اسلامی ریاست: احکامات کا صدور اور نفاذ
اسلامی ریاست کے دو اہم کام
- احکامات کا صدور (پالیسی سازی)
- احکامات کا نفاذ (عملی اطلاق)
➊ احکامات کا صدور
احکامات کے صدور کا عمل درحقیقت دو اقسام پر مبنی ہوتا ہے:
- عقائد پر حکم لگانے کو "کلام” کہا جاتا ہے۔
- اعمال پر حکم لگانے کو "فقہ” کہا جاتا ہے۔
➋ احکامات کا نفاذ
دوسری جانب، احکامات کے نفاذ کے لیے ایک ادارتی نظام یا سٹرکچر قائم کیا جاتا ہے۔ یہ سٹرکچر حالات کے مطابق بدل سکتا ہے کیونکہ شریعت نے اس پر وہ زور نہیں دیا جو احکامات کے صدور پر دیا ہے۔
اسلامی ریاست کا لازمی عنصر: یہ ہے کہ احکامات کے صدور پر کلام و فقہ کی برتری قائم ہو۔ صرف احکامات کا صدور ہی کافی نہیں، بلکہ ان کا نفاذ بھی ضروری ہے۔ اگر نفاذ میں کمی ہو تو اسے فرد کی حد تک کفر کا موجب نہیں مانا جاتا، مگر احکامات کے صدور کو نظر انداز کرنا خلافت کی بنیاد کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
اسلامی ریاست کا تسلسل
اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خلافت کا نظام کسی نہ کسی درجے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک قائم رہا، کیونکہ اس پورے عرصے میں کلام و فقہ کو احکامات کے صدور سے جدا نہیں کیا گیا۔
جدید سیکولر ریاست اور سوشل سائنسز
جدید سیکولر ریاست میں احکامات کے صدور کے لیے کلام و فقہ کے بجائے "سوشل سائنسز” کا استعمال کیا جاتا ہے۔
- احکامات کے صدور اور نفاذ کے درمیان یہ فاصلہ مسلمانوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ مسئلہ بنا جب یورپی استعمار نے تقریباً ہر جگہ مسلمانوں سے ریاستی طاقت چھین لی۔
- استعمار سے آزادی کے بعد مسلمانوں پر نئے سیاسی نظام مسلط کیے گئے، جن میں آئین، جمہوریت اور دیگر ادارتی ڈھانچے شامل تھے۔
پاکستان کا تجربہ
پاکستان میں آئین میں اسلامی شقیں شامل کی گئیں، جیسے "کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا”۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ شقیں اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ "ہر قانون قرآن و سنت کی روشنی میں بنایا جائے گا”؟
سوشل سائنسز کی نوعیت اور اثرات
- سوشل سائنسز کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ جیسے طبعی دنیا کے قوانین سائنسی طریقوں سے دریافت کیے جاتے ہیں، ویسے ہی انسانی رویوں اور معاشرتی نظام کے اصول بھی سائنسی طریقوں سے طے کیے جا سکتے ہیں۔
- سوشل سائنسز نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک مثالی معاشرت کی تعمیر مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی آزادی کے اصولوں پر ہونی چاہیے۔
- جدید سیکولر ریاستوں میں سوشل سائنسز وہی حیثیت رکھتی ہیں جو اسلامی ریاست میں کلام و فقہ کو حاصل ہوتی ہے۔
کلام و فقہ کی بے وقعتی
جوں جوں پالیسی سازی میں سوشل سائنسز کا عمل دخل بڑھتا ہے، اسلامی احکامات اور فقہ کی حیثیت کمزور پڑتی جاتی ہے۔
- سوشل سائنسز جس مثالی معاشرت کی بات کرتی ہیں، وہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بھی دنیا میں کہیں موجود نہیں تھی۔
- ان کا مقصد یہ تھا کہ ریاست اپنے معاشرے کو ان کے طے کردہ نظریات کے مطابق ڈھالے۔
سوشل سائنسز اور اسلامی ریاست کی عدم مطابقت
جس ریاست کی بنیاد سوشل سائنسز پر ہو، وہ اسلامی ریاست نہیں بن سکتی کیونکہ سوشل سائنسز شریعت کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نہیں بنائی گئیں۔
بدقسمتی سے: آج ہم اپنی نئی نسل کی ذہن سازی اسی علم کے مطابق کر رہے ہیں جو کلام و فقہ کو replace کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، اور ہمیں اس کا ادراک تک نہیں۔