہے:
یہود و نصاری کی اکثریت اصل یہودیت و نصرانیت کو چھوڑ چکی تھی ۔ اور جو کچھ لوگ اپنے پائے ہوئے دین پر قائم تھے وہ دین کی امانت کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے زندگی کے میلان سے کنارہ کش ہو کر دیر و کلیسا اور صحراؤں کی تنہائیوں میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اخلاقی پستی بعض اقوام میں ایسی آچکی تھی کہ یزدگرد جو ایران کا پانچویں صدی کے وسط میں بادشاہ تھا، اس نے اپنی لڑکی کو اپنی زوجیت میں رکھا پھر اسے قتل کر دیا۔ تاریخ طبری میں ہے کہ بہرام جو چھٹی صدی عیسوی میں حکمران تھا اس نے اپنی بہن سے اپنا ازدواجی تعلق رکھا ۔
تاریخ طبری: 138/3۔ انسانی دنیا پر مسلمانوں کا عروج و زوال کا اثر، ص: 48
اہل عرب کے ہر ہر قبیلے کا الگ بت ہوا کرتا تھا، یہاں تک کہ عام پتھروں کو پوجتے اور پہلے سے اچھا پھر مل جاتا تو پہلے کو چھوڑ کر دوسرے کی پوجا کرنے لگتے ، انسانی عقل کا عجیب حال تھا۔ صحیح بخاری میں ہے، ابو رجاء عطاردی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كنا نعبد الحجر، فإذا وجدنا حجرا هوا أخير منه ألقيناه وأخذنا الآخر فاذا لم نجد حجرا جمعنا جثوة من تراب، ثم جئنا بالشاة، فحلبناه عليه
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4376
”کہ ہم لوگ پتھر کو پوجتے تھے اگر اس پتھر سے کوئی اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے کو پھینک کر اس دوسرے پتھر کو لے کر پوجنا شروع کر دیتے اور اگر پتھر نہ پاتے تو مٹی کا ڈھیر بنا لیتے اور بکری کو لا کر اس پر دوہتے پھر اس کا طواف کرتے ۔ “
ایسے حالات میں اسلام نے انسانیت کو شرفِ انسانیت سے بہرہ یاب کیا۔ بتانِ آزری سے ہٹا کر توحید الہ العالمین کے راستے پر گامزن کیا۔
﴿قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا﴾
[البقرة: 256]
”ہدایت گمراہی سے الگ اور نمایاں ہو چکی ہے، پس جو کوئی طاغوت کا انکار کر دے گا، اور اللہ پر ایمان لے آئے گا، اُس نے در حقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو پوری قوت کے ساتھ تھام لیا، جو کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے