آیت استخلاف کی تشریح اور سوالات
آیت استخلاف کے بارے میں مختلف تفسیری اور علمی مباحث میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس میں جس خلافت کا وعدہ کیا گیا ہے، کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی شامل ہے یا نہیں؟
سوالات اور ان کے جوابات
- اگر نہیں: تو یہ کہنا پڑے گا کہ (معاذ اللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان اور اعمال صالحہ سے محروم تھے، جو کسی طور درست نہیں۔
- اگر ہاں: تو پھر کیا یہ وعدہ "خلافت بلافصل” کا تھا یا "مطلق خلافت” کا؟
- اگر مطلق خلافت کا وعدہ: تو یہ درست ہے اور سب کے لیے قابل قبول بات ہے۔
- اگر خلافت بلافصل کا وعدہ: تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا یا نہیں؟
- اگر وعدہ پورا نہیں ہوا: (معاذ اللہ)، تو یہ کفر کے مترادف ہے۔
- اگر وعدہ پورا ہوا: تو تاریخی حقائق کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے کے تین خلفاء راشدین کی خلافت کو کیا حیثیت دی جائے گی؟
خلاصہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت بلافصل کا وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ آیت استخلاف تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے نازل ہوئی، اور خلفائے اربعہ کی امتیازی حیثیت برقرار رہتی ہے۔
بشارت اور اس کی اقسام
1. خاص بشارت
یہ کسی مخصوص فرد یا جماعت کے لیے ہوتی ہے، جیسے سورہ الانفال میں مہاجرین اور انصار کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”والذین آمنوا وهاجروا وجاهدوا فی سبیل اللہ والذین آووا ونصروا أولئک هم المؤمنون حقا“
"اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی، یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں مومن ہیں۔”
(الأنفال: 74)
اس بشارت کو مشروط کرنا یا اس پر اعتراض کرنا غلط ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر پہلے سے جانتا ہے کہ یہ افراد ان بشارتوں کے اہل ہیں۔
2. عام بشارت
یہ پوری امت کے لیے ہوتی ہے، جیسے سورہ الکہف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان:
”إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات كانت لهم جنات الفردوس نزلا“
"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کے لیے جنت الفردوس مہمانداری کے طور پر ہوگی۔”
(الکہف: 107)
اس بشارت میں افراد متعین نہیں کیے گئے، بلکہ جو ایمان اور اعمال صالحہ کے حامل ہوں گے، وہ اس بشارت کے مستحق ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کا منافقین پر سختی کا حکم
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو منافقین پر سختی کا حکم دیا:
”یا أیها النبی جاهد الکفار والمنافقین واغلظ علیهم“
"اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔”
(التوبہ: 73، التحریم: 9)
یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منافقین کو پہچانتے تھے اور ان پر سختی فرمائی، جیسے "مسجد ضرار” کو مسمار کرانا۔
- اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ آپ ﷺ منافقین کو نہیں پہچانتے تھے، تو یہ قرآن و سنت کے خلاف ہوگا۔
- جو لوگ فتح مکہ کے بعد ایمان لائے، ان کی عزت افزائی اور غنائم کی تقسیم بھی ان کے منافق نہ ہونے کی دلیل ہے۔
خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کا مقام
- امت کے اجماعی عقیدے کے مطابق، خلفائے راشدین صرف پہلے چار خلفاء ہیں۔
- حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ لغوی طور پر "خلیفہ راشد” ہیں، لیکن اصطلاحی طور پر ان کی خلافت کو "خلافت عادلہ” کہا جاتا ہے۔
- صحابہ کرام کی فضیلت من حیث المجموع لی جاتی ہے، اور جزوی فضیلت کی بنیاد پر کسی صحابی کی کلی فضیلت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
جزوی اور کلی فضیلت کا فرق
- حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عسکری خدمات اور فتوحات جزوی فضیلت ہیں، لیکن یہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کے کلی مقام کو کم نہیں کرتیں۔
- اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہادی فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کلی مقام کو متاثر نہیں کرتے، اور ان دونوں شخصیات کے درمیان افراط و تفریط سے اجتناب ضروری ہے۔
نتیجہ
آیت استخلاف اور دیگر بشارتوں کو صرف مخصوص افراد سے منسوب کرنا قرآن و سنت کے عمومی اصولوں کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کی فضیلت کے معاملے میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور فرق مراتب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی کے حق میں افراط یا تفریط نہیں کرنی چاہیے۔