مصنف کا تعارف
کتاب ’’اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘ کے مصنف سوامی لکشمی شنکر اچاریہ ایک ہندو اسکالر ہیں، جن کا تعلق بھارت کے ضلع کانپور سے ہے۔ 1953ء میں برہمن خاندان میں پیدا ہونے والے سوامی جی نے ابتدائی تعلیم کانپور اور الٰہ آباد سے حاصل کی۔ ایک وقت میں ٹھیکیداری سے وابستہ رہنے کے بعد وہ روحانیت کی طرف راغب ہو گئے۔ ابتدا میں وہ اسلام مخالف پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسلام پر تنقید کرنے والی کتاب "اسلامک آتنک واد کا اتہاس” (The History of Islamic Terrorism) کے مصنف بنے۔ تاہم، بعد میں حقیقت واضح ہونے پر انھوں نے اپنی سابقہ کتاب پر ندامت کا اظہار کیا اور اسلام کے حق میں "اسلام آتنک یا آدرش” (اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین) لکھی۔
کتاب لکھنے کے پس منظر
سوامی جی نے اپنی کتاب میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق اپنی ابتدائی غلط فہمیوں اور بعد میں حاصل ہونے والی درست معلومات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ اپنی سابقہ غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابتدا میں قرآن کی آیات کو سیاق و سباق کے بغیر پڑھنے اور غلط معلومات پر بھروسہ کرنے کے باعث ان کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوا کہ اسلام دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ بعد میں مسلم علماء اور سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے ان کی سوچ میں انقلابی تبدیلی آئی۔
اعترافِ غلطی
سوامی جی اپنی کتاب میں نہایت صاف گوئی سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنی سابقہ کتاب کے بارے میں معافی مانگتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میں لاعلمی کے سبب غلط فہمی کا شکار تھا اور اسی وجہ سے اپنی کتاب ‘اسلامی دہشت گردی کی تاریخ’ میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، جس پر مجھے بے حد افسوس ہے۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ میری سابقہ کتاب کو نظرانداز کریں اور اسے صفر سمجھیں۔”
(حوالہ: ص 9-11)
یہ علمی اور اخلاقی دنیا کا ایک بڑا اور قابلِ تقلید قدم ہے، جہاں ایک مصنف اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اس کا ازالہ کرتا ہے۔
کتاب کے اہم نکات
اسلامی اصطلاحات کی وضاحت
کتاب کے صفحہ 7 پر ’’چند اسلامی اصطلاحات‘‘ کے تحت سوامی جی نے ایمان، اہل کتاب، کافر، رسول، نبی اور جہاد جیسے الفاظ کی لغوی اور اصطلاحی وضاحت کی ہے:
- کافر: انکار کرنے والا یا سچائی کو چھپانے والا۔ سوامی جی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ لفظ کسی کی توہین کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ انکار حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے۔
- جہاد: مقصد کے حصول کے لیے انتھک جدوجہد۔ جہاد کو قتال (جنگ) کے مترادف قرار دینا غلط ہے۔ انھوں نے لکھا کہ جہاد کا دائرہ وسیع ہے، جس میں مال، قلم، اور زبان سے کی گئی کوششیں بھی شامل ہیں۔
(حوالہ: ص 7-8)
اسلام اور دہشت گردی کے تعلق کی حقیقت
کتاب میں سوامی جی نے اس پروپیگنڈے کا پردہ فاش کیا ہے، جس کے تحت دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں:
"میڈیا اور مختلف طاقتوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اسے دہشت گرد مذہب قرار دینے کی کوشش کی۔ قرآن کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا، اور جھوٹا بیانیہ پھیلایا گیا۔”
(حوالہ: ص 12)
پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سیرت
سوامی جی نے سیرت النبی ﷺ پر ایک جامع باب شامل کیا ہے، جس میں انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
"حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام امن، سچائی، اور دہشت گردی کے خلاف ہے۔ اسلام کو تشدد یا دہشت گردی سے جوڑنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔”
(حوالہ: ص 26)
قرآن کی 24 آیات کی وضاحت
کتاب میں ایک مکمل باب اس بحث کے لیے وقف ہے، جس میں قرآن کی ان 24 آیات کا سیاق و سباق کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہے، جو اسلام مخالف عناصر کی طرف سے دہشت گردی کے فروغ کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ سوامی جی نے ہر آیت کے پس منظر کو واضح کرتے ہوئے ثابت کیا کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(حوالہ: ص 34-59)
قرآن کی اعلیٰ تعلیمات
سوامی جی نے قرآن مجید کی اعلیٰ تعلیمات کو بھی اجاگر کیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام امن، عدل، اور فلاحِ انسانیت کا مذہب ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"اسلامی نظام عدل کے سبب اسلامی ممالک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسلامی معاشرے میں امن و امان، صداقت اور انسانی حقوق کی پاسداری قابلِ تقلید ہے۔”
(حوالہ: ص 73)
ہندو دھرم اور اسلام کے درمیان مماثلت
کتاب میں ایک باب ہندو دھرم کی قدیم کتابوں اور اسلام کے درمیان توحید کے مشترکہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ سوامی جی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہندو دھرم کی اصل تعلیمات میں توحید تھی، لیکن بعد میں شرک اور بہت سے خداؤں کے نظریات داخل ہوگئے۔
(حوالہ: ص 93)
مدارس اور علماء کے بارے میں حقائق
سوامی جی نے مسلم مدارس اور علماء کے خلاف کیے گئے جھوٹے پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے لکھا:
"مدارس میں دہشت گردی کے بجائے امن، نظم و ضبط، اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے۔ میں نے خود مدارس اور مسلم تنظیموں کا دورہ کیا، جہاں مجھے کہیں بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں ملی۔”
(حوالہ: ص 100)
اختتامیہ
یہ کتاب نہ صرف غیر مسلموں کے لیے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرتی ہے بلکہ عام مسلمانوں کے لیے بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ سوامی جی نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے اور حق کو قبول کرکے علمی دیانت داری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