اجنبی عورت کے جنازے کو کندھا دینا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا کوئی شخص اجنبی عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے؟
جواب : جب کوئی مسلمان مرد یا عورت فوت ہو جائے تو حقوق العباد میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کے جنازے میں جائیں اور جنازے کو اٹھائیں۔ جنازہ اٹھانے والے اور پیچھے جانے والے مرد ہی ہوتے ہیں عورت کے لیے یہ کام مکروہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے محرم اور غیرمحرم میں فرق نہیں کیا۔ کوئی بھی مسلمان میت کو کندھا دے سکتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
« حق المسلم على المسلم خمس : رد السلام وعيادة المريض واتباع الجنائز واجابة الدعوة و تشميت العاطس » [بخاري، كتاب الجنائز : باب الامرباتباع الجنائز1240، مسلم2162، عمل اليوم و الليلة للنسائي221 ابوداؤد 5030، بيهقي 3/ 386]
”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں، سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے پیچھے چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک مارنے والے کو جواب دینا۔“
اسی طرح ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« عودوا المرضٰي واتبعوا الجنائز تذكركم الآخرة» [مسند أبى يعلي 1119، موارد الظمآن 709، مسند أحمد 31/3، مسند بزار 522، ابن أبى شيبة 235/3، شرح السنة 387/5، الأدب المفرد 518، السنن الكبريٰ للبيهقي 379/3]
”بیماوں کی عیادت کرو، جنازوں کے پیچھے چلو، یہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔“
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو جنازوں کے پیچھے جانے کا حکم ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے جنازہ میں محرم و غیر محرم کی تخصیص نہیں کی، نیز عورتوں کو جنازوں کے پیچھے آنے سے منع کیا گیا ہے۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
« نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا» [بخاري، كتاب الجنائز : باب اتباع النساء الجنازة 1278، مسلم 938، ابوداؤد 3167، ابن ماجه 1577، مسند احمد 408/6، عبد الرزاق 454/3، السنن الكبريٰ للبيهقي 77/4]
”ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے روک دیا گیا اور ہمیں منع میں تاکید نہیں کی گئی۔“
اس سے ثابت ہوا کہ جنازوں کے ساتھ جانے کا حکم مردوں کو ہے عورتوں کو نہیں لہٰذا مرد ہی جنازہ کو کندھا دیں گے۔ میت کو اٹھانے اور قبر میں اتارنے کے لیے محرم کی شرط کا کوئی ثبوت نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں «باب حمل الرجال الجنازة دون النساء» میں بھی یہ سمجھایا ہے کہ جنازہ اٹھانا مردوں کا کام ہے عورتوں کا نہیں، بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر محرم آدمی عورت کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہے جیسا کہ سید انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
« شهدنا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس على القبر، فرايت عينيه تدمعان , فقال: هل فيكم من احد لم يقارف الليلة؟ , فقال ابو طلحة: انا، قال: فانزل فى قبرها , فنزل فى قبرها فقبرها » [بخاري، كتاب الجنائز : باب من يدخل قبر المرأة1342]
”ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم میں سے کوئی ایسا آدمی ہے جس نے آج رات صحبت نہیں کی۔“ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں نے (نہیں کی)۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس کی قبر میں اترو۔“ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ قبر میں اترے اور انہیں قبر میں دفنایا۔
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو قبر میں اتارنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر محرم مرد عورت کو جب قبر میں اتار سکتا ہے تو اسے جنازے میں کندھا دینے سے کون سی چیز مانع ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: