سوال:
مسلمان بیمار عورت کے لیے علاج معالجہ ، اور ٹیسٹ کروانے کے لیے مندرجہ ذیل ڈاکٹروں میں سے کسی کے پاس جانا جائز ہے: کافر آدمی ، کافرہ عورت یا ایسا آدمی جو مسلمان ہے لیکن نہ نماز پڑھتا ہے اور نہ روزہ رکھتا ہے؟
جواب:
جو نماز نہیں پڑھتا علماء کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ بلاشبہ وہ کافر ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
العهد الذى بيننا و بينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر [صحيح سنن الترمذي ، رقم الحديث 2621]
”ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان نماز قائم رکھنے کا عہد ہے ، جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا ۔ “ (اس کو ابوداود نے بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے )
صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس بين العبد و الكفر أو الشرك إلا الصلوة [صحيح ۔ سنن النسائي ، رقم الحدیث ، 464]
”ایک مؤمن بندے اور کافر یا مشرک کے درمیان نماز کا فرق ہے ۔“
لہٰذا یہ (بے نماز اور بے روزہ) اور وہ دونوں ہی کافر ہیں اور علاج کروانے کے لیے عورت کا محرم اس کو ساتھ لے کر جائے ، چاہے وہ مسلمان سے علاج کروائے یا کافر سے ۔ علماء فرماتے ہیں کہ مسلم ڈاکٹر سے علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن جب عورت کو مسلمان ڈاکٹر میسر نہ آئے تو وہ اپنے ولی کے ساتھ کافر ڈاکٹر کے پاس جائے بشرطیکہ اس میں اس کو کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اس مسئلہ میں شدت اور سختی نہ کریں ۔ پس لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو کہتا ہے: کہ میں اپنی بیوی کو کسی مرد (ڈاکٹر) کے پاس علاج کے لیے نہیں لے کر جاؤں گا ۔ یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تھا کہ ان کی عورتیں زخمیوں کو مرہم پٹی اور بیماروں کو دوائی پلاتی تھیں ، لیکن اپنا کہنے والا شخص اگر بالفرض خود بیمار ہو جائے اور بیماری کی شدت کی وجہ سے سخت تکلیف محسوس کرے تو ممکن ہے کہ وہ کسی مرد ، مسلمان عورت ، کافر عورت یا اس کے علاوہ بلا امتیاز کسی کے پاس بھی علاج کی غرض سے پہنچ جائے ، تو ہم اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنائیں گے:
لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه؟ [صحيح البخاري ، رقم الحديث 13 صحيح مسلم ، رقم الحديث 45]
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔“
اور جب ایمان کی مضبوطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی شخص ایسے معالج کے ملنے تک ، جس سے علاج کروانے میں وہ فتنہ سے محفوظ ہو ، بیماری پر صبر کر لے تو ٹھیک ہے (ورنہ وہ بحالت مجبوری مذکورہ ڈاکٹروں سے علاج کروالے ) ۔ اور جب انسان کو کوئی ایسی بیماری ہو جو طہارت میں خلل پیدا کرتی ہو جیسے سلسل البول (پیشاب کے قطرے گرتے رہنا ) حیض اور استحاضہ کا مسلسل جاری رہنا تو ایسی صورت میں آدمی پر ان بیماریوں کا علاج کروانا واجب ہو جاتا ہے چاہے وہ کسی کافر سے ہی کیوں نہ کرواے ۔
(مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ )