بهيمة الأنعام (قربانی کا جانور) کا معنی و مفہوم
تحریر: عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ

بهیمۃ الأنعام کے مفہوم اور قربانی کے احکام کی وضاحت

قربانی کے سلسلہ میں کتاب و سنت میں جہاں بہت سے احکام و مسائل کی رہنمائی امت کو دی گئی ہے وہیں بدیہی طور پر قربانی کے جانوروں کے اقسام و انواع – یعنی کن جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے ان کی بھی نشاندہی اور وضاحت کی گئی ہے ۔
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کی قربانی مشروع فرمائی ہے انہیں بهمة الانعام کانام دیا ہے ۔ جیسا کہ متعدد آیات میں ارشاد ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ [الحج: 34]
”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يعني: الإبل والبقر والغنم ، كما فصلها تعالى فى سورة الأنعام وأنها ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ [الانعام: 143]
یعنی اونٹ ، گائے اور بکرا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ وہ ”نر و ماندے“ آٹھ ہیں ۔
نیز ارشاد ہے:
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ [الحج: 28]
”اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔“
نیز ارشاد ہے:
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎ ﴿١٤٣﴾‏ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [الانعام: 143 ، 146]
” (پیدا کیے) آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مارہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو ۔ اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا؟ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعال پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگانے ، تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناًً اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھلاتا“ ۔
نیزر ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ [الزمر: 4]
”اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے۔“

بهيمة الأنعام کا لغوی مفہوم:

اولا: بهيمة
بهيمة کا لغوی مفہوم:
بهيمة کا لفظ بھم ، اور ابھام سے ماخوذ ہے جس کے معنی پو شیدگی ، اخلاق ، اور عدم وضوح کے ہیں ،
علمائے لغت کہتے ہیں:
كل حي لا يميز فهو بهيمة [تهذيب اللغة 178/6 , ولسان العرب 56/12 و المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 65/1]
”ہر زندہ جو تمیز نہ کر سکے وہ بہیمہ ہے“ ۔
اور اس بہیمہ کی صفت و کیفیت کے بارے میں علمائے لغت نے صراحت کی ہے کہ وہ چار پیروں کا جانور ہے خواہ خشکی میں ہو یا تری میں ، چنانچہ علامہ زبیدی فرماتے ہیں:
البهيمه كسفينة: كل ذات أربع قوائم ولؤ فى الماء [تاج العروس 307/31 ، نيز ديكهئے: تہذیب اللغة 179/6 ، والمصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 65/1 ، الكليات ص: 226 ، وحياۃ الحیوان الكبري ، 228/1 ، ومعجم اللغة العربية المعاصرہ 257/1 ۔ نيز ديكهئے تفسير القرطبی 34/6 نيز فتح القدیرشوکانی 6/2 و روح البيان 337/2 ، وتفسیر الکاشف للزمخشري 601/1]
”بہیمہ سفینہ کے وزن پر ہے جو ہر چو پائے کو کہا جاتا ہے خواہ وہ پانی کا بھی ہو“ ۔
اور علامہ نواب محمد صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
والبهيمة اسم لكل ذي أربع من الحيوان لكن خص فى التعارف بما عدا لسباع والضواري من الوحوش فتح البایان فی مقاصد القرآن 322/3
”بہیمہ ہر چوپایہ جانور کا نام ہے لیکن عرف عام میں ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جو درندے اور خونخوار جنگلی نہ ہوں“ ۔
اور علامہ محمد محمود حجازی لکھتے ہیں:
وخصها العرف بذوات الأربع من حيوان البر والبحر التفسیر الواضح 474/1
”عرف نے اسے خشک اور سمندر کے چار پائے جانوروں کے ساتھ خاص کر دیا ہے ۔“

بهيمه کی وجہ تسمیہ:

علمائے لغت بہیمہ کی و جہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وإنما قيل له: بهيمة لانه أبهم عن أن يميز [تہذیب اللغة 178/6 ۔ ولسان العرب 56/12 ۔ والمصباح المنير فى غريب الشرج البير 65/1]
”اسے بہیمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اسے تمیز کرنے سے مبہم ، بند اور محروم کر دیا گیا ہے“ ۔
علامہ محمد بن ابو الفتح بعلی فرماتے ہیں:
سميت البهيمۃ بذلك ؛ لأنها لا تتكلم [المطلع على الفاظ المقنع ص: 157]
”اسے بہیمہ اس لئے کہا جا تا ہے کہ وہ بات نہیں کرتا“ ۔
علامہ دمیری فرماتے ہیں:
سميت بہیمۃ لإبھامها ، من جهة نقص نطقها وفهمها ، وعدم تمييزها وعقلها [حياۃ الحیوان الكبري 228/1 ، نيز ديكهئے: انظم المستعذب فی غريب الفاظ المہذب 223/1 و الكیات ص: 226 تاج العروس 307/31 ، والمزہر فی علوم اللغۃ وأنواعها 315/1 ، والتفسیر الواضح 474/1]
”بہیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی اور سمجھ کی کمی اور عقل و تمیز سے محرومی کے اعتبار سے بند اور مبہم ہوتا ہے“ ۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ عسکری لکھتے ہیں:
وسميت البهيمة بھيمة لأنها أبھمت عن العلم والفهم ولا تعلم ولا تفهم فهي خلاف الإنسان والإنسانية خلاف البهيمية فى الحقيقة وذلك أن الإنسان يصح أن يعلم إلا أنه ينسى ما علمه والبهيمة لا يصح أن يعلم [الفروق اللغويته للعسكري ص: 274]
بہیمہ کا نام بھیمہ اسی لئے ہے کہ اسے علم اور سمجھ بوجھ سے بند رکھا گیا ہے، نہ وہ جان سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے ، بلکہ وہ انسان کے خلاف ہے، اور درحقیقت انسانیت بھیمیت کے خلاف ہے ، کیونکہ انسان علم کے قابل ہے ، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ معلومات کو بھول بھی جاتا ہے لیکن بھیمہ تو علم کے قابل ہی نہیں ہے ۔
اور اسی بات کی وضاحت مفسرین نے بھی فرمائی ہے ، چنانچہ علامہ بغوی فرماتے ہیں:
سميت بهيمة لأنها أبھمت عن التمييز ، وقيل: لأنها لا تطق لها [تفسير البغوي ، ط دارطيبته 2 /7 نيز ديكهئے: تفسير ابن عطية ، 145/2 ، وتفسير البيضاوي ، 113/2]
بھیمہ کو بھیمہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ و تمیز سے محروم ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گویائی سے محروم ہے۔

علام نواب صدیق حسن خان قنوجی فرماتے ہیں:
وإنماسميت بذلك لإبھامها من جهة نقص نطقها وفهمها وعقلها ، ومنه باب مبهم أى مغلق ، وليل يتيم [فتح البيان فى مقاصد القرآن 322/3]
اسے بہیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی ، عقل اور سمجھ کی کمی کے اعتبار سے ، بند اور
مبہم ہوتا ہے ، اور اسی سے ”باب مبہم“ ہے یعنی بند دروازہ ، اور ”لیل بہیم“ ہے یعنی بالکل گھپ اندھیری رات ۔
اور امام قرطبی ، علامہ شوکانی اور ابن عطیہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
سميت بذلك لإ بهامها من جهة نقص تطقها وفهمها وعدم تمييزها وعقلها ، ومنه باب مبهم أى مغلق ، وليل بهيم ، وبهيمته للشجاع الذى لا يدرى من أين يؤتى له [تفسير القرطبي 6 /34 فتح القدير للشوكافي 6/2 ، والمحررالوجيز فى تفسير الكتاب العزيز ، لابن عطيه 145/2]
بھیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی اور سمجھ کی کمی اور عقل و تمیز سے محرومی کے اعتبار سے ، بند اور مبہم ہوتا ہے ، اور اسی سے ”باب مبہم“ ہے یعنی بند دروازوہ ، اور ”لیل بہیم“ ہے یعنی بالکل اندھیری رات ، اور بھیمتہ اس بہادر اور پہلوان کو کہتے ہیں ، کہ سمجھ میں آئے کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے ۔
اور صاحب ”الکلیات“ علامہ ابوالبقا کفوی فرماتے ہیں:
البهيمة: كل حي لا عقل له ، وكل ما لانطق له فهو بھیمة ، لما فى صوته من الإبهام ، ثم اختص هذا الإسم بذوات الأربع ولو من دواب البحر ، ما عدا السباع [ديكهئے: الكليات ، ص 226]
بھیمہ: ہر جاندار جسے عقل نہ ہو اور جسے گویائی نہ ہو وہ بھیمتہ ہے ، کیونکہ اس کی آواز میں ابہام ہوتا ہے ، پھر اس نام کو چوپایوں نے لئے خاص کر لیا گیا ، خواہ وہ سمندری جانور ہو ، سوائے
درندوں کے ۔
اور اسی بات کی و ضاحت دیگر علمائے تفسیر اور شارحین حدیث نے بھی فرمائی ہے ۔ [تفسير القرطبي 6/ 34 ، واتفسير الميز للزحيلي 64/6 ، و عمدة القاري شرح صحيح البخاري 10 /56 ، و ڈخيرة العقبي فى شرح المجبتي 36 /305]

ثانیا: ”الأنعام“ :
”الانعام“ کا لغوی مفہوم:
انعام کا واحد نعم صرف اونٹ کو کہتے ہیں ، اور انعام اونٹ ، گائے اور بکری سب پر بولا جاتا ہے ، بشرطیکہ اس میں اونٹ بھی ہو ، ورنہ نہیں ۔

علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں:
قال ابن الأعرابي: القيم الإبل خاصة ، والأنعام الإبل والبقر والغنم [لسان العرب 585/12 نيز ديكهئے: المحكم و المحيط الاعظم 198/2]
ابن الاعرابی کہتے ہیں: نعم خصوصیت کے ساتھ اونٹ کو کہتے ہیں جبکہ انعام اونٹ ، گائے اور بکری پر بولا جاتا ہے ۔

امام ابن فارس فرماتے ہیں:
والنعم: الإبل ، قال الفراء: هو ذكر لا يؤنث ، . . . ويجمع أنعاما ، والأنعام: البهائم [مجمل اللغة الابن فارس ص: 874]
نعم اونٹ کو کہتے ہیں ، فراء کہتے ہیں: یہ مذکر ہے اس کا مونث نہیں آتا ، ۔ ۔ ۔ اس کی جمع انعام ہے ، اور انعام چوپایوں کو کہا جاتا ہے ۔

علامہ ابو نصر جوہری فارابی لکھتے ہیں:
والنعم: واحد الأنعام ، وهى المال الراعية وأكثر ما يقع هذا الاسم على الإبل [الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية 5/ 2043 ، نيز ديكهئے المصباح المنير فى غريب اشرح الكبير 2/ 613 ، والعين 162/2]
نعم انعام کی واحد ہے ، یہ چرنے والے جانوروں پر بولا جاتا ہے ، اور اس نام کا زیادہ تر اطلاقی اونٹ پر ہوتا ہے ۔

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
لكن اللانعام تقال للإبل والبقر والغنم ، ولا يقال لها أنعام حتى يكون فى جملتها الإبل [المفردات فى غريب القرآن ص: 815]
لیکن انعام کا لفظ اونٹ ، گائے اور بکری پر مشترکہ بولا جاتا ہے ، انعام نہیں کہا جا سکتا یہاں تک کہ ان میں اونٹ بھی ہو ۔
علامہ ابوالعباس احمد فیوی حموی لکھتے ہیں:
يطلق الأنعام على هذه الثلاثة فإذا انفردت الإبل فهي نعم وإن انفردت الغنم والبقر لم تسم نعما [المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 2 / 613 ، نيز ديكهئے: التعريفات الفقهيته ، ازمحمد عميم بركتي ص: 37]
انعام کا لفظ ان تینوں (اونٹ ، گائے اور بکری ) پر بولا جاتا ہے ، اور جب اونٹ الگ ہو تو وہ نعم ہے ، اور اگر گائے اور بکری الگ ہوں تو انہیں تم نہیں کہا جائے گا ۔

دکتور سعدی حبیب لکھتے ہیں:
النعم: الابل ، والبقر ، والغنم مجتمعة ، فإذا انفردت البقر ، والغنم لم تسم نعما ، ج: أنعام [القاموس الفقهي ص: 355 ، نيز ديكهے: المطلع على الفاظص: 157 ، وتفسير غريب مافي الصحيحين البخاري و مسلم ص: 394]
نعم: اونٹ ، گائے اور بکری کو اجتماعی طور پر کہا جاتا ہے ، اگر گائے اور بکری الگ ہو جائے تو انہیں نعم نہیں کہا جائے گا ، اس کی جمع انعام ہے ۔
خلاصہ کلام اینکہ نعم اور انعام میں اہل عرب کے یہاں فرق ہے ، چنانچہ فرق نہ کرنے والوں کی تردید کرتے ہوئے علامہ قاسم بن علی حریری بصری فرماتے ہیں:
وكذلك لا يفرقون بين النعم والأنعام وقد فرقت بينهما العرب ، فجعلت النعم اسما للابل خاصة وللماشية التى فيها الإبل وقد تذكر وتؤنث ، وجعلت انعام اسما لأنواع المواشي من الإبل والبقر والغنم ، حتى أن بعضهم أدخل فيها الظباء وحمر الو ش [درة الغواص فى اوبام الخواص ص: 240]
اسی طرح لوگ نعم اور انعام میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ عربوں نے دونوں میں فرق کیا ہے ، چنانچہ خصوصیت کے ساتھ صرف اونٹ کو ، اور اسی طرح جن مویشیوں میں اونٹ بھی ہو ، انہیں نعم کانام دیا ہے ، اور یہ مذکر اور مونث بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور مویشیوں کی مختلف قسموں مثلاًً اونٹ ، گائے اور بکریوں کو انعام کانام دیا ہے ، حتی کہ بعض لوگوں نے میں اس میں ہرنوں اور وحشی گدھوں کو بھی داخل کیا ہے ۔

الأنعام کی وجہ تسمیہ:
1۔ ”نعم“ نعومت سے ماخوذ ہے جس کے معنی نرمی کے ہوتے ہیں ، چونکہ قربانی کے ان جانوروں کی چالوں میں نرمی ہوتی ہے اس مناسبت سے انہیں بہیمہ کے ساتھ ”انعام“ سے مخصوص کیا گیا ، (یعنی نرم چال والے چوپائے) ، جیسا کہ اہل علم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے ۔ چنانچہ علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
سميت بذلك للين مشيها [تفسير القرطبي 6/ 34 ، نيز ديكهئے: ذخيرة اعقبي فى شرح المجتبي 305/36]
انہیں ان کی نرم چال کی وجہ سے ”انعام“ کہا گیا ہے ۔

اسی طرح امام شوکانی فرماتے ہیں:
سميت بذلك لما فى مشيها من اللين [فتح القدير الشوكاني 6/2]
انہیں اس لئے انعام کہا گیا ہے کہ ان کی چالوں میں نرمی پائی جاتی ہے ۔

اسی طرح علام نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
سميت بذلك لما فى مشيها من اللين [فتح البيان فى مقاصد القرآن 323/3]
انہیں انعام کہے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی چالوں میں نرمی ہوتی ہے ۔

