اذان کے بعد موؤن کا صلاۃ وسلام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اذان کے بعد موؤن کا صلاۃ وسلام

اذان دینے کے بعد مؤذن کا خود سری طور پر یا جہری طور پر صلاۃ و سلام کہنا واضح طور پر کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عمل تو نبی صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان میں داخل ہے :
إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن ثم صلوا علي
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: مجموع الفتاوى لابن تيمية 470/22 ، مرقاة المفاتيح 423/1 ، الدين الخالص 88/2 ، فقه السنة 612/1 ، تمام المنة ص/ 158 ، إصلاح المساجد 133]
” جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے موذن کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو۔“
انہیں یوں جواب دیا جاتا ہے کہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان سننے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ موذن کا جواب دیں پھر مجھ پر درود پڑھیں، اس میں موذن خود داخل نہیں ہے اگر ایسا ہو تو موزن پر اذان کہنے کے ساتھ اس کا بنفسہ جواب دیتا بھی لازم ہوگا ۔

قواعد تجوید کے بغیر اذان کہنا

ایسے انداز سے اذان کہنا کہ حروف، حرکات، سکنات وغیرہ میں تغیر اور کمی بیشی واقع ہو جائے جائز نہیں ۔
[ تفصيل كے ليے ملاحظه هو: تفسير قرطبي 230/6 ، المدخل 249/3 ، الدين الخالص 92/2 ، الإبداع فى مضار الإبتداع ص/176]

مؤذن کی جگہ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے اذان

یہ عمل مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ناجائز ہے:
➊ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی مخالفت ہے۔
فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم
[بخاري 628 ، مسلم 674]
” جب نماز کا وقت ہو جائے تو تمہیں اطلاع دینے کے لیے تم میں سے کوئی اذان کہے۔“
➋ اس میں مؤذنوں کے اس اجر و ثواب کا خاتمہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
➌ اس میں امت مسلمہ کے ایک متواتر و متوارث عمل کی مخالف ہے۔
➍ نیت جو کہ اذان کی شرائط میں سے ہے اس میں مفقود ہے۔
➎ یہ عمل مسلمانوں پر ان کی عبادات و شعائر میں لہو و لعب اور بدعات کے دخول کا دروازہ کھولے گا۔

دوران اذان انگوٹھوں کے ساتھ آنکھیں چومنا

جس روایت میں مذکور ہے کہ جس شخص نے موذن کے یہ کلمات : أشهد أن محمدا رسول الله سن کر کہا مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبدالله پھر اپنے انگوٹھوں کا بوسہ لے کر انہیں اپنی آنکھوں پر لگایا ولم يرمد ابدال ”وہ شخص کبھی آنکھ کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوگا ۔“ وہ روایت ضعیف ہے ۔ [الضعيفة 73]
امام سخاویؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں کہ :
ولا يصح فى المرفوع من كل هذا شيئ
[المقاصد الحسنة ص/ 384 ، المصنوع فى معرفة الحديث الموضوع 300 ، كشف الخفاء 206/2]
”اس سب میں سے کچھ بھی مرفوع ثابت نہیں ہے۔“
معلوم ہوا کہ ایسا کوئی عمل شریعت سے ثابت نہیں ہے اس لیے یہ بدعت ہے اور اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

کیا مؤذن اذان و اقامت کے بعد خود ہی جماعت بھی کروا سکتا ہے

مؤذن کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔
[الفتاوى الإسلامية 328/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے