آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ178

حدیث کی تحقیق اور اسناد

➊ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

"مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟”
(آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟)

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ”
(جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔)

یہ روایت جامع ترمذی، دلائل النبوۃ للبیہقی، المستدرک للحاکم، تاریخ بغداد اور دیگر کتب میں مذکور ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔

➋ حدیث سیدنا میسرۃ الفجر رضی اللہ عنہ

سیدنا میسرۃ الفجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

"مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟”
(آپ کب نبی لکھے گئے؟)

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ”
(جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے۔)

یہ روایت مسند احمد، کتاب السنۃ، تاریخ الکبیر للبخاری، المعجم الکبیر للطبرانی اور دیگر کتب میں مذکور ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔

➌ دیگر شواہد اور روایات

اسی مضمون کی روایت سیدنا عبداللہ بن ابی السجدعاء العبدی رضی اللہ عنہ، تابعی عبداللہ بن شقیق اور تابعی عامر الشعبی سے بھی مروی ہے۔
(کتاب السنۃ لابن ابی عاصم، مصنف ابن ابی شیبہ، طبقات ابن سعد وغیرہ)

بعض روایات مرسل ہیں، مگر ان میں موجود شواہد حدیث کے مضمون کو تقویت دیتے ہیں۔

➍ حدیث سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ

سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين”
(میں اللہ کے ہاں خاتم النبیین لکھا ہوا تھا۔)

"وإنّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ في طِينَتِه”
(جب آدم علیہ السلام اپنی گوندھی ہوئی مٹی میں تھے۔)

یہ حدیث شرح السنۃ للبغوی، تفسیر البغوی، مسند احمد، دلائل النبوۃ للبیہقی، تاریخ دمشق، المعجم الکبیر للطبرانی اور دیگر کتب میں موجود ہے۔
اس حدیث کی ایک سند ضعیف ہے لیکن معاویہ بن صالح والی سند حسن ہے۔

ضعیف روایت کا تجزیہ

➊ حدیث "كنت أول النبيين في الخلق وآخرهم في البعث”

یہ حدیث دلائل النبوۃ لابی نعیم، الکشف والبیان للثعلبی، تفسیر ابن کثیر اور دیگر کتب میں موجود ہے، مگر اس کی سند میں سعید بن بشیر ازدی ہے، جو ضعیف ہے۔
ابن نمیر، الساجی اور دیگر محدثین نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(السلسلۃ الضعیفہ، حدیث 661)

➋ روایت قتادہ عن الحسن عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ

یہ روایت بھی طبقات ابن سعد میں دو مختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے، مگر دونوں سندیں ضعیف ہیں۔
ایک سند میں عبدالوہاب بن عطاء اور سعید بن ابی عروبہ ہیں، جو مدلس ہیں۔
دوسری سند میں ابو بلال الراسبی ہے، جو ضعیف ہے۔

نتیجہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا فیصلہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔
مذکورہ حدیث صحیح سند سے ابوہریرہ، میسرۃ الفجر، اور عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
بعض روایات ضعیف ہیں، لیکن صحیح اور حسن روایات کے ہوتے ہوئے ان کا کوئی اثر نہیں۔
یہ حدیث مسئلہ تقدیر سے متعلق ہے، جیسا کہ امام فریابی نے اسے کتاب القدر میں ذکر کیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1