نبی کریم ﷺ کی ولادت پر معجزاتی مناظر کی روایت
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

آمنہ کا بیان ہے کہ جب میرے یہاں حضور کی ولادت ہوئی تو ایک بڑا ابر کا ٹکڑا نظر آیا، جس میں سے گھوڑوں کے ہنہنانے، پروں کے پھٹپھٹانے اور لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ ابر کا ٹکڑا بچہ کے اوپر چھا گیا۔ اور بچہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ البتہ منادی کی آوازیں سنائی دی کہ محمد کو ملکوں ملکوں پھراؤں اور سمندر کی تہوں میں لے جاؤ کہ تمام دنیا ان کے نام و نشان کو پہچان لے اور جن و انس چرند و پرند اور ملائکہ بلکہ ہر ذی روح کے سامنے ان کو لے جاؤ۔ ان کو آدم علیہ السلام کا خلق، شیث علیہ السلام کی معرفت، نوح علیہ السلام کی شجاعت، ابراہیم علیہ السلام کی دوستی، اسمعیل علیہ السلام کی زبان، اسحاق علیہ السلام کی رضا، صالح علیہ السلام کی فصاحت، لوط علیہ السلام کی حکمت، موسیٰ علیہ السلام کی سختی، ایوب علیہ السلام کا صبر، یونس علیہ السلام کی اطاعت، یاشع علیہ السلام کا جہاد، داؤود علیہ السلام کی آواز، دانیال علیہ السلام کی محبت، الیاس علیہ السلام کا وقار، یحییٰ علیہ السلام کی پاکدامنی اور عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرو۔ اور تمام پیغمبروں کے اخلاق میں انہیں غوطہ دو۔
آمنہ کہتی ہیں پھر یہ منظر ہٹ گیا۔ تو میں نے دیکھا کہ آپ سبز حریر میں لپٹے ہیں۔ اور اس کے اندر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ آواز آئی۔ ہاں محمد نے تمام دنیا پر قبضہ کر لیا۔ اور کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے حلقہ اطاعت میں نہ آ گئی ہو، کہتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا تو نظر آیا کہ آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔ اور مشک خالص کی سی خوشبو آپ سے نکل رہی ہے۔ دفعۃ تین آدمی نظر آئے۔ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ ہے۔ دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت ہے۔ اور تیسرے کے ہاتھ میں سفید ریشم ہے۔ اس نے سفید ریشم کو کھول کر اس میں سے انگوٹھی۔ جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں نکالی۔ پہلے اس نے انگوٹھی کو سات دفعہ اس آفتابے کے پانی سے دھویا۔ پھر مونڈھے پر مہر کر کے بچہ کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے بازؤں میں لپیٹ لیا۔ اور پھر مجھے واپس کر دیا۔

تحقیق الحدیث :

اس حکایت کی بنیاد یہ ہے کہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں السعادة والبشری نامی ایک میلاد کی کتاب سے اس کو نقل کیا ہے۔
اور السعادة والبشری کا مصنف کہتا ہے کہ اس نے خطیب سے اس روایت کو لیا ہے۔
روایات کے لحاظ سے خطیب کی تاریخ کا جو درجہ ہے وہ کسے معلوم نہیں۔
قسطلانی نے اس روایت کو ابونعیم کی طرف بھی منسوب کیا ہے مگر دلائل ابو نیم کے مطبوعہ نسخہ میں تو اس کا پتہ نہیں۔
غنیمت یہ ہے کہ حافذ قسطلانی نے خو د تصریح کر دی ہے کہ اس میں سخت نکارت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے