نوافل گھروں میں پڑھنا افضل ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نوافل گھروں میں پڑھنا افضل ہے

➊ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفضل الصلاة صلاة المرء فى بيته إلا المكتوبة
”فرض نماز کے علاوہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں ادا کرتا ہے۔“
[بخاري: 731 ، كتاب الأذان: باب صلاة الليل ، مسلم: 781 ، أبو داود: 1044 ، ترمذي: 450 ، ابن خزيمة: 1203]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا
”اپنی کچھ نماز اپنے گھروں میں بھی ادا کیا کرو اور انہیں قبروں کی مانند مت بنا لو۔“
[بخاري: 432 ، كتاب الصلاة: باب كراهية الصلاة فى المقابر ، مسلم: 777 ، أبو داود: 1043]
(نوویؒ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں صرف اس لیے نفل پڑھنے کی ترغیب دلائی کیونکہ یہ زیادہ مخفی ، ریا کاری سے زیادہ بعید ، اعمال ضائع کر دینے والی اشیاء سے بہت زیادہ محفوظ ہیں اور ان کے ذریعے گھر میں برکت ہوتی ہے ، اس میں فرشتے اور رحمت نازل ہوتی ہے ، اور شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے۔
[شرح مسلم: 326/3]

نوافل کی جماعت بھی درست ہے

جیسا کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے گھر کے ایک حصے کو مسجد بنانا چاہتے تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس جگہ میں نماز پڑھنے کی درخواست کی اس روایت میں ہے کہ:
فقام رسول الله قصففنا خلفه فصلي بنا ركعتين
”پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ۔“
[بخاري: 424 ، كتاب الصلاة: باب إذا دخل بيتا يصلى حيث شاء أو حيث أمر ، مسلم: 33 ، نسائي: 1250 ، أحمد: 43/4 ، ابن ماجة: 754]
علاوہ ازیں اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں مذکور ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز میں بائیں جانب سے دائیں جانب گھمایا۔
[بخاري: 759 ، كتاب الأذان: باب وضوء الصبيان و متى يحب عليهم الغسل والطهور ، مسلم: 763]

نوافل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
لما بدن رسول الله صلى الله عليه وسلم وثقل كان أكثر صلاته جالسا
”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بوجھل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔“
[مسلم: 732 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب جواز النافلة قائما وقاعد ، أحمد: 257/6 ، ابن خزيمة: 1239]
صحیح بخاری کی ایک روایت میں وضاحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام الیل (یعنی نفل نماز ) میں بیٹھا کرتے تھے ۔
[بخاري: 1118]
اگرچہ نوافل بیٹھ کر ادا کرنا جائز ہے لیکن بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر پڑھنے سے اجر میں لامحالہ نقص واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن صلى قائما فهو أفضل ومن صلى قاعدا فله نصف أجـر الـقـائـم ومن صلى نائما فله نصف أجر القاعد
”اگر کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو یہ افضل ہے اور جو بیٹھ کر پڑھے گا اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے نصف اجر ملے گا اور جو لیٹ کر پڑھے گا اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے نصف اجر ملے گا۔“
[أحمد: 435/4 ، بخاري: 1115 ، كتاب الجمعة: باب صلاة القاعد ، أبو داود: 951 ، ترمذي: 369 ، ابن ماجة: 1231 ، بيهقي: 491/2]

اقامت کے بعد نفل پڑھنا جائز نہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة
”جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ۔“
[مسلم: 710 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب كراهة الشروع فى نافلة بعد شروع المؤذن ، أبو داود: 1266 ، ترمذي: 419 ، أبو عوانة: 33/2]
امام نوویؒ نے احناف کے متعلق نقل کیا ہے کہ (ان کے نزدیک ) اقامت کے بعد (مسجد میں) فجر کی سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں لیکن فجر کی دوسری رکعت بھی فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔
[شرح مسلم: 241/3]
اس مسئلے میں فقہاء نے طویل بحث و تمحیص کی ہے کہ جسے کتب طوال میں دیکھا جا سکتا ہے۔
[نيل الأوطار: 313/2 ، المجموع: 550/3 ، روضة الطالبين: 435/1 ، رد المختار: 304/2 ، المغني: 119/2 ، كشاف القناع: 261/1 ، الهداية: 72/1 ، شرح مسلم: 241/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1