اسلام ہی انسانیت کا حل ہے:
وہ اسلام جو پیارے پیغمبر محمد مصطفی علیہ السلام لے کر مبعوث ہوئے، اس میں انسانیت کے تمام کے تمام دینی ، دنیاوی، معاشی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی گویا تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانیت کو اس میں پورے طور پر داخل ہونے کا حکم صادر فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾
[البقرة: 208]
”اے ایمان والو! اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقش قدم کی اتباع مت کرو، کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہل اسلام کو اس بات کا حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ اسلام اس کے تمام جزئیات و تفاصیل کے ساتھ قبول کریں، ان کی طرح نہ ہو جائیں جو خواہش نفس کے غلام بن گئے کہ جو بات ان کی خواہش کے مطابق ہوئی اسے لے لیا، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اسے چھوڑ دیا۔
کوئی بھی انسان پورے اسلام میں اسی وقت گامزن ہوسکتا ہے جب شیطان کی مخالفت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے شیطان کی اتباع سے منع فرمایا اور تنبیہ فرمائی کہ وہ تو تمہارا عدو مبین ہے، اور یہ بات بھی تمھیں معلوم ہے کہ اس نامراد اور مردود نے تمہارے باپ آدم کے ساتھ کھلی عداوت کی تھی ، اور جنت سے نکلوایا تھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اس آیت کریمہ میں ”اہل ایمان“ سے مراد اہل کتاب کے بعض وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کو تو قبول کر لیا تھا، لیکن تورات کے بعض احکام و شرائع کو بھی اب تک گلے لگا رکھا تھا، انہی کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ پورے دین مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرو، اس میں سے کسی بھی حکم کو بھی اب تک گلے لگا رکھا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ پورے دین محمدی کو قبول کرو، اس میں سے کسی بھی حکم کو مت چھوڑو ، اور تورات پر صرف تمہارا ایمان لانا کافی ہوگا۔
﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
[آل عمران: 85]
”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہے گا، تو اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔ “
کیونکہ کتاب وسنت میں انسانیت کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ﴾
[النحل: 89]
”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے۔ “
بعض یہود نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا:
لقد علمكم نبيكم صلى الله عليه وسلم كل شى حتى الخراءة فقال: أجل نهانا أن نستقبل القبلة بغائط أو بول أو نستنجي باليمين وأن نستنجي بأقل من ثلاثة أحجار أو نستنجي برجيع أو عظم
سنن ترمذی، کتاب الطهارة رقم: 16 – سنن ابن ماجه رقم: 316۔ صحیح مسلم كتاب الطهارة رقم۔ ۔ ۔
”تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمہیں ہر چیز سکھا دی ہے یہاں تک کہ قضاء حاجت بھی؟ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ! آپ نے ہمیں پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ رخ ہونے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے ، تین پتھر سے کم میں استنجاء کرنے اور لیدو ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے۔ “
ہر فیصلہ دین اسلام کے مطابق کرنا:
دين اسلام كا تقاضا ہے كہ ہر فيصلہ دين اسلام كے مطابق كيا جائے. الله تعالىٰ كا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
[النساء: 59]
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اس میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔“
مجاہد اور دوسرے علمائے سلف نے کہا ہے کہ ”اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو“ سے مقصود قرآن وسنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو اس کا فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن وسنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن وسنت کی طرف رجوع میں ہی ہر چیز ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے۔ تیسیر الرحمن: 1/ 269
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
[الأحزاب: 36]
”اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے، یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائزہ نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (65) میں فرمایا: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ ”تمہارے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں ، اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں“ ۔ (تفسیر ابن کثیر تحت الآیة)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے وقت فرمایا تھا:
لو خطفتني الكلاب والزنا لا نفذته كما أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أراد قضا به رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو لم يبق فى القرى غيري لا نفذته
الكامل: 226/2
”میرے علاوہ پوری بستی میں کوئی شخص نہ ہو، اور مجھے کتوں اور بھیڑیوں کے نوچ لینے کا خدشہ بھی ہو، تب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نافذ کردہ فیصلہ کو جاری کرنے سے نہ رکوں گا۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وما لم تحكم آتمتهم بكتاب الله ويتخيروا مما أنزل الله إلا جعل الله بأسهم بينهم
سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن، باب العقوبات، حدیث: 4019
”اور جب تک ان کے ائمہ کتاب اللہ کے ساتھ فیصلے نہیں کریں گے، اللہ ان کے درمیان لڑائی ڈال دے گا۔ “
تمام مسائل اختلافیہ کا حل دین اسلام میں ہے:
اختلاف ہو جانا طبع انسانی کا لازمہ ہے، مگر اس اختلاف کو دین اسلام کی روشنی میں حل کرنا چاہیے۔ اجتہاد اگر درست ہے تو مجتہد کو دو اجر ملیں گے، اگر مجتہد مخطی ہے تو اجتہاد کا ایک اجر تو اس کو لازمی ملے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی آپس میں اختلاف ہو جاتا، مگر وہ اختلاف کے وقت جو کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہوتا اسی کو اختیار کرتے ، اور یہی طرز عمل تابعین، تبع تابعین اور ائمہ ہدی رحمہ اللہ کا تھا۔
کوئی بھی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے تمام امور اختلافیہ میں دین اسلام کو فیصل نہیں مان لیتا ، اور عملی طور پر اس پر ایمان کا ثبوت فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
[النساء: 65]
”پس آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں ، پھر آپ کے فیصلہ کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے اسے تسلیم کر لیں ۔ “
اختلاف کے وقت ائمہ ہدی کا طرز:
ائمہ کرام رحمہ اللہ اختلاف کے وقت کتاب وسنت کے قریب ترین رائے و اجتہاد کو ترجیح دیتے تھے۔ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مل جائے تو وہ سر آنکھوں پر، اقوال صحابہ مل جائیں تو ان کے مختلف اقوال میں سے ہم کسی ایک کا اختیار کریں گے۔ تابعین کے اقوال سامنے آئیں تو ہم بھی انہی کی طرح اجتہاد کریں گے۔
المدخل الى السنن: 46/1
اسحاق بن عیسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ جب بھی کوئی بحث و مباحثہ کرنے والا آئے تو کیا ہم سیدنا جبریل علیہ السلام کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کو چھوڑ دیں گے۔
الحلية: 324/6
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے کہ: ”ائمہ کا طریقہ ہم نے یہ پایا ہے کہ وہ کوئی بات کہنی ہوتی تو لوگوں سے کتاب وسنت کا علم پوچھتے تھے۔ ان کی اپنی رائے کے خلاف اگر کسی مسئلہ کی خبر مل جاتی تو کتاب وسنت کی خبر کو قبول کر لیتے ۔ اپنے تقویٰ کی بنا پر کتاب وسنت کی طرف رجوع کر لیتے ، انکار نہ کرتے ۔ اگر ہمیں ائمہ کی تحقیق نہ ملے تو صحابہ کرام کے اونچے مقام و مرتبہ کی بنا پر ان کے قول کو لیں گے۔ ان کے بعد لوگوں کی پیروی کے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتباع افضل ہے۔ “
الرسالة ص: 559، 560
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافی مسائل میں جو کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہوتا اس کو اختیار کرتے لیکن صحابہ کے اقوال سے باہر نہ جاتے۔ اگر کسی قول کی ترجیح آپ کے نزدیک ظاہر نہ ہوتی تو بغیر ایک کے اختیار کیے تمام اقوال کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کسی بستی میں آدمی سے ایسا مسئلہ پوچھا جائے جس میں لوگوں کا اختلاف ہے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: کہ کتاب وسنت کی موافقت میں فتویٰ دے اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اس کا فتوی نہ دے۔
اعلام الموقعين: 33، 32/1
اختلاف کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل:
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ وہ دین و دنیا کے کسی بھی معاملہ میں اگر اُن کے درمیان اختلاف ہو جائے تو اپنے معاملات کتاب وسنت سے حل کریں۔
ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ﴾
[الشورى: 10]
”اور تم جس چیز میں بھی اختلاف کرو، اُس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہی لوٹانا ہے۔“
”صاحب محاسن التنزیل رقمطراز ہیں: آیت میں اشارہ ہے کہ سچا دین صرف دین اسلام ہے، اور مشرکین مکہ اور دیگر مشرکین کا دین و مذہب ان کے آباء و اجداد کی مشرکانہ رسمیں اور خواہش نفس کی اتباع ہے۔ اور اگرچہ یہ سورت مکی ہے لیکن یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جن مسائل و معاملات میں اختلاف ہو جائے ، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی فیصل قرار پائے گی ۔“ انتہی !
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں عقیدہ و عمل کے کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو فورا اللہ اور رسول کا فیصلہ تلاش کرتے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہی حکم فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے پہلا اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق تھا۔ امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے مخاطب ہیں، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بیٹھ جاؤ، لیکن وہ نہ بیٹھے۔ سب نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطاب کیا۔
أما بعد ! من كان منكم يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حق لا يموت
”جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آگئی ہے، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا، تو بے شک اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، اسے موت نہ آئے گی ۔ “
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾
[آل عمران: 144]
”محمد اللہ کے رسول ہیں، آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے۔ تو آپ کو موت آجائے تو یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی پرانی حالت میں لوٹ جاؤ گے؟ جو بھی ایسا کرے گا تو اس سے اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ شکر بجالانے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔“
اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ اللہ کی قسم ! ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس آیت کے نازل ہونے کا علم ہی نہ تھا۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی تو لوگ اس کو دہرانے لگے ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
والله! ما هو إلا أن سمعت أبا بكر تلاها فعقرت حتى ما تقلني رجلاي وحتى أهويت إلى الأرض حين سمعته تلاها: أن النبى صلى الله عليه وسلم قد مات
صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4454
”اللہ کی قسم ! ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس آیت کریمہ کی تلاوت کی تو میں گھائل سا ہو گیا، یہاں تک کہ اپنے پاؤں نہ سنبھال سکا اور زمین پر گر پڑا۔ یہ آیت سننے کے بعد مجھے بھی یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں۔“
اس کے بعد دوسرا اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ کی تعیین کے بارے میں ہوا۔ لیکن اسے بھی سنت رسول الأئمة من قريش ”یعنی خلیفہ قریش میں سے ہیں“ سے رفع کیا گیا۔
ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کر رہے تھے، کچھ سمجھ نہ پا رہے تھے کہ کیا کریں۔ مہاجرین کو جب خبر لگی تو آپس میں کہا: کہ انصار کو یہاں بلا لیا جائے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم خود ان کے پاس جائیں۔ مہاجرین میں سے سیدنا ابو بکر ، عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم گئے ۔ باتیں ہوئیں انصار کے کچھ لوگوں نے کہا کہ مہاجرین میں سے ایک امیر رہے، اور انصار میں سے ایک امیر ہو۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بہت کچھ مفید باتیں کیں اور مزید یہ کہا: ولكنا الأمرا وأنتم الوزراء
”کہ امیر ہم ہوں گے اور آپ لوگ وزیر ہوں گے۔“
کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ائمہ قریش میں ہوں ۔ میں انصار کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید کرتا ہوں ان کے نیکو کاروں کو قبول کرو اور ان میں کوئی کچھ غلط کام کرے تو اسے معاف کر دو۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے ہمیں ”صادقین“ کا لقب دیا ہے اور آپ لوگوں کو ”مفلحين“ کے لقب سے نوازا ہے، اور آپ لوگوں کو ہر حالت میں ہمارے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾
[التوبة: 119]
”اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور صادقین (سچوں) کے ساتھ رہو۔“
اس کے علاوہ بہت سی صحیح باتوں اور قوی دلیلوں کا ذکر کیا۔ اس پر انصار نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے خلیفہ کی حیثیت سے بیعت کر لی۔
العواصم من القواصم، ص: 43، 44
پھر صحابہ کرام میں اس بات میں اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے ، اس اختلاف کو بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حل کیا گیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگوں میں اختلاف ہوا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، بھولا نہیں ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما قبض الله نبيا إلا فى الموضع الذى يحب أذيدفن فيه
سنن ترمذی، رقم: 1018
”کہ اللہ کسی نبی کو وہیں وفات دیتا ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں ۔ “
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:
أدفنوہ فى موضع فراشه
سنن ترمذی، ص: 242 ، احکام الجنائز
”کہ آپ کے بستر ہی کی جگہ پر آپ کو دفن کرو، اختلاف کا خاتمہ ہو گیا۔“
پھر صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے بعد سیدنا علی ، عباس اور فاطمہ رضی اللہ عنہم کا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اختلاف تھا۔
اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات رسول کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے وراثت طلب کی ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا فهو صدقة
صحیح بخاری، رقم: 3508
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہمارا کوئی وارث مال نہیں ہوگا جو کچھ ہم چھوڑ کر جائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔ “
یاد رہے کہ اس حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمتہ الزہراہ رضی اللہ عنہا نے قبول کر لیا۔
اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے جب بھی کسی واقعہ میں اختلاف ہوتا تو قرآن وسنت کی دلیلوں کو ڈھونڈتے ، جب دلیل مل جاتی اختلاف رفع ہو جاتا۔ اس آیت کی عملی تفسیر تھے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾
[النساء: 59]
”جب تم میں کسی مسئلہ میں نزاع ہو جائے تو کتاب وسنت سے رجوع کرو۔“
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے خیر القرون کے موقف کا ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: کہ صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کو لیا اور تابعین سے کہا کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے ہم تمھیں پہنچا رہے ہیں ۔
تابعین عظام نے بھی اسی نہج پر زندگی گزاری۔ پھر اتباع تابعین بھی اسی سیدھے مسلک پر چلے۔ اسی طرح ائمہ متبوعین بھی ان کے بعد اس منہج پر رہے۔
یہ ائمہ قیاس و اجتہاد کی طرف اس وقت توجہ دیتے جب کتاب وسنت سے انھیں دلیل نہ مل پاتی۔ کیونکہ اللہ کا دین ان کے سینوں میں حد درجہ معظم تھا ان کے دلوں میں یہ بات بہت ہی بڑی تھی کہ صحابہ اور تابعین کے طریقوں کے خلاف کوئی رائے اور قیاس یا عقلی کسی بات کو آگے بڑھائیں یا کسی کی تقلید کو مقدم کریں۔
اس وجہ سے پورے عالم میں ان کی تعریف ہوتی رہی اور اللہ نے بعد کے لوگوں میں ان کو بڑی عزت کا مقام دیا ۔ اسی طرح ان ائمہ کے طریقوں پر ان کے اتباع بھی چلے کسی کے لیے کوئی تعصب نہیں برتا۔ حجت اور دلیل ہی کے ساتھ وہ چلتے رہے، حق جہاں بھی ہوا اس قافلہ میں رہے۔
اعلام الموقعين: 6/1 و 10، 9/2
مقصد عرض یہ ہے کہ عہد نبوی ، عہد صحابہ اور جس کسی نے ان کی اقتداء و اتباع کی ان کے عہد میں کسی قول کے ساتھ تعصب نہ برتا گیا۔ خواہ وہ کس قدر عالی مرتبت ہو۔ بلکہ وہ لوگ کسی کے قول کو جب دلیل کے خلاف پاتے تو با ادب و حکمت اس کی تردید کرتے۔ یہاں تک کہ بعض امراء و حکام کے قول و فعل کو جب وہ خلاف سنت پاتے تو تردید میں کوئی باک نہ کرتے اور نہ کسی کی ملامت کا خوف ان کے دلوں میں رہتا، کیونکہ ان کے دلوں میں دین کی عظمت ہر کسی کی عظمت سے بڑھ کر تھی۔
جناب ابو الشعثاء کہتے ہیں: کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ طواف میں کعبہ کے چاروں کونوں کا استلام کرتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ دو رکنوں (حجر اسود اور رکن یمانی) ہی کا استلام کرنا ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ بیت اللہ کوئی حصہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے ۔ مسند احمد اور سنن الترمذی میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن رضی اللہ عنہما نے آخر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾
”یعنی پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اتباع و اقتداء ہے۔“
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے درست کہا۔
مسند احمد: 373/1۔ سنن الترمذی: 213/3
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاوی کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیلوں پر ہوا کرتی تھی۔ ان میں علم فقہ کا کوئی انتساب تھا نہ کوئی مذہبی اختلاف تھا کہ جس پر دوستی یا دشمنی کی جاتی۔ یہی حال تمام خیر القرون میں رہا۔