سوال : کیا مسافر آدمی مقیم افراد کی جماعت کروا سکتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب : اگر کوئی شخص کسی قوم کے ہاں مہمان بنے تو وہ ان کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو انہیں نماز پڑھا سکتا ہے اور جب مسافر مقیم کی امامت کرائے اور دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم اٹھ کر اپنی بقیہ دو رکعتیں
پوری کرے۔ اس سے مقیم کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
ابوعطیہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے پاس نماز کی جگہ آئے، ایک دن نماز کا وقت آ گیا، ہم نے انہیں
کہا کہ تم آگے بڑھو تو انہوں نے کہا: تم میں سے کوئی شخص آگے بڑھے حتیٰ کہ میں تمہیں بیان کروں کہ میں آگے کیوں نہیں بڑھتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّهُمْ وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِّنْهُمْ [ ترمذي، أبواب الصلاة : باب ما جاء فيمن زار قوم لا يصلي بهم 356، ابن خزيمة 1520، بيهقي 126/3، نسائي 786، أبوداؤد 596، أحمد 436/3]
”جو آدمی کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کروائے بلکہ ان میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرائے۔ “
اس کی سند میں ابوعطیہ ہے جس کے بارے میں امام ابوحاتم، امام علی بن مدینی اور یحٰیی القطان نے کہا ہے کہ یہ مجہول ہے لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کی تحسین اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ نیز اس حدیث کے بعض شواہد بھی ہیں۔
نافع سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی ایک جانب مسجد میں نماز کے لیے اقامت کہی گئی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس مسجد کے قریب زمین تھی جس میں وہ کام کر رہے تھے اور اس مسجد کا امام ان کا غلام تھا۔ اس غلام اور اس کے ساتھیوں کا مسکن بھی وہیں ہی تھا۔ جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سنا تو ان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لائے تو مسجد کے امام نے انہیں کہا کہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تُصَلِّيَ فِيْ مَسْجِدِكَ مِنِّيْ فَصَلَّي الْمَوْلٰي [كتاب الأم 158/1، بيهقي 126/3، كتاب الصلاة : باب الإمام الراتب أولي من الزائر]
”تم اپنی مسجد میں نماز پڑھانے کے مجھ سے زیادہ حق دار ہو“ پس پھر غلام نے نماز پڑھا دی۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مقرر امام امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے اور دوسرے شخص کو اس کے ہوتے ہوئے نماز نہیں پڑھانی چاہیے، ہاں اگر مقرر امام کسی دوسرے شخص کو اجازت دے دے تو وہ نماز پڑھا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
و لا يحل لرجل يؤمن بالله و اليوم الآخر أن يؤم قوما إلا باذنهم [ابو داؤد، كتاب الطهارة : باب يصلي الرجل و هو حاقن91، بيهقي 129/3]
”کسی شخص کے لیے حلال نہیں جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ کسی قوم کی امامت کروائے مگر ان کی اجازت کے ساتھ۔ “
ایک حدیث میں ہے :
و لا يؤم الرجل فى سلطانه و لا يجلس على تكرمته فى بيته إلا باذنه [ترمذي، ابواب الصلاة: باب ما جاء من أحق بالإمامة 235، أحمد 272/5، نسائي 779، أبوداؤد582، 583، 584، ابن ماجه 980، أبوعوانة 36/2، حميدي 457، عبدالرزاق 3809، حاكم 243/1، شرح السنة 394/3]
”کوئی آدمی دوسرے آدمی کی حکومت میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ (مسند وغیرہ پر) بیٹھے مگر صرف اس کی اجازت کے ساتھ۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقرر امام کسی آنے والے شخص کو امامت کی اجازت دے دے تو وہ شخص نماز پڑھا سکتا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہلِ علم کا اس پر عمل ہے۔
مزید لکھتے ہیں :
”امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ کوئی آدمی کسی آدمی کی حکو مت وسلطہ والی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کی عزت والی جگہ بیٹھے مگر اس کی اجازت سے، یہ اجازت امامت اور عزت والی جگہ دونوں کے متعلق ہے اور جب اسے نماز پڑھانے کی اجازت دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ “ [ترمذي، ابواب الصلاة 1/ 461، بتحقيق احمد شاكر]
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے جو بات استنباط کی ہے یہ اس حدیث کی بعض روایات میں بطورِ نص واقع ہوئی ہے جیسا کہ نیل الاوطار میں ہے :
وَلَا يَؤُمُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِيْ سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدُ عَلٰي تَكْرِمَتِهِ فِيْ بَيْتِهِ اِلَّا بِاِذْنِهِ [ نيل الاوطار 192/3]
”کوئی شخص دوسرے شخص کی سلطنت میں اس کی امامت نہ کرائے مگر اس کی اجازت کے ساتھ اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے مگر اس کی اجازت کے ساتھ۔ “
پس اجازت ان دونوں صورت میں ہے یعنی صاحبِ بیت کی اجازت سے اس کی مسند پر بھی بیٹھ سکتا ہے اور آدمی کی حکو مت والی جگہ اس کی اجازت سے امامت بھی کرا سکتا ہے۔
مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ مسافر اور زائر آدمی مقیم کی اجازت سے نماز پڑھا سکتا ہے، اس میں شرعی طور پر رخصت ہے، اگرچہ زیادہ حق مقرر امام کا ہے اور جب مسافر مقیم امام کی اجازت سے نماز پڑھائے اور وہ قصر کرنا چاہتا ہو تو مقیم کھڑے ہو کر اپنی نماز پوری کر لیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلّٰي بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ مَكَّةَ ! اَتِمُّوْا صَلَاتَكُمْ فَاِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ [ مؤطا، كتاب قصر الصلاة فى السفر : باب صلاة المسافر إذا كان إمامأو كان وراء الامام 19، بيهقي 126/3، نصب الراية 187/2]
”بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب مکہ تشریف لاتے تو انہیں دو رکعت پڑھاتے پھر کہتے : ”اے مکہ والو ! اپنی نماز پوری کر لو، بلاشبہ ہم مسافر قوم ہیں۔ “
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر غزوہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر میں آپ کے ساتھ حاضر تھا، آپ مکہ میں 18 راتیں مقیم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعت نماز پڑھتے اور فرماتے :
”اے شہر والو ! تم چار رکعات پڑھو، بے شک ہم مسافر قوم ہیں۔“ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب متي يتم المسافر 1229، بيهقي 157/3، دلائل النبوة 105/5] اس کی سند میں على بن زید بن جدعان راوی کمزور ہے۔
صفوان سے روایت ہے : ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے آئے تو انہوں نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر دیا۔ ہم کھڑے ہو گئے اور ہم نے اپنی نماز مکمل کی“۔ [مؤطا، كتاب قصر الصلاة فى السفر 21]
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسافر نماز پڑھائے تو اگر وہ دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم آدمی کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کر لیں۔
اس میں شرعی طور پر رخصت ہے، اس سے مقیم لوگوں کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر کسی قسم کا خلل واقع ہوتا تو خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا نہ کرتے، جو لوگ اس بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں ان کا یہ رویہ نامناسب ہے۔ جب شریعت میں رخصت موجود ہے تو اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور مسافر کی اقتدا میں مقیم کی نماز بالاتفاق صحیح ہے اور میرے علم میں کسی اہلِ علم نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔
مزید تفصیل کے لیے فقہ حنفی کی کتاب قدوری، باب صلاۃ المسافر ص : 53، فقہ حنبلی کی کتاب المغنی 146/3، فقہ شافعی کی کتاب الأم اور فقہ مالکی کے لیے مؤطا ملاحظہ ہو۔