ایک عمومی سوال
تحریر میں بنیادی سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ آخر کب تک انسانوں کو مومن اور کافر کی نظر سے دیکھا جائے گا؟ کیوں نہ انہیں صرف انسان ہونے کے ناطے دیکھا جائے اور مذہب کے بجائے انسانی قدروں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے؟
اس سوچ کو "ہیومن ازم” یعنی انسان پرستی کا نام دیا گیا ہے، جو جدید دنیا کے لیے ایک متبادل دین کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔
"ہیومن ازم” کے بنیادی نکات
انسانیت پرستی کا تصور:
- تمام انسانوں کو مساوی سمجھنا، چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔
- اچھائی اور برائی کا معیار "یونیورسل ویلیوز” یا آفاقی انسانی قدریں ہیں، نہ کہ مذہبی اصول۔
مذہب کی نئے فریم میں تشریح:
- مذہب کو "ہیومن ازم” کے سانچے میں ڈھالنے کی تجویز دی جاتی ہے۔
- ہر مذہب سے "اچھی” چیزیں نکال کر انہیں ایک مشترکہ فریم ورک میں لانا، جہاں عقائد کی بجائے انسانی فلاح ترجیح ہو۔
مسلمانوں پر تنقید:
- مسلمانوں پر الزام ہے کہ وہ پرانے خیالات پر اڑے ہوئے ہیں اور "کفر و ایمان” کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں۔
- "مومن عورت” اور "کافر مرد” کے نکاح سے متعلق اسلامی احکام کو بھی انسانی آزادی کے خلاف تصور کیا گیا۔
دین اور ہیومن ازم کا موازنہ
اسلام کی مخالفت میں پیش کی گئی آراء:
- اسلام کے احکامات (مثلاً: کفر سے براءت، غیراللہ کے نام پر ذبیحہ کی ممانعت) کو غیر انسانی یا تعصب پر مبنی قرار دیا گیا۔
- مسلمانوں کی "خیرات اور چیریٹی” کے لیے شرط رکھی گئی کہ وہ صرف ایمان اور عقائد کی بنیاد پر قابل قبول ہو، جسے غیر منصفانہ کہا گیا۔
اسلامی جواب:
- مومن اور کافر کی تقسیم: قرآن و سنت کے مطابق انسانوں کو ایمان کی بنیاد پر تقسیم کرنا اسلامی عقیدہ ہے، کیونکہ یہ دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کا معیار بھی طے کرتا ہے
(سورۃ البقرۃ: 2)۔ - غیراللہ کے نام پر نذر و نیاز: شریعت میں "غیراللہ کے نام پر ذبیحہ” یا کوئی بھی عبادت غیراللہ کے لیے خاص کرنے کی ممانعت واضح ہے
(سورۃ الانعام: 162)۔
جدید فکری چیلنجز اور "ہیومن ازم” کا نفاذ
مذاہب کی تضحیک اور انضمام:
- "ہیومن ازم” کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ تمام مذاہب کی مشترکہ اچھائیوں کا نچوڑ ہے، جبکہ حقیقت میں اس کا مقصد مذاہب کے درمیان فرق کو مٹانا ہے۔
مسلمانوں کو اپنی شناخت ترک کرنے کا مشورہ:
- مسلمانوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو جدید دنیا کے "یونیورسل ہیومن ازم” میں ضم کر دیں، جیسا کہ عیسائیت اور دیگر مذاہب کے ساتھ ہوا۔
اسلامی تعلیمات کی استقامت:
- اسلامی تعلیمات کا مقصد "حق و باطل” کو الگ کرنا ہے۔
- مسلمان ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کے ذریعے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں "غیر المغضوب علیہم” (یہود) اور "ولا الضالین” (نصاریٰ) کے راستے سے بچائے
(تفسیر طبری، اثر 190-217)۔
اعتراضات کا مختصر جواب
"ملتوں کا فرق” کیوں ضروری ہے؟
- دین اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ایمان ہی انسان کی حقیقی فلاح کی بنیاد ہے۔ "کفر و ایمان” کی تقسیم دراصل حق و باطل کی بنیاد پر ہے، نہ کہ انسانی تعصب یا تنگ نظری پر۔
"ہیومن ازم” کا فریب:
- "ہیومن ازم” کا نعرہ بظاہر انسانیت کی فلاح کے لیے ہے، لیکن اس کا اصل مقصد مذاہب کو ختم کرکے ایک بے عقیدہ معاشرہ تشکیل دینا ہے۔
- یہ ایک نیا مذہب ہے جو تمام مذاہب کو اپنے دائرے میں لانا چاہتا ہے، اور اسلام جیسے مکمل دین کو اس میں فٹ کرنا ممکن نہیں۔
"اچھائی” کا اسلامی تصور:
- اچھائی یا نیکی وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ہو۔
- صرف دنیاوی "چیریٹی” یا انسانی خدمات کو نیکی نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لیے نہ ہوں
(صحیح بخاری، حدیث: 1)۔
نتیجہ
تحریر میں "ہیومن ازم” کو ایک متبادل مذہب کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن یہ اسلامی عقائد کے لیے ناقابل قبول ہے۔
اسلام نہ صرف ایک دین بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، اور معاملات سب شامل ہیں۔
مسلمانوں کو اپنی دینی شناخت پر قائم رہنا چاہیے اور اسلام کو کسی بھی دوسرے نظریے میں ضم کرنے کی کوشش کو مسترد کرنا چاہیے۔