2۔ جبکہ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ ”انعام“ نعمت سے ماخوز ہے ، اور نعم کا لفظ اہل عرب خاص اونٹوں پر بولا کرتے تھے ، کیونکہ اونٹ ان کے یہاں مقیم نعمت تھا ۔
علامہ ابن فارس لکھتے ہیں:
والنعم: الإبل ، لما فيه من الخير والنعمة [مقاييس اللغته 446/5]
نعم: اونٹ ہے ، کیونکہ اس میں خیر نعمت ہے ۔

علامہ محمد بن محمد مرتضی زیبدی فرماتے ہیں:
إنما حصت النعم بالإبل لكؤنھا عندهم أعظم نعمة [تا ج العروس 510/33]
نعم کو اونٹ کے ساتھ اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ وہ عربوں کے یہاں سب سے بڑی نعمت تھا ۔

علامہ عبد القادر عمر بغدا دی لکھتے ہیں:
النعم مختص بالإبل قال: وتسميته بذلك لكون الإبل عندهم أعظم نعمته [خزانه الادب ولب لباب السان العرب للبغدادي 408/1]
نعم: اونٹ کے ساتھ خاص ہے ، اور نعم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اونٹ ان کے یہاں مقیم ترین نعمت تھا ۔

امام عبد الرؤوف مناوی فرماتے ہیں:
والنعم مختص به الإبل سميت به لكونھا عندهم من أعظم النعم [التوقيف على مهمات التعاريف ص: 327]
او نعم اونٹ کے ساتھ خاص ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اونٹ عربوں کے یہاں ایک عظیم نعمت تھا ۔

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
وتسميتہ بذلك لكون الإبل عندهم أعظم نعمة [المفردات فى غريب القرآن 815]
نعم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اونٹ ان کے یہاں عظیم ترین نعمت تھا ۔

3۔ ”الانعام“ بھیمتہ کی وضاحت اور بیان ہے:
علام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والبهيمة مبهمة فى كل ذات أربع فى البر والبحر ، فبينت بالأنعام ، وهى الإبل والبقر والضأن والمعز التى تنحر فى يوم العيد وما بعده من الهدايا والضحاياه [فتح البيان فى مقاصد القرآن 42/9 نيز ديكهئے: 49/9]
بہیمہ خشکی و سمندر کے چوپایوں میں مبہم ہے ، لہٰذا انعام کے ذریعہ اس کی وضاحت کی گئی ، اور وہ اونٹ ، گائے مینڈھا اور بکری ہیں ، جنہیں عید الضحی کے دن اور اس کے بعد ہدی اور قربانی وغیرہ کی شکل میں ذبح کیا جاتا ہے ۔

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقيدها بانعم لأن من البهائم ما ليس من الأنعام كالخيل والبغال والخمير ، لا يجوز ذبحها فى القرابين [تفسير البغوي 3 /340 ۔ ]
بہیمہ کو نعم سے مقید کر دیا ، کیونکہ کچھ بہائم ایسے بھی ہیں ، جو انعام نہیں ہیں ، جیسے گھوڑے ، خچر اور گدھے ، انہیں قربت کے کاموں میں ذبح کرناجائز نہیں ۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
البهيمة كل ذات أربع واضافتها إلى الأنعام للبيان . . . فالبهيمة أعم من الانعام لان الانعام لا تتناول غير الأنواع الأربعة من ذوات الأربع [روح البيان 2 / 337]
بہیمہ ہر چوپائے کو کہا جاتا ہے ، اور انعام کی طرف اس کی اضافت بیان و وضاحت کے لئے ہے ۔ ۔ ۔ چنانچہ بہیمہ انعام سے عام تر ہے ، کیونکہ انعام میں چاروں کے علاوہ دیگر چوپائے نہیں آئے ۔

علامہ زمخشری تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں:
البهيمة: كل ذات أربع فى البر والبحر ، وإضافتها إلى الأنعام للبيان ، وهى الإضافة التى بمعنى ”من“ كخاتم فضة ومعناًً ه: البهيمة من الأنعام [الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل 1 / 601]
بہیمہ: کشتی اور سمندر کے ہر چوپائے کو کہا جاتا ہے ، اور انعام کی طرف اس کی اضافت بیان و وضاحت کے لئے ہے، یعنی وہ اضافت جو ”من“ (سے ) کے معنی میں ہے ، جیسے کہا جاتا ہے: چاندی کی انگوٹھی اور اس کا معنی ہے: انعام میں سے بہیمہ ۔

4۔ ”الانعام“ کی تفسیر میں علمائے مفسرین کے مجموعی طور پر تین اقوال میں ، چنانچہ امام قریبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وللعلماء فى الأنغام لا أقوال: أخذها- أن الأنعام الإبل خاصة وسيأتي فى النخل بيانہ . الثاني أن الأنعام الإبل وخدها ، وإذا كان معها بقر وعنهم فهي أنعام أيضا . الثالث وهو أصحها قال أحمد بن يحيى: الأنعام کل ما أحلہ الله عز وجل من الحيواني . ويدل على صحة هذا قول تعالى: أحلت لکم يھيمة الأنعام إلا ما يتلى علىیکم [تفسير القربي 111/7]

انعام کے سلسلہ میں علماء کے تین اقوال ہیں:
◈ انعام سے مراد خصوصیت کے ساتھ اونٹ ہیں، سورہ النحل میں اس کا بیان آئے گا ۔
◈ انعام صرف اونٹ کو بھی کہتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ گائے ، بکریاں ہوں تب بھی وہ انعام ہیں ۔
◈ اور صحیح ترین ہے ۔ احمد بن ییحی فرماتے ہیں: انعام ہر اس جانور کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ۔ اور اس قول کی صحت کی دلیل ، فرمان باری: ”تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں بجزان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے“ ہے ۔

نیز امام الجوزی رحمہ اللہ سورۃ المائدہ کی اس پہلی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
بہیمتہ الانعام میں تین اقوال ہیں:
◈ مویشیوں کے بچے جو ماؤں کو ذبح کئے جانے کی صورت میں ، ان کے پیٹ میں مردہ پائے جاتے ہیں ۔ (ابن عمرو ابن عباس رضی اللہ عنہم )
◈ یہ اونٹ ، گائے اور بکریاں ، (حسن قتادہ سدی رحمہم للہ ) اور ربیع فرماتے ہیں: کہ اس میں سارے انعام مراد ہیں ۔ اور ابن قتیبہ فرماتے ہیں: اس سے مراد اونٹ ، گائے ، بکریاں اور تمام وحشی جانور ہیں ۔
◈ اس سے مراد وحشی چوپائے ہیں ، جیسے وحشی گائیں، ہرنیں اور وحشی گدھے ۔ [زاد المسير فى علم التفسير 1 / 506 نيز ديكهئے: تفسير الماوردي ”النكت العيون“ 6/2]
اسی طرح امام ابن جریر طبری اور علامہ ابن عطیہ رحمہما اللہ نے بھی اس سلسلہ میں کئی اقوال نقل فرمائے ہیں ۔ [ديكهئے تفسير طبري ، تحقيق شاكر 455/9 ، وتفسير ابن عطيه 114/2]

اور پھر امام طبری رحمہ اللہ نے بہیمۃ الانعام سے تمام قسم کے انعام مقصود ہونے کے قول کو راجح قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
وأولى القولين بالصواب فى ذلك ، قول من قال: عنى يقوله: ﴿أحلت لكم بهيمة الأنعمہ﴾ ، الأنعام كلها . . . ولم يخصص الله منها شيئا دون شيء ، فذلك على عمومه وظاهره ، حتى تأتي حجة بخصوصه يجب التسليم لها [تفسير طبري ، تحقيق شاكر 455/9]
اس سلسلہ میں دونوں اقوال میں سے درست قول ان لوگوں کا ہے جنہوں نے فرمان باری [تمهارے لئے بہیمة الانعام حلال كيا گيا ہے] سے تمام انعام کو مراد لیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس میں سے کسی کی کوئی تخصیص نہیں فرمائی ہے ، لہٰذا وہ اپنے عموم اور ظاہر پر باقی ہے ، یہاں تک کہ اس خصوصیت پر کوئی واجب التسلیم دلیل آ جائے ۔ واللہ اعلم

بہیمۃ الأنعام کا شرعی و اصطلای مفہوم:
اصطلاح شرع میں ”بہیمۃ الانعام“ سے مراد اونٹ ، گائے اور بکرے (دونوں جنسیں ) ہیں ، جیسا کہ سلف مفسرین نے بیان فرمایا ہے ، امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
وهي الأزواج الثمانية التى ذكر ها فى كتابه: من الضأن والمعز والبقر والإبل [جامع البيان تحقيق شاكر 257/6]
یہ آٹھ جوڑے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے: مینڈھا ، بکرا ، گائے اور اونٹ ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
بهيمة الأنعام: وهى الإبل والبقر والغنم ، كما قاله الحبر البحر ترجمان القران وابن عم الرسول [تفسير ابن كثير 534/1]
”بہیمۃ الانعام“ اونٹ ، گائے اور بکرے ہیں ، جیسا کہ بحر العلم ترجمان القرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے چچازاد بھائی (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما)نے فرمایا ہے ۔
نیز فرماتے ہیں:
وقوله تعالى: ﴿احلت لکم بھیمتہ الانعامہ﴾ هي: الإبل والبقر ، والغنم . قال الحسن وقتادة وغیرہ واحد . قال ابن جرير: وكذلك هو عند العرب [تفسير ابن كثير 8/2]
فرمان باری: (تمہارے لئے بہیمۃ الانعام حلال کئے گئے ہیں ): یعنی اونٹ ، گائے اور بکرے ، جیسا کہ حسن قتادہ ، اور دیگر مفسررین نے کہا ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں: اہل عرب کے یہاں بھی اس کا یہی معنی ہے ۔

اور سورۃ الزمر کی آیت (نمبر 6) کی تفسیر سورۃ الانعام (آیت 144، 143 ) کے ذریعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقوله: ﴿وانزل لکم من الانعام ثمنیہ ازواج﴾ ای: وخلق لكم من ظهور الأنعام ثمانية أزواج وهى المذكورة فى سورة الأنعام: ﴿ثمنية أزوج من الضان اثنین ومن المعز اثنین﴾ الأنعام: 143] ، ﴿ومن الإبل اثنین ومن البقر اثنین﴾ [الأنعام: 144] [تفسير ابن كثير 86/7 نيز ديكهئے: 5 /416]
فرمان باری: (اللہ نے تمہارے لئے چوپائے اتارنے میں نرو مادہ ، آٹھ ) یعنی اللہ نے تمہارے لئے چوپایوں کی پشتوں سے آٹھ جوڑے (نر و مادہ ) پیداکیا ہے ، اور یہ وہ ہیں جو سورۃ الانعام میں مذکور ہیں: (آٹھ نر و مادو یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم ) [الانعام: 143]
(اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دوقسم) [الانعام: 144]

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والذي يضحي به باجماع المسلمين الأزواج الثمانية: وهى الضأن وامعز والإبل والبقر [تفسير القرطبي 15 /109]
مسلمانوں کے اجماع سے جن جانوروں کی قربانی کی جائے گی وہ آٹھ جوڑے ہیں:
مینڈھا ، بکری ، اونٹ اور گائے ۔

علی محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن القران بين أن الأنعام هي الأزواج الثمانية التى هي: الذكر والأثني من الإبل ، والبقر ، والضان ، والمغز [أضواء البيان فى ايضاح القرآن بالقرآن 2/ 332 ، و 1 / 326 ، و 198/1 نيز ديكهئے: تفسير الماوردي 20/4]
قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ انعام وہی آٹھ جوڑے ہیں: یعنی اونٹ ، گائے مینڈ ھا اوربکری (نر و ماندو) ۔

اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ولا يكون من الحيوان إلا من يهيمة الأنعام ، وقد تقدم إيضاح الأنعام ، وأنها الأزواج الثمانية المذكورة فى ايات من كتاب الله وهى: الجمل ، والناقه ، والبقرہ ، والثور، والنعجه ، والكبش ، والعنز ، والتيس [اضواء البيان فى إيضاح القرآن بالقرآن 172/5]
بہیمتہ الانعام کے علاوہ کسی جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور انعام کی وضاحت ہو چکی ہے ، کہ وہ کتاب اللہ کی آیات میں مذکور آٹھ جوڑے ہیں: اونٹ اونٹنی ، گائے بیل ، میند ہا دنبہ اور بکری بکرا ۔
حافظ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وهي مختصته بالأزواج الثمانية المذكورة فى سورة (الأنعام) ، ولم يعرف عنه صلى الله عليه وسلم ، ولا عن الصحابة هدي ، ولا أضحية ، ولا عقيقه من غيرها [زاد المعادفي بدي خير العباد 2 /285]
قربانی سورۃ الانعام میں مذکور آٹھ جوڑوں کے ساتھ خاص ہے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے علاوہ سے ھدی ، قربانی یا عقیقہ معروف نہیں ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمع العلماء على أنه لا تجزي الضحية بغير الإبل والبقر والغم [شرح النووي على مسلم 117/13]
علماء کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اونٹ ، گائے اور بکری کے علاوہ سے قربانی نہیں ہوگی ۔

علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على جواز التضحية من جميع بھيمة الأنعام وإنما اختلفوا فى الأفضل . . . ثم الإجماع على أنه لا يجوز التضحية بغير بھيمة الأنعام ، [سبل السلام 537/2]
تمام بھیمۃ الانعام سے قربانی کے جواز پر علماء کا ا جماع ہے ، اختلاف صرف افضل میں ہے ۔ ۔ ۔ اور اس بات پر بھی جماع ہے کہ بہیمتہ الانعام کے علاوہ کی قربانی جائز نہیں ۔

حافظ المغرب علامہ ابن عبد البر قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اختلف العلماء فيما لا يجوز من أسناني الضحايا والهدايا بعد إجماعهم أنها لا تكون إلا من الأزواج الثمانية [إلا تنزكار 250/4]
علماء کے اس بات پر ا جماع کے بعد کہ قربانی آٹھ جوڑوں ہی سے ہو سکتی ہے ، اس امرمیں اختلاف ہے کہ بدی و قربانی میں کسی عمر کی قربانی نہیں ہو گی ۔

اسی طرح التمہید میں فرماتے ہیں:
والذي يضحی به بإجماع من المسلمين الأزواج الثمانية وهى الضان والمعز والإبل والبقر [التمهيد لماني الموطا من المعاني والاسانيد188/23]
مسلمانوں کے اجماع سے جن جانوروں کی قربانی کی جائے گی وہ آٹھ جوڑے ہیں:
مینڈھا ، بکرا ، اونٹ اور گائے ۔
﴿ثمنیہ ازوج﴾ کاسیاق و پس منظر اور اہل علم کی تصریحات سورۃ الحج کی آیات میں بھیمتہ الانعام کی تفسیر سلفا وخلفا تمام مفسرین و شارحین احادیث نے سورۃ الانعام کی آیات ”ثمانیۃ ازواج“ سے فرمائی ہے ، جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، البتہ اسی کے پہلو بہ پہلو ائمہ تفسیر و حدیث اور فقہاء امت کی توضیحات کی رو شنی میں یہاں حسب و ذیل چند باتیں مزید ملحوظ خاطر رہنی چاہئیں:

