اسلامی تاریخ میں تحریف اور جھوٹے راویوں کے اثرات

اسلامی تاریخ میں دروغ گوئی کے طریقے اور اثرات

دروغ گوئی کے اہم طریقے

  • ۱۔ جھوٹی روایات گھڑنا: بعض راویوں نے مکمل جھوٹ پر مبنی باتیں اپنی طرف سے گھڑ کر مشہور شخصیات کی طرف منسوب کر دیں۔
  • ۲۔ حقائق میں کمی یا اضافہ: کسی واقعے میں کمی یا اضافہ کر کے اس کی اصل شکل کو بدل دیا گیا اور حقیقت سے دور کر دیا گیا۔
  • ۳۔ سیاق و سباق کے بغیر بیان: واقعات کو ان کے اصل سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کیا گیا، جس سے ان کے معنیٰ اور مقصد میں تحریف ہو گئی۔
  • ۴۔ غلط تفسیر اور تاویل: بعض روایات کی غلط تشریح کی گئی اور ان کا اصل مطلب بدل دیا گیا۔
  • ۵۔ کمیوں کو نمایاں کرنا: واقعات کی کمیوں اور خطاؤں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا، جب کہ ان کے مثبت پہلوؤں کو چھپا لیا گیا۔
  • ۶۔ جعلی کتب اور رسائل: دلچسپ اور رنگین کہانیاں گھڑ کر ان کو علماء اور اہل سنت کی طرف منسوب کیا گیا۔ یہ جعلی مواد بعد میں تاریخی کتب کا حصہ بن گیا۔

دروغ گوئی کے نمونے

  • ۱۔ غیاث بن ابراہیم: اس نے خلیفہ مہدی کے سامنے جھوٹی حدیث گھڑ کر "او جناح” کا اضافہ کیا تاکہ کبوتر اڑانے کو جائز قرار دے۔ مہدی نے اس کی جھوٹ پکڑ کر کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔
    (ابن حیان: مجروح من المحدثین ۳۳/۱، ابن جوزی: الاحادیث الموضوعہ ۴۲/۱)
  • ۲۔ قاضی ابوالبختری: اس نے ہارون الرشید کے سامنے منبر پر جھوٹی حدیث گھڑ کر پیش کی کہ نبی کریم ﷺ قباء اور کمربند پہنتے تھے۔
    (ابن جوزی: الاحادیث الموضوعہ)
  • ۳۔ عبدالکریم ابن ابی العوجاء: اس نے مرنے سے پہلے اعتراف کیا کہ چار ہزار جھوٹی احادیث گھڑ کر عوام میں پھیلائیں، جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا گیا۔
  • ۴۔ مغیرہ بن سعید: اس نے حضرات شیخین کی تنقیص کی اور اہل بیت کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کیں۔
    (ابن حجر: لسان المیزان ۷۵/۶)
  • ۵۔ ابوالخطاب محمد بن ابی زینب: حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ نے اسے برا کہا اور اس کی جھوٹی روایات کی مذمت کی۔
  • ۶۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ: ان کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں پر مشتمل ایک تحریر آئی، جس میں غیر معتبر حصے کو مٹا دیا گیا۔
    (مسلم شریف ۸۳/۱)
  • ۷۔ اعمش: کوفہ میں ایک شخص کو تین طلاق کے مسئلے پر جھوٹی بات کرتے ہوئے پکڑا۔ وہ شخص اعتراف کرتا ہے کہ "لوگ مجبور کر رہے ہیں”۔
    (ابن عدی: الکامل فی الضعفاء ۱۴۸/۱)

حدیث اور تاریخ میں جعل سازی

حدیث میں: سخت اصول و ضوابط اور محدثین کی محنت کے باوجود، جھوٹی احادیث بڑی تعداد میں داخل کی گئیں۔

تاریخی واقعات میں: زیادہ تر دورِ عباسی میں بغیر کسی سنجیدہ تحقیق کے مرتب کیے گئے، جس سے رافضیوں، سبائیوں اور دوسرے باطل فرقوں کی جھوٹی روایات کو اسلامی تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا۔

جھوٹے راویوں کے اثرات

  • ۱۔ تاریخ پر منفی اثرات: جھوٹے راویوں کی روایات نے اسلامی تاریخ، ادب، اور دینی کتابوں کو متاثر کیا۔ ثقہ روایات کے ساتھ جھوٹی، متضاد اور بے بنیاد باتیں شامل ہو گئیں، جس سے عوام میں انتشار اور گمراہی پھیلی۔
  • ۲۔ مذہبی اختلافات کی بنیاد: موضوع اور من گھڑت روایات نے امت مسلمہ میں گروہی اختلافات کو جنم دیا۔ ان جھوٹی روایات کو مذہبی تقدس دے کر فرقہ واریت کے لیے استعمال کیا گیا۔
  • ۳۔ قرآن و سنت سے انحراف: جھوٹے راویوں کے پیروکاروں نے قرآن، سنت اور قطعی شریعت کی نصوص کو نظرانداز کر دیا اور اپنی گمراہ کن عقائد کی بنیاد جھوٹ پر رکھی۔

اتحادِ امت کا حل

اگر گمراہ فرقے قرآن، سنتِ صحیحہ اور متواتر نصوصِ شریعت کی طرف رجوع کریں، تو امت مسلمہ کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ اتحاد اور اتفاق کے لیے یہی واحد راستہ ہے، جس سے امت ایک جسم کی مانند متحد ہو سکتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے