اتمام حجت اور جہاد کے متعلق غامدی نظریہ

فقہائے کرام کے کام کی اہمیت

  • فقہاء امت کے بہترین دماغ: اسلامی فقہ صدیوں کی محنت اور گہرے علمی تجزیے کا نتیجہ ہے۔ ان کے کام کو نظر انداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے پہلے سے موجود پہیہ کو دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کرنا۔
  • بین الاقوامی قانون کی بنیاد: فقہاء کا کام محض نظریاتی نہیں تھا بلکہ عملی طور پر اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کا محور تھا۔
  • غیر مسلم ماہرین کی رائے: کئی غیر مسلم ماہرین نے بھی تسلیم کیا کہ فقہاء کے کام کو بین الاقوامی قانون کے "عرفی ماخذ” (International Custom) کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی عدالت انصاف کے سابق جج ویرامنتری نے اس موضوع پر اپنی تحقیق پیش کی۔
    (حوالہ: Larry Maybee, Benarji Chakka (Ed.), Custom As Source Of International Humanitarian Law, New Delhi: ICRC, 2006, pp. 25-40)

غامدی صاحب کا نظریہ اتمام حجت

  • رسول اللہ کے جہاد کا خاص پہلو: رسول اللہ اور صحابہ کرام کے جہاد کا مقصد اللہ کی حجت کو مکمل کرنا تھا۔ جب کوئی قوم حق کو بالکل واضح دیکھنے کے بعد بھی انکار کر دیتی ہے، تو ان پر دنیا میں ہی عذاب الٰہی کا نفاذ ہوتا ہے۔
    (حوالہ: مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، ج 3، ص 469، 473، 555؛ جاوید احمد غامدی، قانونِ جہاد، ص 241-242، 266-270)
  • غلبہ دین کا جہاد محدود تھا: یہ جہاد صرف نبی اور ان کے براہِ راست مخاطبین تک محدود تھا۔ صحابہ کرام نے بھی انہی اقوام کے خلاف جنگ کی جنہیں رسول اللہ نے دعوتی خطوط کے ذریعے متنبہ کیا تھا۔
    (حوالہ: قانونِ جہاد، ص 269-270)

غامدی صاحب کے نظریے پر سوالات

1. سورہ توبہ کا استدلال:

  • سورہ توبہ میں قتال کی وجہ "نقض عہد” اور "طعن فی الدین” کو قرار دیا گیا ہے، نہ کہ "اتمام حجت” کو۔
  • قرآنی آیات:
    وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ…
    "اور اگر وہ اپنی قسمیں توڑ دیں، اپنے عہد کے بعد، اور تمہارے دین میں طعن کریں، تو کفر کے سرداروں سے جنگ کرو۔”
    (التوبہ: 12)
    أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ…
    "کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں؟”
    (التوبہ: 13)
    ان آیات میں قتال کی علت واضح طور پر بتائی گئی ہے، لیکن "اتمام حجت” کا ذکر نہیں۔

2. اتمام حجت کا قرآن میں عدم ذکر:

پورے قرآن میں کہیں بھی "اتمام حجت” کو قتال کی بنیاد قرار نہیں دیا گیا۔ سورہ توبہ میں بھی اتمام حجت کے نفاذ کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔

3. فتح مکہ کے وقت معافی کا اصول:

  • فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ نے اکثر دشمنوں کو معاف کر دیا، حالانکہ اگر اتمام حجت کا قانون لاگو ہوتا تو صرف دو آپشن، یعنی اسلام یا موت، دیے جاتے۔
  • ابن قیم نے اپنی کتاب زاد المعاد میں نو افراد کے قتل کے حکم کا ذکر کیا، مگر ان میں سے کئی کو بعد میں معاف کر دیا گیا۔
    (حوالہ: زاد المعاد، ج 3، ص 362)

4. اتمام حجت کا حکم سے نہیں بلکہ محکوم سے تعلق:

  • اتمام حجت ایک مخصوص قوم یا افراد سے متعلق ہوتا ہے، نہ کہ جہاد کے حکم سے۔
  • اس لیے اتمام حجت کے قانون کو جہاد کے لیے عمومی اصول قرار دینا درست نہیں۔

جہاد اور اتمام حجت کے درمیان فرق

  • اتمام حجت کا تعلق محدود مخاطبین سے: اتمام حجت کا قانون ایک خاص قوم یا مخاطبین تک محدود ہے۔ یہ عمومی شریعت یا احکام کے لیے معیار نہیں بن سکتا۔
  • فتنے کا خاتمہ: قرآن میں جہاد کا مقصد "فتنہ کا خاتمہ” بیان کیا گیا ہے:
    وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ…
    "اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے…”
    (البقرہ: 193)
  • غلبہ دین: نبی نے اعلائے کلمۃ اللہ اور فتنے کی سرکوبی کے لیے جہاد کیا، اور یہی اصول آج بھی حالات کے مطابق قابلِ عمل ہے۔

خلاصہ

  • غامدی صاحب کا "اتمام حجت” کا نظریہ محلِ نظر ہے کیونکہ:
  • قرآن و حدیث میں اس کی صریح نص موجود نہیں۔
  • سورہ توبہ میں قتال کی علت "نقض عہد” اور "طعن فی الدین” بتائی گئی ہے، نہ کہ اتمام حجت۔
  • فتح مکہ اور دیگر مواقع پر نبی کی حکمتِ عملی اتمام حجت کے عمومی اصول سے متصادم معلوم ہوتی ہے۔
  • اتمام حجت کو جہاد کے احکام سے جوڑنے کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1