نماز میں قرآن سے دیکھ کر قرأت کرنا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا نفل نماز (جیسے تراویح) میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرأت کی جا سکتی ہے ؟ احناف اس کے قائل نہیں، قرآن و سنت کی رو سے مسئلہ واضح فرما دیں۔
جواب : نماز میں قرآن مجید اٹھا کر قرأت کرنا جائز و درست ہے لیکن اسے معمول نہیں بنانا چاہئیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری میں ہے :
وَكَانَتْ عَائِشَةُ يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ [ بخاري قبل الحديث 692 كتاب الأذان : باب إمامة العبد والمولي ]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کرواتا تھا۔“
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح کرتے ہوئے فتح الباری میں رقمطراز ہیں :
وَصَلَهُ اَبُوْدَاؤُدَ فِيْ كِتَابِ الْمَصَاحِفِ مِنْ طَرِيْقِ اَيُّوْبَ عَنِ ابْنِ اَبِيْ مُلَيْكَةَ . . .
” امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کتاب المصاحف میں اس اثر کو بطریق ایوب عن ابن ملیکہ اور اسی طرح ابن ابی شیبہ نے وکیع عن ھشام بن عروہ عن ابن ابی ملیکہ اور امام شافی اور امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے واسطوں سے موصولاً بیان کیا ہے۔ “
◈ امام مروزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سُئِلَ ابْنُ شِهَابٍ عَنِ الرَّجُلِ يَؤُمُّ النَّاسَ فِيْ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ قَالَ مَا زَالُوْا يَفْعَلُوْنَ ذٰلِكَ مُنْذُ كَانَ الْاِسْلَامُ كَانَ خِيَارُنَا يَقْرَءُوْنَ فِي الْمَصَاحِفِ [ قيام الليل ص/168 ]
”امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو رمضان میں لوگوں کی امامت قرآن سے دیکھ کر کرتا تھا تو امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا : ”جب سے اسلام آیا ہے اس وقت سے وہ لوگ جو ہم سے بہتر تھے قرأت قرآن مجید سے کرتے رہے ہیں۔“
اس کے علاوہ امام مروزی رحمہ اللہ نے امام ابراہیم بن سعد، قتادہ، سعید بن مسیّب، ایوب، عطاء، یحییٰ بن سعید، عبداللہ بن وہب اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (رحمۃ اللہ علہیم) سے اس کا جواز نقل کیا ہے۔ نماز میں قرآن مجید سے قرأت کرنے سے امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما نے اس مسئلے میں ان کی مخالفت کی ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے :
وَاِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ مِنَ الْمُصْحَفِ فَسَدَتْ صَلَاتُهُ عِنْدَ اَبِيْ حَنِيْفَةَ وَقَالَا هِيَ تَامَّةٌ [الهداية 137/1 ]
” جب امام قرآن مجید کو دیکھ کر قرآت کرے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے جب کہ ان کے شاگرد وں کے نزدیک نماز مکمل ہو جاتی ہے۔ “
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر تعجب ہے کہ ان کے نزدیک اگر نمازی قرآن دیکھ کر قرأت کرے تو نماز فاسد لیکن اگر نماز میں کسی عورت کی طرف بنظر شہوت دیکھے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
وَلَوْ نَظَرَ الْمُصَلِّيْ اِلَي الْمُصْحَفِ وَقَرَأَ مِنْهُ فَسَدَتْ صَلَاتُهُ لَا اِلٰي فَرْجِ امْرَأَةٍ بِشَهْوَةٍ [ الأشباه والنظائر ص : 418 ]
”اگر نمازی نے قرآن سے دیکھ کر قرأت کی تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی لیکن اگر کسی عورت کی طرف بنظرِ شہوت دیکھا تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔“
علمائے احناف کا اسے عمل کثیر کہہ کر رد کرنا تحکم اور سراسر باطل ہے، اگر اتنے عمل کو عمل کثیر کہہ کر نماز کو باطل قرار دے دیں تو اس قدر عمل کثیر نماز کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں آتا ہے :
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، ” أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا [بخاري، كتاب الصلاة : باب إذا حمل جارية صغيرة على عنقه فى الصلاة 516 ]
”حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے اٹھائے رہتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیع بن عبد شمس کی حدیث میں ہے کہ جب سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔“
❀ ایک اور حدیث میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : ” نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ فَأَخَذَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ [بخاري، كتاب الأذان : باب إذا قام الرجل عن يسار الامام فحوله الامام إلى يمينه لم تفسد صلاتهما 698 ]
” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں سویا ہوا تھا، اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔“
ان ہر دو حدیثوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامہ بنت زینب کو اٹھا کر نماز پڑھنا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بائیں طرف سے دائیں طرف کرنا عمل کثیر نہیں اور اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو قرآن مجید کو دیکھ کر قرأت کرنا بھی عمل کثیر نہیں اور نہ اس سے نماز فاسد ہی ہوتی ہے۔ عمل کثیر احناف کا من گھڑت مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور تعجب اس بات پر ہے کہ حنفی اس قانون کی خود بھی کئی مقامات پر مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ درمختار میں لکھا ہے :
”کتے کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔“ [ در مختار ص/20 ]
اور منیۃ المصلی میں ہے : ”نماز میں ٹھہر ٹھہر کر جوئیں مارنا عمل کثیر نہیں۔ “ [منية المصلي ص/100 ]
احناف وغیرہ کا وتیرہ ہے کہ جو حدیث امام کے قول کے خلاف ہو اسے حیلوں کے ذریعے رد کر دیتے ہیں اور جو امام کے قول کے مطابق ہو خواہ وہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو وہ ان کے ہاں حجت ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ اس کی مثالیں احناف کی معتبر کتب نور الأنوار، اصول الشاشی اور اصول بزدوی وغیرہ میں موجود ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: