اذان کے لیے مؤذن مقرر کرنا مشروع ہے
لغوی وضاحت: لفظ آذان کا معنی ”اطلاع دینا اور خبر دار کرنا ہے۔“ باب أذنَ يُؤَذِّنُ (تفعّل) ”آذان دینا“ اور باب آذَنَ يُؤذِنُ (افعال ) ”آگاہ کرنا“ کے معنی میں مستعمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وَأَذْنُ فِي النَّاسِ بِالْحَجَّ [الحج: 27] وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [التوبة: 2] [المنجد ص 34 ، القاموس المحيط ص 1058 ، الفقه الإسلامي وأدلته 691/1]
شرعی تعریف: مخصوص الفاظ میں اوقات نماز سے آگاہ کرنا۔
[شرح مسلم للنووى 311/2 ، نيل الأوطار 492/1 ، تحفة الأحوذى 589/1 ، اللباب 62/1 ، كشاف القناع 266/1]
مشروعیت:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ …
[المائدة: 58]
” اور جب تم نماز کے لیے آذان دیتے ہو.“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم
[بخاري 628 ، كتاب الآذان : باب من قال ليؤذن فى السفر مؤذن واحد ، مسلم 674 ، أبو داود 589 ، ترمذى 205 ، نسائي 634 ، ابن ماجة 979]
”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہیں خبردار کرنے کے لیے تم میں سے کوئی شخص آذان دے ۔“
آذان کی ابتدا: حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ایسی تمام احادیث، کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آذان ہجرت سے پہلے مکہ میں ہی مشروع کر دی گئی تھی ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
والحق أنه لا يصح شيئ من هذه الأحاديث
”اور حق بات یہی ہے کہ ان احادیث میں سے کچھ بھی صحیح نہیں ہے ۔“
امام ابن منذرؒ نے بالجزم کہا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم مکہ میں فرضیت نماز سے ہجرت مدینہ تک بغیر آذان کے ہی نماز پڑھتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں صحابہ سے مشورہ کیا تو صحابہ نے ناقوس، بوق اور آگ وغیرہ جلانے کا مشورہ دیا لیکن حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہما نے اپنا خواب بیان کیا کہ جس میں آذان کا ذکر تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی طرح کا خواب دیکھنے کا ذکر کیا تو آپ صل اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
يا بلال قسم فناد بالصلاة
[بخاري 604 ، كتاب الأذان: باب بدء الآذان ، مسلم 377 ، ترمذي 190 ، نسائي 2/2 ، أحمد 148/2 ، أبو داود 499 ، صحيح أبو داود 469]
”اے بلال ! کھڑے ہو جاؤ اور نماز کے لیے آذان دو ۔ “
بعد ازاں عہد رسالت میں اسی پر مداومت و مواظبت رہی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
[فتح البارى 279/2 ، تحفة الأحوذى 589/1 ، نيل الأوطار 492/1 ، الروضة الندية 215/1]
آذان کے حکم میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، مالکؒ) آذان دینا واجب ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) اذان دینا محض سنت و مستحب ہے۔
(نوویؒ) آذان دینا سنت ہے۔
[بداية المجتهد 103/1 ، المهذب 55/1 ، اللباب 62/1 ، بدائع الصنائع 146/1 ، الدر المختار 356/1 ، فتح القدير 167/1]
علاوہ ازیں بعض لوگوں نے اسے سنت مؤکدہ اور بعض نے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔
(راجع) اذان دینا فرض ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو واپس اپنے علاقے کی طرف روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم
[بخاري 628 ، كتاب الاذان : من قال ليؤذن فى السفر مؤذن واحد ، مسلم 674 ، أبو داود 589 ، ترمذي 205 ، ابن ماجه 979 ، دارمي 286/1 ، أحمد 53/5]
” جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہیں اطلاع دینے کے لیے تم میں سے ایک شخص اذان دے۔ “
➋ حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربه رضی اللہ عنہ نے جب اپنا خواب بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ یہ سچا خواب ہے“
ثم أمر بالتأذين
[حسن : صحيح أبو داود 469 ، كتاب الصلاة : باب كيف الاذان ، أحمد 43/4 ، أبو داود 499 ، ابن ماجة 706 ، عبدالرزاق 1787]
” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دینے کا حکم ارشاد فرمایا ۔“
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مل کر کسی قوم سے غزوہ کے لیے جاتے تو صبح تک انتظار فرماتے :
فإن سمع أذانا كف عنهم وإن لم يسمع أذانا أغار عليهم
[أحمد 132/3 ، بخاري 610 ، كتاب الاذان : باب ما يحقن بالاذان من الدماء ، مسلم 382 ، ترمذي 1618]
”اگر اذان سن لیتے تو ان پر حملے سے رک جاتے اور اگر نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے ۔“
➍ حدیث نبوی ہے کہ :
امر بلال أن يشفع الآذان …
[بخارى 605 ، كتاب الاذان : باب الاذان مثنى مثنى ، مسلم 378 ، أبو داود 508 ، ترمذي 1013 ، ابن ماجة 730 ، أحمد 103/3 ، دارمي 270/1]
”حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ وہ دوہری اذان دیں ۔“
(ابن تیمیہؒ) آذان دینا فرض ہے۔
[مجموع الفتاوى 67/1 – 68]
(شوکانیؒ ) اس کے وجوب میں کوئی تردد و شبہ نہیں اور اس کے دلائل روشن آفتاب کی طرح واضح ہیں ۔
[السيل الحرار 197/1]
(صدیق حسن خانؒ) ظاہر وجوب ہی ہے۔
[الروضة الندية 215/1]
(البانیؒ) برحق بات یہی ہے کہ اذان دینا فرض کفایہ ہے۔
[تمام المنة ص/ 144]