اسلامی مملکت کے قیام کے لیے جماعت سازی اور بیعت کی شرعی حیثیت
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ175

سوال:

اگر اسلامی مملکت کے قیام کے لیے کوئی جماعت بنتی ہے اور اس کے امیر کے ہاتھ پر تمام ممبران "بیعتِ ارشاد” کرتے ہیں، تو اس کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟ آیا یہ جائز، غلط، یا بدعت ہے؟
(عبدالمتین، ماڈل ٹاؤن لاہور)

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی مملکت کے قیام کے لیے شرعی طریقہ:

اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ذاتی، انفرادی، اور بغیر کسی مخصوص جماعت سازی کے اجتماعی کوشش کرنی چاہیے۔
سب سے پہلے اپنی اصلاح اور اپنے قریبی متعلقین کی کتاب و سنت کے مطابق اصلاح ضروری ہے۔

موجودہ تمام جماعتیں غلط ہیں اور قرآن کے حکم
"وَلَا تَفَرَّقُوا”
(آل عمران: 103)
کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

📖 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:

"وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ”
(آل عمران: 105)
"اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو تفرقے میں پڑ گئے اور اختلاف کرنے لگے، حالانکہ ان کے پاس واضح دلائل آ چکے تھے۔”

جماعت پرست لوگوں کا عمل اس قرآنی حکم کے خلاف ہے، کیونکہ وہ عملی طور پر فرقہ بندی اور گروہ بندی کو فروغ دیتے ہیں۔

کیا موجودہ اسلامی جماعتوں میں شمولیت جائز ہے؟

جب تک تمام صحیح العقیدہ مسلمان ایک ہی جماعت اور ایک ہی خلیفہ کے تحت جمع نہ ہو جائیں، تب تک مختلف جماعتوں میں شامل ہونا جائز نہیں۔
البتہ ان کے ساتھ معروف (نیکی) میں تعاون کیا جا سکتا ہے، مگر ان کی رکنیت، چندہ مہم اور حزبیت سے دُور رہنا چاہیے۔

اسلام میں صرف دو قسم کی بیعت جائز ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت۔
مسلمانوں کے متفقہ خلیفہ کی بیعت۔

اس کے علاوہ کسی اور بیعت کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

شیخ علی حسن الحلبی (شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد) نے فرمایا:

"بیعت صرف امیر المومنین (مسلمانوں کے خلیفہ) کے لیے ہوتی ہے، کسی اور کے لیے نہیں۔”
(البیعة بین السنة والبدعة، ص 23)

کسی جماعت کے امیر کی بیعت لینا اور اس کے تحت تنظیمی نظام کو نافذ کرنا بدعت ہے، کیونکہ اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

خلیفہ کی بیعت کی شرائط

بیعت بھی صرف اسی خلیفہ کی کرنی چاہیے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فرمان:
"بیعت صرف اسی خلیفہ کی ہونی چاہیے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو۔”

(المسند من مسائل الإمام أحمد، حوالہ: الإمامة العظمىٰ عند أهل السنة والجماعة، ص 217)
(مسائل الإمام أحمد لابن هانيء، 2/185، رقم: 2011)
(السنہ للخلال، ص 80-81، رقم: 10، اور یہ امام احمد رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔)

شیخ علی حسن الحلبی مزید فرماتے ہیں:

"بیعت اپنی تمام اقسام کے ساتھ صرف اسی کے لیے ہوتی ہے جو مسلمانوں کا خلیفہ ہو، جس نے اسلامی احکام کو نافذ کیا ہو اور شرعی حدود کو لاگو کیا ہو۔”
(البیعة بین السنة والبدعة، ص 28)

نتیجہ

اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کسی تنظیمی جماعت کے امیر کی بیعت کرنا بدعت ہے، کیونکہ اسلام میں ایسی بیعت کی کوئی بنیاد نہیں۔
بیعت صرف دو ہی مواقع پر جائز ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر، یا مسلمانوں کے متفقہ خلیفہ کے ہاتھ پر۔
مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو کر بیعت لینا قرآن کے حکم
"وَلَا تَفَرَّقُوا”
(آل عمران: 103)
کی صریح خلاف ورزی ہے۔

📖 وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وصحبه اجمعین۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1