غلط فہمی:
امام تکبیریں اور سلام بلند آواز سے کہے، اور مقتدی آہستہ، اس کی دلیل کیا ہے؟
ازالہ: اجماع کی حجیت
امت مسلمہ میں جن عقائد اور مسائل پر اجماع ہو چکا ہے، ان کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل اجماع ہی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘
(جامع الترمذی، کتاب الفتن، حدیث 2167)
اس لیے نماز، روزہ، حج، اور زکوٰۃ جیسے تمام مسائل جن پر امت کے علماء کرام کا اجماع ہے، وہ یقینی طور پر حق ہیں۔
غلط فہمی:
کیا یہ دہرا معیار اور بدلتے پیمانے نہیں؟
زبیر علی زئی صاحب نے ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہما اللہ کی تقریباً 165 روایات کو صرف اس لیے صحیح قرار دیا کہ وہ ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ یا ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں ہیں۔
مگر دوسری کتاب ’’تسہیل الوصول‘‘ میں انہی دو محدثین کی 19 روایات کو ضعیف کہا۔
سوال یہ ہے: یہ دہرا معیار اور بدلتے پیمانے کیوں؟
ازالہ: ائمہ کا حدیث پر تنقیدی جائزہ
وہ ائمہ جنہوں نے صرف صحیح احادیث درج کرنے کا دعویٰ کیا:
- امام بخاری
- امام مسلم
- امام حاکم
- امام ابن حبان
- امام ابن خزیمہ
بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے گواہی دی کہ بخاری و مسلم کی تمام روایات صحیح اور قطعی ہیں، اسی وجہ سے ان دونوں کتابوں کو تلقی بالقبول حاصل ہوا۔
دیگر محدثین کی کتب کا معاملہ:
امام حاکم رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی کتاب کی احادیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہیں، مگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’مستدرک حاکم‘‘ کی تخریج کرتے ہوئے کئی روایات کو ضعیف قرار دیا۔
یہی معاملہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہما اللہ کی کتب کے ساتھ بھی ہوا۔ بعد کے ائمہ حدیث نے ان کتب میں بعض ضعیف روایات کی نشاندہی کی۔
نتیجہ:
اگر کوئی محدث کسی حدیث کو صحیح قرار دے اور ابن خزیمہ یا ابن حبان کی کتاب سے استدلال کرے تو یہ درست ہے۔
اور اگر کسی مقام پر ان کی روایت کو ضعیف قرار دے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ ائمہ حدیث یہ کام پہلے کر چکے ہیں۔
اسے دہرا معیار یا بدلتے پیمانے نہیں کہا جائے گا۔
اہل سنت کا منہج:
حدیث کی تصحیح و تضعیف اور فقہی اختلاف کا جائز طریقہ
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر انسان کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ ﷺ کے۔‘‘
چونکہ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کا طرز عمل بطور مثال پیش کرتے ہیں۔
فقہی اختلافات کی مثالیں
➊ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اختلاف
مثال 1: جماعت کی ترتیب
روایت: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دو افراد کو اپنے دائیں اور بائیں کھڑا کیا اور خود درمیان میں کھڑے ہوئے۔
قول: "جب تم تین ہو تو اسی طرح کرو”
امام محمد: ہم ان کے قول پر عمل نہیں کرتے، امام آگے بڑھے اور باقی دو پیچھے نماز پڑھیں۔
(کتاب الآثار، صفحہ 29)
مثال 2: سجدہ سورۃ ص
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سجدہ نہ کرتے تھے۔
امام محمد: ہم اس میں سجدہ ضروری سمجھتے ہیں اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں۔
(کتاب الآثار، صفحہ 602)
➋ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف
تکبیراتِ تشریق
روایت: سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک تکبیریں کہتے۔
امام ابو حنیفہ: وہ صرف 9 اور 10 ذوالحجہ کی عصر تک کہتے تھے۔
(کتاب الآثار، صفحہ 502)
غلام کی آزادی
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول سیدنا علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مختلف تھا۔
امام محمد: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول بہتر ہے، ہم اسے لیتے ہیں۔
(کتاب الآثار، صفحہ 366)
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف
غنیمت کی تقسیم
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: سوار کو دو اور پیدل کو ایک حصہ
امام ابو حنیفہ: یہی قول
امام محمد: سوار کو تین حصے (ایک اس کا، دو گھوڑے کے)
(کتاب الآثار، صفحہ 448)
مطلقہ عورت کا نکاح
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: صحبت ہو چکی ہو تو عورت دوسرے شوہر کی ہے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ: جدائی کر دی جائے، وہ پہلے شوہر کی بیوی ہے
امام محمد: ہم سیدنا علی کا قول لیتے ہیں
(کتاب الآثار، صفحات 1074، 1174)
➍ امام محمد رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف
مثالیں:
جمعہ کے وقت شامل ہونے والا شخص
امام ابو حنیفہ: امام کے سلام کے بعد دو رکعت پڑھے
امام محمد: وہ چار رکعتیں (ظہر کی) پڑھے
(کتاب الآثار، صفحہ 125)
شوہر کو زکوٰۃ دینا
امام ابو حنیفہ: درست نہیں
امام محمد: ہمارے نزدیک درست ہے
(کتاب الآثار، صفحہ 292)
گھوڑے کا گوشت
ابن عباس رضی اللہ عنہ: مکروہ
امام ابو حنیفہ: مکروہ
امام محمد: حلال، کئی احادیث وارد ہیں
(کتاب الآثار، صفحہ 801)
نتیجہ:
محترم عامر انوری صاحب، ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی بعض روایات کو قبول اور بعض کو ضعیف کہنا بدلتا پیمانہ نہیں بلکہ ائمہ حدیث اور فقہاء کا طرز عمل ہے۔
کتاب الآثار کی ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سلف صالحین کا طریقہ یہی تھا۔
علماء کرام آج بھی اسی منہج کی تعلیم دیتے ہیں۔
عرب علماء کا طرز عمل
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جمعہ کے قیام کے لیے چالیس آدمی ضروری ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن راجح یہ ہے کہ تین افراد کے ساتھ بھی جمعہ جائز ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، جلد اول، صفحہ 545)
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ:
’’مسلمان کا مقصود و مطلوب حق ہوتا ہے، جہاں بھی اسے حق ملے، وہ اسے لے لیتا ہے۔ ائمہ اربعہ نے کسی کو بھی ہر بات میں اپنی تقلید کا پابند نہیں کیا۔ اگر دوسرے امام کے قول میں حق ملے تو وہ لے لیا جائے۔ تخفیف یا خواہش نفس کے لیے کسی کی لغزشوں کو تلاش کرنا درست نہیں۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، جلد اول، صفحہ 442)
یہی منہج اہل سنت کا ہے، یہی سلف صالحین کا راستہ ہے، اور یہی فرقہ ناجیہ کی پہچان ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘
(یعنی جو میں اور میرے صحابہ جس راہ پر ہیں)