پہلی بات:
یہ کہ سورۃ الانعام کی آیتیں بدی و قربانی اور ان کے احکام ومسائل کے بیان کے سیاق میں نہیں ہیں ، نہ ہی ان کا مقصود قربانی کے جانوروں کی تعین و تحدید کرنا ہے ، بلکہ مویشیوں میں سے مذکورہ آٹھ جوڑوں ، اور اسی طرح کھیتوں اور پھلوں وغیرہ کے سلسلہ میں زمانہ جاہلیت کے لوگوں اور مشرکین عرب کے من مانی ، بلال دلیل و برہان حلت و حرمت کے باطل و بے بنیاد عقائد و نظریات ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اپنے معبودان باطلہ کے مابین ان کی تقسیم ، فاسد خیالات اور او ہام وخرافات کی تردید اور اس پر ان کی توبیخ و تعنیف اور ڈانٹ پلانے کے بیان میں میں ہیں ، جیسا کہ (آیت 136 تا145 اور اس کے بعد کی آیات سے واضح ہے) اور ائمہ تفسیر اور علماء حدیث وفقہ نے اس کی دوٹوک وضاحت فرمائی ہے ۔

1۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
وكانوا يحرمون من أنعامهم البحيرة والسائبة والوصيلة والحام ، فيجعلونه للأوثان ، ويزعمون أنهم يحتر مونه لله . فقال الله فى ذلك: (وجعلوا لله مما ذرأ من الحرث والأنعام نصيبا) الاية [تفسير الطبري 132/12]
مشرکین اپنے چوپایوں میں سے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کو حرام قرار دیتے تھے اور انہیں اپنے بتوں کے لئے مان لیتے تھے ۔ اور ان کا گمان یہ تھا وہ اللہ کے لئے حرام کر رہے ہیں ، چنانچہ اللہ نے اس بارے میں فرمایا: (اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیداکیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا دم اتوبیخ من الله للمشركين الذين ابتدعوا بدعا وكفرا وشرکا ، وجعلوا لله لجزءا من خلقه ، وهو خالق كل شي سبحانه وتعالى عما يشركون [تفسير ابن كثيرت سلامته 344/3 ، نيز ديكهئے: تفسير البغوي احياء التراث 2/ 162]
یہ اللہ کی طرف سے مشرکین کی مذمت اور ڈانٹ ہے جنہوں نے بدعدتیں اور کفر و شرک ایجاد کر رکھا تھا ، اور اللہ کے لئے اس کی مخلوق میں سے ایک حصہ متعین کر دیا تھا ، حالانکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے ، مشرکوں کے شرک سے اللہ کی ذات پاک اور بلند ہے ۔

3۔ نیز فرماتے ہیں:
وهذا بيان لجهل العرب قبل الإسلام فيما كانوا حرموا من الأنعام ، وجعلوها أجزاء وأنواعا: يجية ، وسائية ، ووصيلتہ وحاما ، وغير ذلك من الأنواع التى ابتدعوها فى الأنعام والزروع والثمار [تفسير ابن كثير ت سلامته 351/3]
یہ اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت کا بیان ہے جو انہوں نے چوپایوں کو حرام کر کے ان کے حصے اور اقسام بنا رکھا تھا: بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام اور ان کے علاوہ دیگر اقسام جو انہوں نے چوپایوں ، کھیتوں اور پھلوں میں گھڑ رکھا تھا ۔

4۔ علام نواب صدیق حسن قنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي هاتين الآيتين تقريع وتوبيخ من الله لأهل الجاهلية بتحريمهم ما لم یحرمہ اللہ [فتح البيان فى مقاصد القرآن 4 /260]
ان دونوں آیتوں میں اللہ کی جانب سے اہل جاہلیت کو ڈانٹ ڈ پٹ اور تنبیہ ہے ، جو انہوں نے حرام کر رکھا تھا ، جسے اللہ نے حرام نہیں کیا تھا ۔

5۔ امام ابن عطیہ آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وسبب نزول هذه الآية أن العرب كانت تجعل من غلاتھا وزرعها وثمارها ومن أنعامها جزها تسمية الله وجزءا تسميه لأصنامها ، وكانت عادتها التحفي والاهتبال بنصيب الأصنام أكثر منها بنصيب الله إذ كانوا يعتقدون أن الأصنام بھا فقر وليس ذلك بالله [تفسير ابن عطية ”المحر الو جيز فى تفسير الكتاب العزيز“ 2 /348]
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ عرب اپنے غلے ، کھیتی ، پھل اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اللہ کے لئے نامزد کرتے تھے اور ایک حصہ اپنے دیوی دیوتاوں کے لئے ، اور ان کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے بتوں کے حصہ کے سلسلہ میں اللہ کے حصہ سے کہیں زیاد فکر کرتے تھے اور اس کے لئے رنجیدہ ہوتے تھے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بتول کو فقر ومحتاجگی کاسامنا ہے ، جبکہ اللہ کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے ۔

6۔ نیز فرماتے ہیں:
وكانت للعرب سنن فى الأنعام من السائية والبحيرة والحام وغير ذلك فنزلت هذه الاية رافعة لجميع ذلك [ديكهئے: امير ابن عطية 144/2]
مویشیوں کے سلسلہ میں عربوں کے ، بحیرہ ، سائبہ اور حام وغیرہ بہت سے رسم و رواج تھے ، چنانچہ یہ آیت کریمہ کے ان تمام بدعقیدگیوں کی تردید میں نازل ہوئی ۔

7۔ امام ابن عاشور تیونسی فرماتے ہیں:
ولما كانوا قد حرمو فى الجاهلية بغض الغنم ، ومنها ما يسمی بالوصيلة
كما تقدم ، و بغض الإبل كالبحيرة والوصيلة أيضا ، ولم يحرموا بعض المعز ولا شيئا من البقر ، ناسب أن يؤتي بهذا التقسيم قبل الاستدلال تمهيدا لتحکمهم إذ حرموا بعض أفراد من أنواع ، ولم یحرمو بعضا من أنواع أخرى [التحرير واتنوير 8-آ/129]
عربوں نے جاہلیت میں کچھ بکریوں کو حرام کر لیا تھا ، ان میں سے ایک وصیلہ بھی ہے ، جیسا کہ گزر چکا ہے ، اور یعنی اونٹوں کو حرام کر لیا تھا جیسے بحیرہ ، وصیلہ وغیرہ ، اور بعض بکریوں اور کسی بھی گائے کو حرام نہیں کیا تھا ، لہٰذا استدلال سے پہلے مناسب یہی تھا کہ ان کے فیصلہ کی تمہید کے لئے تقسیم بیان کر دی جائے ، کیونکہ کچھ قسموں کے بعض افراد کو حرام کیا تھا ، اور دوسری بعض قسموں میں سے کچھ کوحرام نہیں کیا تھا ۔

8۔ امام قرطبی آیت (احلت لکم بہیمۃ الانعام) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وكانت للعرب سنن فى الأنعام من البحيرة والسائية والوصيلة والحام ، يأتي بيانها ، فتزلت هذه الاية رايقة لتلك الأوهام الخيالية ، والاراء الفاسدۃ الباطلية [تفسير القرطبی 33/6 ، نيز ديكهئے: الدر المنشور فى التفسیر بالمثور 371/3]
مویشیوں کے سلسلہ میں عربوں کے ، بحیرہ ، سائبہ اور حام وغیرہ بہت سے رسم و رواج تھے ، جس کا بیان آئے گا ، چنانچہ یہ آیت کر کے ان تمام خیالی او ہام اور باطل فاسد آراء کی تردید میں نازل ہوئی ۔

9۔ امام فخر رازی فرماتے ہیں:
أطبق المفسرون على أن تفسير هذه الاية أن المشركين كانوا يحرمون بعض الأنعام فاحتج الله على إبطال قولهم بأن ذكر الضان والمعز والإبل والبقر . . . خاصل المعنى نفي أن يكون الله حرم شيئا مما زعمو تحريمه إياه [التحرير والتنوير ۔ 8آ/130 نيز ديكهئے: التفسرير الكبير الرازي 166/13]
مفسرین کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ مشرکین بعض مویشیوں کو حرام قرار دیتے تھے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کے بطلان پر حجت قائم کی ، بایں طور کہ مینڈھے ، بکری اونٹ اور گائے کا ذکر کیا ۔ مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں کو انہوں نے اپنی من مانی حرام کر رکھا ہے ، اللہ نے اس میں سے کچھ بھی حرام نہیں کیا ہے ۔

10۔ علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدی فرماتے ہیں:
يخبر تعالى عما عليه المشركون المكذبون للنبي صلی اللہ علیہ وسلم ، من سفاهة العقل ، وخفة الأحلام ، والجهل البليغ ، وعدد تبارك وتعالى شيئا من خرافاتهم ، لينبه بذلك على ضلالهم والحذر منهم [تفسير السعدي ، تيسير الكريم الرحمن م: 275]
اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو جھٹلانے والے مشرکین کی بدعقلی ، بے وقوفی اورنری جہالت کی خبر د ے رہا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی اور ان سے چوکنا رہنے کے سلسلہ میں تنبیہ کی غزل سے ان کے کچھ خرافات گنائے ہیں ۔

11 ۔ نیز فرماتے ہیں:
أن السياق فى نقض أقوال المشركين المتقدمة ، فى تحريمهم لما أحله الله
و خوضهم بذلك ، بحسب ماسولت لهم أنفسهم [تفسير السعدي ، تيسير الكريم الرحمن ص: 278]
آیات کاسیاق مشرکین کے سابقہ اقوال کی تردید ہے جو وہ اپنی خواہشان نفسانی کے مطابق اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کیا کرتے تھے اور اس میں بے جا دخل اندازی کرتے تھے۔ [نيز ديكهئے: فتح الباري لابن حجر 657/9 وذخير العبي فى شرح المجتبي 207/33]

دوسری بات:
دوسری بات یہ ہے کہ قربانی ان آٹھ جوڑ وں ہی کی جائز ہے ، اور یہ آٹھوں جوڑے من حیث الجنس مراد ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے انواع و اصناف اس میں داخل و شامل ہیں ، بشرطیکہ لغۃ و شرعا اس جنس کی نوع وصنف ہو ، ان میں کسی خاص رنگ ، نسل ، طبیعت ، ہیئت ، کیفیت ، عربی و عجمی، اور نام ولقب کی تحدید و تخصیص بے دلیل ہے ، جو اس کی قربانی کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے ک علماء تفسیر وحدیث نے ان ازواج ثمانیہ کو ان کے انواع و اصناف سمیت مراد لیا ہے ، اور بسا اوقات وضاحت کے لئے بعض انواع کا ذکر بھی کیا ہے ۔ البتہ ان چاروں کے علاوہ کسی پانچویں جنس کے جانور کی قربانی سے منع کیا ہے ، مثلاً ہرن ، وحشی ، گائے اور وحشی گدھا وغیرہ ۔ [اور بهينس اهلي اور گهريلو هے ، وحشي نهيں ۔ جيسا كه اهل علم نے صراحت فرمائي هے ، چنانچه علامه مرداوي رحمه رقمطراز هيں: ”والصحيح من المذهب: أن الجواميس أهلية مطلقا ، ذكره القاضي وغيره ، وجزم به فى المستوعب وغيره“ الأنصف فى معرفته الراجح من الخلاف للمرداوي485/3]
صحیح مسلم یہ ہے کہ بھینس مطلق طور پر گھریلو ہیں ، جیسا کہ قاضی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ، اور مستوعب وغیرہ میں اس بات کو جزم و یقین سے کہا ہے ۔

اس سلسلہ میں اہل علم کے چند قابل غورتصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ معروف محقق ومفسر علامہ محمد امین شنقسیطی رحمہ الہ آیت کریمہ ﴿ويذكروا اسمه الله فى ايام معلومات على ما رزقنهم من بهيمة الأنعم﴾ [الحج: 28] تفسیر میں فرماتے ہیں:
اعلم أنه لا يجوز فى الأضحية إلا بھيمة الأنعام ، وهى الإبل والبقر والضان والمعز بأنواعها لقولہ تعالى: ﴿ويذكروا اسمه الله فى ايام معلومات على ما رزقنهم من بهيمة الأنعم فکلو منھا واطعموا البائس الفقیر﴾ [الحج: 28] فلا تشرع التضحية بالظباء ولا ببقره الوحش وحمار الوحش [أضواء البيان فى ايضاح القرآن بالقرآن 216/5]
جان لو کہ قربانی میں صرف بہیمۃ الانعام جائز ہے ، اور وہ اونٹ ، گائے ، مینڈھا اور بکری اپنے انواع کے ساتھ ہیں؛ کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: (اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کانام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں ) لہٰذا ہرن ، جنگلی گائے ، اور جنگلی گدھے کی قربانی مشروع نہیں ہے ۔

2۔ علامہ علی احمد واحدی نیساپوری لکھتے ہیں:
والأنعام جمع النعم ، وهى الإبل والبقر والغنم وأجناسها [التفسير الوسيط للواحدي 148/2]
انعام ، نعم کی جمع ہے ، اور وہ اونٹ ، گائے ، بکری اور ان کی جنسیں ہیں ۔

3۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی سند سے لیث بن ابی سلیم کی تفسیر نقل فرماتے ہیں:
حدثنا أبى ثنا عبد الرحمن بن صالح العتكي ثنا حميد بن عبد الرحمن الرواسي عن حسن بن صالح عن ليس بن أبى سليم قال الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [تفسير ابن ابي حاتم 1403/5 نمبر 7990]
(لیث بن ابی سلیم لیث بن ابی سلیم ابن زنیم لیثی کوفی ہیں وفات: 143ھ) ، کوفہ کے ایک عالم اور محدث تھے ، صدوق ہیں ، البتہ آخری عمر میں افظہ خراب ہونے کے سبب سخت اختلاط اور حدیث میں اضطراب کا شکار ہو گئے ، تو علماء نے ان سے حدیثیں لینا ترک کر دیا ۔ امام ابن معین وغیرہ نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔

حافظ ابن جحر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الليث ابن أبى سليم اين زنيم . . . صدوق ، اختلط جدا ولم يتميز حديثه فترك [تقريب التهذيب ص: 464 نمبر 5685]
لیث بن ابو سلیم بن زنیم ۔ ۔ ۔ صدوق ہیں ، بہت زیادہ اختلاط کا شکار ہو گئے کہ اپنی حدیث میں فرق نہیں کر پاتے تھے ، لہذا ترک کر دیا گیا تھا ۔
سنن اربعہ کے محدثین نے ان سے روایت کیا ہے ، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے تعلقاً اور امام مسلم نے مقروناً اور متابعتہ حدیث لی ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مضطرب الحدیث ہیں ، لیکن لوگوں نے ان سے حدیث بیان کیا ہے ۔ نیز حافظ ذہبی نے انکے بارے میں الکاشف میں فرمایا ہے:

”فیہ ضعف یسیر من سوء حفظہ“ (حافظہ کی خرابی کے اعتبار سے ان میں معمولی نعمت ہے):
اور دیوان الضعفا ء میں لکھتے ہیں: ”حسن الحدیث ، ومن ضعفہ ، فإنما ضعفہ لاختلاطہ باخرۃ“ ۔
حسن حدیث والے ہیں ، جس نے انہیں ضعیف کہا ہے ، آخری عمر میں اختلاط کی وجہ سے کہا ہے۔
الکنی و الاسماء للامام مسلم کے محقق عبد الرحیم فتشقری فرماتے ہیں:
قلت: ومثل هذا النوع يتقوى بغيره [المغني فى الضعفا 2 / 5126/536 ، وديوان الضفعاء ص: 3503/333 ، و سير أعلام النبلاء 6/179 ، و 6/184 ، ميزان الاعتدال 420/3 ، و لكاشف فى معرفته من له روايته الكتب السته 151/2 للامام الندهبي۔ والكني و الاسماء للامام مسلم 1 / 122 ذكر أسماء التابعين ومن بعد هم ممن صحت روايته عن اشفات عند البخاري ومسلم، للدارقطني 1/ 445 ، ورجال صحيح مسلم 2/ 160 تاريخ اسماء اثقات ص: 196 ، وذكر من اختلف العلماء ونقاد الحديث فيه ص: 94]
(میں کہتا ہوں: اس قسم کے راوی کو دوسرے سے قوت ملتی ہے ) ۔
سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

4۔ امام سیوطی رحمہ اللہ ابن ابی حاتم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأخرج ابن أبى حاتم عن ليث بن أبى شيم قال: الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [الدر المنشور فى التفسير بالماثور 371/3]
ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

5۔ امام شوکانی رحمہ اللہ بھی موافقت کرتے ہوئے ابن ابی حاتم سے نقل کرتے ہیں:
وأخرج ابن أبى كان على بن أبى شيم قال: الجاموس والبخ من الأزواج المائية [فتح القدير الشوكاني 195/2]
ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

6۔ علامہ نواب صدیق حسن خان لیث بن ابی سلیم کی تفسیر نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بہر کیف لیث بن ابی سلیم کے ضعف سے مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ، کیونکہ زیر بحث مسئلہ میں لیث بن ابی سلیم یا اس اثر کی حیثیت متابعت جیسی ہی ہے ۔ کمایخفی ۔
قل ءالذکرین حرم أم لأنثيين أما اشتملت عليه أر حام الأنثيين ”قال ليث بن أبى سليم: الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [فتح البيان فى مقاصد القرآن 260/4]
(آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ ) لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں کہ: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مفسرین سلف نے اپنی تفسیروں میں آٹھ ازواج کی جنسوں کے بعض مشہور انواع و اصناف کو باقاعد و مثالوں کی وضاحت سے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔

7۔ علامہ ابن عاشور تیونسی رحمہ اللہ تعالى سورۃ الانعام کے متعلقہ آیت ومن الإبل اثنين ومن البقر أثنین [الانعام: 144] ۔ میں ”ومن البقر اثنین“ کی تفسیر میں بڑی و ضاحت سے لکھتے ہیں: ۔
ومن البقر صنف له سينام فهو أشبه بالإبل ويوجد فى بلاد فارس ودخل بلاد العرب وھو الجاموس ، والبقر العربی لا سنام لہ وثورھا یسمی الفریش [التحرير والتنوير 8 -,ا/129 ۔ ]
اور گائے کی ایک قسم ہے جسے کو ہان ہوتی ہے ، لہذا وہ اونٹ سے زیاد و مشابہت رکھتی ہے ، اور وہ فارس کے علاقہ میں پائی جاتی ہے ، عرب کے علاقوں میں داخل ہوئی ہے ، اور وہ
”جاموس“ بھینس ہے ، عربی گائے کو کوہان نہیں ہوتی اور اس کے بیل کو فریش کہا جاتا ہے ۔

8۔ محمد تولی شعراوی لکھتے ہیں:
الأنعام: يراد بها الإبل والبقر ، وألحق بالبقر الجاموس ، ولم يذكر لأنه لم يكن موجودة بالبيئة العربية ، والغنم وتشمل الضأن والماعز ، وفي سورة الأنعام يقول تعالى: ﴿ثمنیہ أزوج من الأضآن اثنين ومن المعز اثنین﴾ [الأنعام: 143] [تفسير الشعراوي 16 / 9992 ۔ ]
انعام سے مراد اونٹ اور گائے ہے ، اور بھینس گائے سے ملححق ہے ، اور اس کا کر اس لئے نہیں کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے ماحول میں موجود نہ تھی ، اسی طرح بکری مراد ہے ، وہ مینڈھے اور بال والی بکری دونوں کو شامل ہے ، اور سورۃ الانعام میں اللہ کا ارشاد ہے: (آٹھ نرومادہ یعنی بھیڑ میں دوقسم اور بکری میں دوقسم) ۔

9۔ شیخ محمود محمد حجازی فرماتے ہیں:
الأنعام: هي الإبل ، والبقر ، الشامل للعراب والجواميس ، والضأن الشامل للخراف والمعز [التفسير الواضح 474/1]
انعام: اونٹ ، گائے بشمول عربی و جوامیس (بھینسیں) ، اور مینڈھا بشمول اون اور بال والی بکری ہیں ۔

10۔ محمد سید طنطاوی فرماتے ہیں:
وأفردت البهيمة الإرادة الجنس: وجمع الأنعام ليشمل أنواعها [التفسير الوسيط لطنطاوي 23/4 ]
بهيمه کو جنس کے ارادہ سے واحد رکھا گیا ہے اور انعام کو جمع استعمال کیا گیا ہے ، تاکہ اس کی قسموں کو شامل ہو ۔

11۔ شیخ محمد علی صابونی لکھتے ہیں: [اسماء و صفات اور عقيده و منهج كے ديگر مباحث ميں اس تفسير اور مولف كي ديگر كتابوں پر متعد د ملاحظات هيں جن كا اهل علم نے تعاقب كيا هے ديكهئے: ”تعقيبات و ملاحظات على كي كتاب صفوة التفاسير“ ازشيخ صالح بن فوزان الفوزان: ”تنبيهات هامته على كتاب صفوة التفاسير“ للشيخ محمد على الصابوني ، ”و مخالفت هامته فى مختصر تفسير ابن جرير الطبري“ للشيخ محمد بن جميل ، زينو ، اسي طرح ان سے قبل دكتور سعد ظلام نے مجله ”المنار“ ميں اور شيخ محمد مغراوي نے اپنے ايم اے كے رساله بعنوان ”التفسير و المفسرون“ ميں بهي اسي كتاب اور اس كے مولف كے انحرافات كي نقاب كشائي كي هے ۔ ]
﴿ومن الإبل أثنين ومن البقر أثنين﴾ أى وأنشأ لكم من الإبل اثنين هما الجمل والناقة ومن البقر اثنين هما الجاموس والبقرة“ [صفوة التفاسير 394/1]
یعنی اللہ نے تمہارے لئے اونٹ میں دو یعنی اونٹ اور اونٹنی پیدا فرمایا ، اور گائے میں دو یعنی بھینس اور گائے پیدا فرمایا ۔

12۔ سابقہ تفاسیر کی رو شنی میں علامہ احمد بن عبد الرحمن ساعاتی تمام بهيمة الانعام کے انواع کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(تنبيه) نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام: الإبل بجميع أنواعها ، والبقر ومثله الجاموس ، والغنم وهى الضأن والمعز
ولا يجزئ شيء من الحيوان غير ذلك ، . . . والله أعلم
[الفتح الرباني الترتيب مسند الامام احمد بن حنبل الشيباني 76/13-77 ۔ ]
تنبیہ: علماء کی ایک جماعت نے اس بات پر ا جماع نقل کیا ہے کہ قربانی صرف بيهمته الانعام کی صحیح ہو گی ، اونٹ اپنی تمام قسموں کے ساتھ ، اور گائے اور اسی کے مثل بھینس ہے ، اور بکری یعنی مینڈھا اور بال والی بکری ، اور ان کے علاوہ کسی حیوان سے قربانی درست نہ ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم

تیسری بات:

سابقہ تصریحات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اہل علم نے قربانی کے جانوروں کی وضاحت کے ضمن میں آٹھ جوڑوں یا اونٹ ، گائے اور بکری کے علاوہ سے قربانی کے بارے میں ”عدم جواز“ یا ”عدم اجزاء“ یا ”عدم صحت“ وغیرہ کے جو الفاظ نقل فرمائے ہیں ، اس سے مراد ان کے علاوہ دیگر جنسیں ہیں ، مثلاًً و حشی گائے ، وحشی گدھا اور ہرن وغیر ہ ، جیسا کہ انہوں نے دیگر اجناس کی مثالیں پیش کی ہیں اور جواز کے قائلین پر تبصرہ بھی فرمایا ہے ۔ بغرض اختصار ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1 ۔ علامہ ابن رشد القرطبی الحفید المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهم يجمعون على أنه لا تجوز الضحيه بغير خيمة الأنعام إلا ماكي عن الحسن بن صالح أنه قال: بحور الضحية بقة الو ش ع سبعة ، والتي عن واجد [بدايته المجتهد ونهايته المقتصد 193/2 ۔ ]
سب کا اس بات پر ا جماع ہے کہ بهيمته الانعام کے علا و ہ سے قربانی جائز نہیں ہے ، سوائے جو حسن بن صالح سے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: دو وحشی گائے کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے اور ہرن کی قربانی ایک کی طرف سے جائز ہے ۔

2 ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وأجمع العلماء على أنه لا تجزی الضحية بغير الإبل والبقر والغنم إلا ما حكاه بن المنذر عن الحسن بن صالح أنه قال تجوز التضحية ببقرۃ الوحش عن سبعة و بالظنی عن واحد و به قال داود فى بقرة الوحش والله أعلم [شرح النووي على مسلم 117/13 ، المجموع شرح المہذب 394/8 ، والمغني 8/623 ۔ صحیح فقہ السنتہ وادلتہ وتوضیح مذاہب الأئمہ 369/2]
علماء کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اونٹ ، گائے اور بکرے کے علاوہ کی قربانی کافی نہ ہو گی ، سوائے اس کے جو امام ابن المنذر نے حسن بن صالح کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: وحشی گائے کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے اور ہرن کی قربانی ایک کی طرف سے جائز ہے ۔ اور یہ بات داود ظاہری نے وحشی گائے کے بارے میں کہی ہے ، واللہ اعلم ۔
ان دونوں اقتباسات سے یہ بات روز رو شن کی طرح عیاں ہے کہ اہل علم نے ابل ، بقر اور غنم سے ان کے انواع و اصناف اور نسلوں کا استثنانہیں کیا ہے ، بلکہ ان کے علاوہ دیگر اجناس کا استثناء کیا ہے ، جیسا کہ بقرۃ الوحش اور ہرن ان کی مثال سے نمایاں ہے ۔
اسی طرح اس بات کی حتمیت کی نہایت روشن دلیل امام نووی رحمہ اللہ کی وہ دوٹوک تصریح ہے جو انہوں نے ابل ، بقر او غنم کی اپنی کتاب ”مجموع شرح المھذب“ میں فرمائی ہے ، بایں طور کہ ان کی انواع ، بلکہ انواع کی انواع کا بھی ذکر فرمایا ہے ، اور پھر ”بہیمتہ الانعام“ کے علاوہ مثلاًً بقر الوحش ، گدھوں اور ہرنوں وغیرہ کی قربانی کو ناجائز قرار دیا ہے ، اور بتلایا ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔ ملاحظ فرمائیں:
أما الأحكام فشرط المجزي فى الأضحية أن يكون من انعام وهى الإيا ك والبقر والغنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البخاتي والعراب وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية وجميع أنواع الغنم من الضأن والمعز وأنواعهما ولا يجزئ غير الانعام من بقر الوحش وحمیرہ والضبا وغیرھا بلا خلاف [المجموع شرح المهذ ب 393/8]
ربا مسئلہ احکام کا ، تو قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور ”بہیمتہ الانعام“ میں سے ہو یعنی: اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اسی طرح مینڈھا اور بکرا وغیرہ بکرے کی تمام قسمیں اور ان کی قسمیں برابر ہیں ، اور انعام کے علاوہ جیسے وحشی گائے اور وحشی گدھے اور ہرن وغیرہ کی قربانی ، بلا اختلاف کافی نہ ہوگی ۔ والحمد اللہ علی ذلک ۔

چوتھی بات:

یہ ہے کہ مذکور توضیح و تصریح کی رو شنی میں وہ بات بھی الجھن کا باعث نہیں رہ جاتی جواہل علم نے متعد تعبیرات میں رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ابل ، بقر او غنم کے علاوہ سے قربانی ثابت نہیں ہے مثلاًً:

1۔ علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والأضحية من الإبل والبقر والغنم لأنها“ عرفت شرعاًً ، ولم تنقل التضحية بغيرها من النبى صلی اللہ علیہ وسلم ولا من الصحابة رضي الله عنهم [الهدايته فى شرح بدايته المبتدي 359/4 الفقه الاسلامي وادلته حيلي 2719/4]
اور قربانی اونٹ ، گائے اور بکرے کی ہو گی ، کیونکہ شرعاًً یہی جانور معروف ہیں ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ان کے علاوہ کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے ۔

2۔ علامہ عبدالکریم ابوالقاسم ارافعی فرماتے ہیں:
والأنعام: هي الإبل والبقر والغنم ، ولم يؤثر عن النبى ، ولا عن أصحابه رضي الله عنهم التضحية بغيرها [العزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير 12 / 62 ، صحيح فقه السته وادلسته وتوضيع مذاهب الائمه 369/2]
انعام: اونٹ ، گائے اور بکرے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ان کے علاوہ سے قربانی کرنا منقول نہیں ہے ۔

3 ۔ حافظ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يعرف عنه ، ولا عن الصحابة هدي ، ولا أضحية ، ولا عقيقة من غيرها [زاد المعادفي هدي خير العباد 2 /285 ۔ ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کے علاوہ سے ھدی ، قربانی یا عقیقہ معروف نہیں ہے ۔
کہ اس سے مراد مقصود بھی اجناس ہیں کہ ان کے علاوہ دیگر اجناس بقر الو ش ، گد ہے اور ہرن وغیرہ کی قربانی ، ثابت منقول اور معلوم نہیں ہے ، نہ کہ مذکورہ اجناس کے انواع و اصناف کی نفی ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً ان جناس کی انہی انواع کی قربانی فرمائی ہے جو حجاز میں اس وقت موجود و معروف تھیں تمام انواع کا وجود اور عملاً قربانی کا ثبوت ضروری نہیں ۔

چنانچہ ﴿ثمنيته ازواج﴾ کی تفسیر میں محمد متولی شعراوی لکھتے ہیں:
الأنعام: يراد بها الإبل والبقر ، وألحق بالبقر الجاموس ، ولم يذكر لأنه لم يکن موجودة بالبيئة العربية ، والغنم وتشمل الضأن والماعز ، وفي سورة الأنعام يقول تعالى: ﴿ثمينة أزوج من الضان أثنين ومن المعز اثنین﴾ [تشير الشعراوي 16 /9992 ۔ ]
انعام سے مراد اونٹ اور گائے ہے ، اور بھینس گائے سے ملحق ہے ، اور اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ وہ عرب کے ماحول میں موجود نہ تھی ۔ اسی طرح بکری مراد ہے ، وہ مینڈھے اور بال والی بکری دونوں کو شامل ہے ، اور سورۃ الانعام میں اللہ کا ارشاد ہے: (آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دوقسم) ۔ واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل