اجماع خبر واحد سے بڑا ہے
❀ امام ابوعبدالله محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
➊الأصل قرآن أو سنة، فإن لم يكن فقياس عليهما .
➋وإذا اتصل الحديث عن رسول الله صلى الله و صح الإسناد [به] فهو سنة.
➌والاجماع أكبر من الخبر المنفرد.
➍والحديث على ظاهره و إذا احتمل المعاني فما أشبه منها ظاهر الأحاديث أولاها به، وإذا تكافأت الأحاديث فأصحها إسنادًا أولاها.
➎وليس المنقطع بشيء ما عدا منقطع ابن المسيب.
➊اصل (دلیل) قرآن یا سنت (حدیث) ہے ، اور اگر (ان میں) نہ ہوتو پھر ان دونوں پر قیاس (اجتہاد ) ہے۔
➋اور جب رسول اللہ ﷺ تک حدیث متصل (سند سے) ہو اور سند صحیح ہوتو یہ سنت ہے۔
➌اور اجماع خبر واحد سے بڑا ہے۔
➍اور حدیث اپنے ظاہر (یعنی ظاہری مفہوم) پر ہوتی ہے اور اگر (اس میں) کئی معنوں کا احتمال ہو تو جو ظاہر احادیث سے زیادہ مشابہ ہو وہی اولی (یعنی راجح) ہے۔ اور اگر روایات ( بظاہر ) ایک دوسرے کے مقابل ( مخالف) ہوں (اور تطبیق ممکن نہ ہو) تو پھر سب سے زیادہ صحیح سند والی (روایت یا روایات) کو ترجیح حاصل ہے۔
➎اور منقطع ( مثلاً مرسل ) کوئی چیز نہیں سوائے (سعید) ابن المسیب کی منقطع کے۔
(آداب الشافعي ومن قبلا بن ابی حاتم ص ۱۷۷ ۱۷۸، وسندہ صحیح)
◈ ثابت ہوا کہ حجیت کے لحاظ سے حدیث اور سنت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، لہذا جولوگ باب حجیت میں حدیث اور سنت میں فرق کرتے ہیں وہ لوگ غلط راستے پر رواں ہیں۔
◈ اجماع شرعی دلیل ہے بلکہ خبر واحد سے بڑی چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خبر واحد میں غلط تاویل کی جاسکتی ہے جیسا کہ ماترید یہ اور مبتدعین کا طرز عمل ہے لیکن اجتماع میں ایسی تاویل قطعا نہیں ہو سکتی بلکہ اجماع سے ایک مفہوم یقینی طور پر متعین ہو جاتا ہے۔
◈ حدیث اپنے ظاہر اور عموم پر محمول ہوتی ہے الا یہ کہ سلف صالحین سے اس کی کوئی تشریح یا تخصیص ثابت ہو (جیسا کہ دوسرے دلائل سے ظاہر ہے) تو پھر یہی تشریح و تخصیص مقدم ہے۔
◈ منقطع اور مرسل ضعیف ومردود روایت ہوتی ہے۔
یادر ہے کہ ہماری تحقیق ، دوسرے دلائل اور راجح قول میں امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی منقطع و مرسل روایت بھی ضعیف کے حکم میں ہی ہے۔
(۲۰/ اکتوبر ۲۰۱۰ء)