گناہ کبیرہ کا ارتکا ب کرنا

 

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

سوال: اہل السنت والجماعت کے نزدیک مرتکب کبیرہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا اہل السنت و الجماعت کے نزدیک فاسق یا ناقص الایمان ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا گناہ کبیرہ کا ارتکا ب کرنا اور اس پر اصرار کرنا نیز گناہ کبیرہ کے خطرناک و سنگین ہونے کے باوجود اس بارے میں سستی و کاہلی سے کام لینا (اور توبہ نہ کرنا) ہی کافی بڑا جر م ہے ۔ اسی لیے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں اس پر اللہ کا عذاب نہ آجائے بلکہ ہمیں تو اس کے بارے میں کفر وارتداد (ایمان لانے کے بعد کفر میں پلٹ جانا) کا بھی اندیشہ ہے ۔ چوں کہ گناہ کفر کی سیڑھی ہے (یعنی معاصی انسان کو بالآخر کفر تک پہنچا دیتے ہیں اور یہ معاصی (گناہ) صادر ہوتے رہتے ہیں اور دل پر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں ، نتیجتاً اس کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے اور جذبات کا زور انسان کو زنا ، نشہ آور چیزوں ، (شراب نوشی وغیرہ) گانا بجانا ، تکبر اور گھمنڈ اور پھر مسلمانوں پر زیادتی کرنا مثلاًً قتل وغارت گری ، لوٹنا چوری کرنا ، ڈکیتی کرنا ، تہمت زنا لگانا ، میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ اور پھر ان گناہوں کے استمرار و تسلسل کی وجہ سے طاعات و عبادات میں قلب و جوارح کی رفتار دھیمی پڑ جاتی ہے ، نتیجتا ، نماز ، صدقہ اور دیگر عبادات بوجھ معلوم ہونے لگتے ہیں ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی انسان کا عبادات الہیہ کو بوجھ سمجھنا ہی اس کے دین سے خارج ہونے کے لیے کافی ہے ۔ اور یہ خطرہ کی گھنٹی ہے اور احادیث میں بعض کبائر پر لفظ کفر استعمال کیا گیا ہے ۔ شاید اس میں یہی راز پنہاں ہو ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
سباب المسلم فسوق وقتاله كفر [صحيح مسلم ، كتاب الايمان ، باب بيان قول النبى صلى الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر ، ح 64]
”مسلمان کو گالی دینا اور برا بھلا کہنا فسق اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ۔“
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ:
لا يزني الزاني حين يزنى وهو مؤمن . . . الخ [صحيح مسلم كتاب الايمان باب بيان نقصان الايمان بالمعاصي ۔ ۔ ۔ ۔ ح 57]
”زنا کرنے والا زنا نہیں کرتا جس وقت وہ زنا کرتا ہے اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو ۔ ۔ ۔ “
(یعنی آدمی اُس وقت زنا کرتا ہے جب اس پر شیطانی شہوت غالب آجاتی ہے اور اس کے دل سے ایمان و یقین اور اللہ کا خوف اٹھ جاتا ہے اور وہ برائی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ اگر در حقیقت کسی انسان کے دل میں اللہ کا خوف ہو اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور وہ ہمیں یقیناًً اس کے بارے میں بروز قیامت باز پرس کرے گا تو وہ ہرگز برائی کے قریب نہیں جائے گا ، چہ جائیکہ وہ برائی و فحش کاری کا ارتکاب کرے ۔ مترجم)
تو ہم اہل السنت والجماعت کا کہنا ہے کہ اس کردار کے آدمی کا ایمان ناقص ہے یا پھر وہ اللہ یوم آخرت کتابوں اور رسولوں کی دل سے تصدیق کرنے کی وجہ سے مؤمن ہے ، لیکن ارتکا ب گناہ اور اس معاملے میں سستی کی وجہ سے وہ فاسق ہے اور خوارج نے اس بارے میں تشدد سے کام لیا ہے اور کبیرہ گناہ کرنے والے کو کافر قرار دیا ہے ۔
اور معتزلہ نے کبیرہ گناہ کرنے والے کو خارج از ایمان تو قرار دیا ہے ، لیکن کافر نہیں کہا ، لیکن یہ شخص معتزلہ کے نزدیک ہمیشہ جہنم میں رہے گا ۔
البتہ فرقہ ”مرجہ“ کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب کامل الایمان ہے اور ان کے نزدیک ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کا کوئی نقصان نہیں ، جیسا کہ کفر کے ساتھ عمل صالح نافع و مفید نہیں ۔
اور اہل السنت و الجماعت نے راہ اعتدال اختیار کرتے ہوئے اس کو فاسق قرار دیا ہے ۔ اور ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ آخرت میں مشیت الہی کے تحت ہوگا یعنی اگر اس کو اس کے کبیرہ گناہ کے سبب جہنم میں داخل کر دیا گیا تو بالآخر وہ ضرور نجات پائے گا خواہ کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت سے یا ارحم الراحمین کی رحمت سے ۔ البتہ اس کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملے گی ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء