میلاد منانے کا حکم
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

میلاد منانے کا حکم
سوال: نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر جشن منانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ بدعت منکرہ ہے جس کو بنو بویہ نے چوتھی صدی ہجری میں ایجاد کیا تھا اور پھر یہ بدعت رواج پکڑ گئی اور بالآخر اکثر و بیشتر اسلامی ملکوں میں عام ہوگئی ۔ یہاں تک کہ یہ بدعت منکرہ رسم بن گئی اور اکثر اسلامی ملکوں کے علماء نے اسے تسلیم کر لیا ۔ اس بدعت کے بارے میں علماء کی خاموشی اور ان کی مشارکت کو عوام الناس نے اپنے لیے دلیل و حجت بنا لیا ، البتہ اس قبیل کے علماء اہل تحقیق اور اہل السنت والجماعت میں سے نہ تھے ، بلکہ یہ علماء سرکاری مولوی تھے جو حکمرانوں کا قرب چاہتے تھے ، جنہیں دنیا بے حد محبوب تھی اور انہیں (مخالفت کی شکل میں) دنیوی مفادات کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا ۔ البتہ اہل علم و فضل نے حکمرانوں اور نام نہاد علماء کے خلاف احتجاج کیا اور ان کے خلاف آواز اٹھائی ، حتی کہ انہیں بدعتی بھی قرار دیا اور ان پر واضح کر دیا کہ یہ ایسا کام ہے جس کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو خود ایسا کیا ، اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف راہنمائی کی اور نہ ہی خلفاء راشدین نے اس کام کو کیا اور نہ ہی صحابہ ، تابعین یا تبع تابعین نے ایسا کیا جن کا دور سب سے بہترین دور مانا اور سمجھا جاتا ہے ۔ اور اگر یہ نیکی کا کام ہوتا تو لازماًً وہ سب سے پہلے کرتے اس لیے کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے اپنے مابعد والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ محبت و الفت تھی ۔ اور یہی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت اور عمل بالسنۃ کے زیادہ پابند تھے ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایجاد کرنے والوں نے دین اسلام میں ایسے کام کا اضافہ کر دیا ہے جس کا اصلی دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اہل بدعت کا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا درحقیقت شریعت الہی پر ایک اعتراض ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ یوں کہہ رہے ہیں کہ اسلامی شریعت میں ایک کمی تھی جس کو انہوں نے اس جشن کے ذریعے سے مکمل کر دیا ہے ، حالانکہ ان کی یہ ساری محنت اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد [صحيح البخاري ، كتاب الصلح ، باب اذا اصطلحوا على جور ح 2550 ۔ صحيح مسلم كتاب الاقضية باب نقض الاحكام الباطلة ورد محدثات الامور ، ح 1718]
”جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ رد ہے ، یعنی قابل قبول نہیں ۔“
اہل بدعت اس کام کو بدعت حسنہ کہتے ہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر یہ ہماری فرحت و انبساط اور خوشی و مسرت کی دلیل ہے ۔ مولد نبوی پر اظہار خوشی و مسرت کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ خوشی مستقل ہو نہ کہ ہر سال کی ایک رات میں جشن منایا جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اسی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی ۔ اس اعتبار سے یہ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق پر حزن و غم اور رنج وطال منانے کی رات ہے ۔
اگر جشن مناتا ہی ہو تا تو جس رات آمینی ایم کو معراج پر لے جایا گیا اس رات جشن منایا جاتا یا جس رات آپ مریم پر وحی نازل کی گئی یا جس رات میں اللہ رب العزت نے حضور انور می ریم کو مشرکین مکہ اور کفار قریش کے مکرو فریب اور سُوء نیت سے نجات دی یا جس رات اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ بدر یا غزوہ حنین اور فتح مکہ میں مدد فرمائی یا پھر حجتہ الوداع کا عظیم دن تھا اور ان سے ملتے جلتے اور بہت سارے واقعات یادگار منانے کے قابل ہیں ۔ اور جب ان موقعوں پر کوئی جشن نہیں منایا گیا تو بات واضح ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر اظہار خوشی و مسرت کی شکل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے محبت و اطاعت تا زندگی کی جائے ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: