آیت انما انت منذر اور اس کی منقول تفسیر
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «انما انت منذر» ’’ بے شک تو ڈرانے والا ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میں مندر ہوں لیکن علی رضی اللہ عنہا تجھے ہدایت کرنے والے ہیں اے علی یہ ہدایت یافتہ لوگ تیرے ذریعہ ہدایت پائیں گے۔ [ميزان الاعتدال: 231/2 واخرجه ابن جرير الطبري فى التفسير: 72/13۔ و ابن جوزي فى زاد المسير 307/4 والسيوطي فى الدرر 45/4 و ابن حجر فى الفتح 376/8 و الهندي فى الكنز رقم: 330/2]
ذہبی لکھتے ہیں اس آیت «انما انت منذر ولكل قوم هاد» کی یہ تفسیر مفسر ابن جریر نے۔ حسن بن الحسین کے ذریعہ معاذ بن مسلم سے نقل کی ہے۔ یہ روایت منکر ہے اور غالبا بہ آفت اسی معاذ کی ڈھائی ہوئی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آفت ابن جریر نے ڈھائی ہو۔
حسن بن الحسین:
حسن بن الحسین کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ شخص کوفہ کا باشندہ ہے۔ ابوحاتم لکھتے ہیں یہ محدثین کے نزدیک سچا نہیں۔ اس کا شمار بڑے درجہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی روایت ثقہ راویوں جیسی نہیں ہوتی۔ ابن حبان لکھتے ہیں یہ ثقہ راویوں کے نام سے لغو با تمیں روایت کرتا اور احادیث میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ [ميزان الاعتدال: 23/2۔ ترجمه الحسن بن الحسين العرني الكوفي المغني: 1389/1۔ تنزيه الشريعة: 48/1۔ الجرح والتعديل: 20/3]
معاذ بن سلم:
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے اور اس نے عطاء بن السائب سے یہ موضوع حدیث روایت کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 132/4]
عطاء بن السائب:
معاز بن مسلم نے یہ روایت عطاء بن السائب سے نقل کی ہے۔ عطاء اگرچہ تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ لیکن اول تو ان کا آخر عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ثانیا وہ مرسلروایات نقل کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے