سرمایہ داری کا بنیادی نظریہ
سرمایہ داری دنیا کا ایک غالب نظامِ حیات ہے، جس کی جڑیں دہریہ مابعد الطبیعات (Atheistic Metaphysics) سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے اہم مفروضات درج ذیل ہیں:
انسان (ہیومن بینگ) خودمختار اور صمدی وجود:
انسان اپنی ذات اور کائنات کا خالق خود ہے اور کسی اعلیٰ ہستی کا محتاج نہیں۔
کائنات کا غیر مقصدی حادثاتی وجود:
کائنات محض ایک اتفاقی حادثہ ہے اور اس کا کوئی حتمی یا اعلیٰ مقصد نہیں، لیکن اس کا وجود ابدی مانا جاتا ہے۔
حقیقت کا تعلق صرف محسوسات سے:
حقیقت صرف ان چیزوں کو مانتی ہے جو محسوس کی جا سکتی ہیں، اور انسان کی عقل انہی محسوسات کے ذریعے تصورات قائم کرتی ہے۔
غالب فطری جبلت: حیوانی خواہشات:
انسان کی فطری جبلت حیوانی ہے، اور اس کی زندگی کا مقصد ان خواہشات کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہے۔
عقل کی غلامی نفسِ امارہ کے تابع:
انسان کی عقل نفسِ امارہ کی خدمت میں رہتی ہے، اور اخلاقی اصول اس طرح وضع کیے جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل ہو سکیں۔
سرمایہ داری کی انفرادیت اور معاشرت
سرمایہ داری کا نظام ایک ایسی انفرادیت اور معاشرت کو فروغ دیتا ہے، جہاں حرص، حسد، شہوت، اور غضب جیسے عوامل تمدنی ترقی کے اصل محرک ہوتے ہیں۔
انسان مسلسل اپنی نفسانی خواہشات کے تابع رہتے ہوئے اپنے عمل کو انہی خواہشات کی تکمیل کے لیے وقف کر دیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشروں میں قومی مفاد کا مطلب بھی یہی ہے کہ ریاست اور افراد زیادہ سے زیادہ مادی فوائد حاصل کریں۔
اسلامی ریاست کا نصب العین
اسلامی ریاست، جسے امارتِ اسلامیہ کہا جاتا ہے، کا مقصد صرف مادی ترقی یا دولت کا حصول نہیں بلکہ اپنے تمام شہریوں کے لیے آخرت کی نجات کا انتظام کرنا ہے۔
اس کے تحت قومی معاشی پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اعمال کو آخرت کی کامیابی کے لیے وقف کریں۔
سلطنت عثمانیہ اور اسلامی معیشت
سلطنتِ عثمانیہ کے زوال سے قبل تقریباً بارہ سو سال تک مسلم ریاستوں نے ایسی معاشی پالیسیاں اپنائیں، جن کا مقصد معاش کو معاد (آخرت) سے جوڑنا تھا۔
اس دور میں افراد اپنے معاشی عمل کو صرف دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے آخرت کے لیے اجر کمانے کا ایک وسیلہ گردانتے تھے۔
اسی وجہ سے مسلم معاشروں میں حرص اور ہوس عام نہ تھے، اور اسلامی انفرادیت پروان چڑھتی رہی۔
سرمایہ دارانہ سامراجی غلبہ
انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ سامراج نے مسلم دنیا پر عسکری، سیاسی، اور روحانی غلبہ حاصل کر لیا، جس نے اسلامی معیشت کو برباد کر دیا۔
سامراج نے ایک ایسی انفرادیت مسلط کی، جو تصرف فی الارض (زمین پر مادی تسلط) کو انسان کی زندگی کا اصل مقصد قرار دیتی ہے۔
اس کے نتیجے میں دہریہ عقلیت عام ہوئی، اور یہ نظریہ مقبول ہوا کہ نفسِ امارہ کی پیروی ہی عقل مندی ہے۔
جاہلی علمِ معاشیات (اکنامکس) نے معاشی عمل کو آخرت سے بالکل الگ کر دیا، جس سے مسلم دنیا کی معاشی پالیسیاں بھی اسی خبیث منہج پر استوار ہونے لگیں۔
اسلامی معاشی نظام کے قیام کی راہ
اسلامی معیشت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی انفرادیت پیدا کی جائے جو نہ حریص ہو اور نہ حسد سے بھرپور، بلکہ معاشی سرگرمی کو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھے۔
اس معیشت کا مقصد مادی لذتوں کا حصول نہیں بلکہ آخرت میں کامیابی ہو۔
اس طرح کی اسلامی انفرادیت کا قیام فوری طور پر ممکن نہیں بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہوگا، جس کے لیے ریاست کا فعال کردار لازمی ہے۔
موجودہ حالات میں مسلم معاشرے خود سے ایسی شخصیت کے نظاماتی غلبے کو قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہٰذا یہ کام ریاستی سطح پر حکمت اور صبر کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