اسلامی انفرادیت اور سرمایہ دارانہ آزادی کا تقابلی جائزہ
تحریر: ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

اسلامی انفرادیت (Islamic Subjectivity) کی بنیادیں

انسانی زندگی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد اپنے خیالات، احساسات، عمل اور تعلقات میں ایک گہرا ربط رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق:

  • ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں خیر و شر کا فیصلہ کرتا ہے۔
  • اپنی انفرادیت کے تعین کے لیے وہ یہ سوال کرتا ہے: ’میں کون ہوں؟‘
  • اسلامی جواب: ’میں عبد ہوں اور میری زندگی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔‘

یہ عقیدہ (ایمان) دلائل یا احساسات پر مبنی نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے نصیب ہوتا ہے۔

امام غزالیؒ کے مطابق، ایمان دل میں ایسے تجربات اور مشاہدات کی بدولت پختہ ہوتا ہے جنہیں الفاظ میں مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بنیاد فرد کے احساسات، جذبات اور افکار کو متاثر کرتی ہے، اور ان کے اثرات معاشرت اور ریاست پر ظاہر ہوتے ہیں۔

اسلامی معاشرت اور ریاست کا تصور

اسلامی معاشرت رضاکارانہ تعلقات پر مبنی ہوتی ہے، جن کی بنیاد اجتماعی خیر اور دینی اقدار پر ہوتی ہے۔

  • معاشرہ: مساجد، خاندان، مدرسہ، محلہ وغیرہ جیسے ادارے معاشرتی تنظیم کا حصہ ہیں۔
  • ریاست: اسلامی ریاست وہ ہے جو معاشرتی اقدار کو قانون کے ذریعے نافذ کرتی ہے، مگر اس کے پیچھے جبر کے بجائے عوامی قبولیت ہوتی ہے۔

انسانی زندگی کی تین سطحیں

انسانی زندگی ان تین سطحوں پر اپنے اظہار کا حق رکھتی ہے:

  • انفرادی سطح: جہاں فرد اپنی ایمانیات اور اعمال کا تعین کرتا ہے۔
  • معاشرتی سطح: جہاں افراد اپنے تعلقات غیر جبری طور پر استوار کرتے ہیں۔
  • ریاستی سطح: جہاں معاشرتی اقدار قانون کے ذریعے نافذ ہوتی ہیں۔

یہ تین سطحیں مل کر ایک مکمل تہذیبی نظام تشکیل دیتی ہیں جس میں فرد، معاشرہ اور ریاست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت (Capitalist Subjectivity) کی بنیادیں

سرمایہ دارانہ تہذیب میں انسان کی انفرادیت کی بنیاد "آزادی” پر ہے، جس کا مطلب خدا کی بندگی سے انکار اور خواہشات کی پیروی ہے۔

آزادی کا مطلب

  • انسان جو چاہے، وہی خیر ہے۔
  • مساوات: ہر انسان کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے اور دوسروں کے فیصلوں میں مداخلت نہ کرے۔
  • ترقی: سرمایہ میں لامحدود اضافہ ہی ترقی کا اصل ہدف ہے۔

مثال: اگر کوئی فرد اپنی زندگی کا مقصد دولت کمانا یا لذت حاصل کرنا بناتا ہے، تو سرمایہ دارانہ نظام اسے حق دیتا ہے کہ وہ ایسا کرے۔

سرمایہ دارانہ عقلیت کا معیار

سرمایہ دارانہ نظام میں "عقل” کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ وسائل حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اپنی خواہشات کی تسکین کر سکے۔

  • معقولیت (Rationality): زیادہ سے زیادہ اشیاء اور لذتیں حاصل کرنے کی جستجو کو معقول سمجھا جاتا ہے۔
  • حرص اور حسد: سرمایہ دارانہ شخصیت انہی دو جذبات پر پروان چڑھتی ہے۔

سرمایہ دارانہ تعلقات اور ان کی نوعیت

سرمایہ دارانہ معاشرت میں تعلقات کا مطلب ذاتی مفادات کی تکمیل ہے۔

  • معاہداتی تعلقات: جہاں تعلقات کی بنیاد محبت یا قربانی کے بجائے معاہدات (contracts) اور مالی مفادات پر ہوتی ہے۔
  • خاندان کی تباہی: سرمایہ داری میں خاندانی نظام کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ تعلقات محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی فائدے پر قائم ہوتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت کے نتائج

  • اضطراب اور یاسیت: آزادی کی بے لگام خواہش کے باعث مغربی فرد ہمیشہ اضطراب، تنہائی اور یاسیت کا شکار رہتا ہے۔
  • موت کا خوف: چونکہ مغربی فلسفہ عبدیت اور اخروی زندگی کے تصور سے محروم ہے، اس لیے موت اس کے لیے بے چینی کا سبب بنتی ہے۔

اسلامی اور سرمایہ دارانہ انفرادیت کا تقابل

پہلو اسلامی انفرادیت سرمایہ دارانہ انفرادیت
بنیادی اصول عبدیت (اللہ کی بندگی) آزادی (خود ارادیت)
اخلاقی بنیاد خیر و شر کا تعین وحی اور شریعت کے مطابق خیر و شر کا تعین ہر شخص خود کرتا ہے
تعلقات کی نوعیت محبت، صلہ رحمی، قربانی معاہدے، مفادات اور ذاتی فائدہ
ترقی کا مطلب روحانی و اخلاقی ترقی مادی وسائل اور سرمائے میں اضافہ
احساسات اطمینان، سکون، رضا اضطراب، حرص، حسد، یاسیت

اصلاح انفرادیت کے اسلامی تقاضے

اسلامی تحریکات کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ:

  • فرد کی نیت کو درست کریں (حصولِ رضائے الہی کی نیت)۔
  • فرد کے حال کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق بنائیں۔
  • فرد کو اپنے مقام کا شعور دیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔
  • اس شعور کے نتیجے میں فرد کے اعمال اور تعلقات درست ہوں۔

نتیجہ: اسلامی انفرادیت کی کامیابی کا راز

اسلامی انفرادیت فرد کو عبدیت کے ذریعے اطمینان اور روحانی ترقی کی منزل پر لے جاتی ہے، جبکہ سرمایہ دارانہ انفرادیت فرد کو آزادی کے نام پر اضطراب، حرص، اور حسد میں مبتلا کر کے تباہ کر دیتی ہے۔ اسلامی تحریکات کا اصل مقصد فرد کی نیت، حال اور اعمال کو درست کر کے اسے جنت کا مستحق بنانا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1