وہ نہ بیچ جو تیرے پاس نہیں

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

138- اناج کے بدلے غیر اناج، جیسے گندم کے بدلے کپڑوں کی خرید و فروخت
علما کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ جائز ہے، اس کے بہت زیادہ دلائل ہیں، کچھ وہ عموی دلائل ہیں جو بیع اور قرض کے لین دین کی حلت پر دلالت کرتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار اناج خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ گروی میں رکھی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2068 صحيح مسلم 1603/125]
بیع سلم بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، اور لوگ پھلوں میں ایک دو سال کے لیے قرض دیتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی چیز میں قرض دے تو وہ معینہ ماپ، معینہ وزن اور معینہ مدت تک کے لیے قرض دے۔ ؟ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط نہیں لگائی کہ قیمت نقد ہو، یہ اس کی دلیل ہے کہ ماپ اور تول کے ساتھ اناج، کپڑے، جانور، اون وغیرہ کے بدلے میں جس کی صفت منضبط ہو اور باقی شرطیں بھی موجود ہوں، ادھار دینا جائز ہے (یعنی ان میں بیع سلم جائز ہے)۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 254/19]
——————

139- ایک آیت کا مفہوم
سوال: اس آیت کریمہ «وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ» [البقرة: 279]
’’ اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ میں راس مال (اصلی سرمایہ) سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہ آیت کریمہ سودی تجارت میں داخل ہونے سے پہلے، اصلی سرمائے اور توبہ سے پہلے لیے گئے اموال، دونوں کا احتمال رکھتی ہے، پہلا احتمال ہی اکثر علما کا قول ہے، جبکہ میرے نزدیک دوسرا احتمال راجح ہے، کیونکہ ایک تو آیت اس معنی کا احتمال رکھتی ہے، دوسرے یہ احتمال توبہ کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے خوش ہوتے ہیں، یہ بات عقل اور دین میں محال ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو توبہ پر اکسائیں، بلکہ اسے واجب قرار دیں، پھر انہیں خود ہی اس سے روکیں بھی ! یہ بات اس شخص کے معاملے میں روشن ہو کر سامنے آتی ہے، جو ایک طویل عرصے تک سودی لین دین کرتا رہا ہوں اس کے پاس مال کی کثرت ہو جائے، اس آدمی نے تجارت کی ابتدا سینکڑوں یا ہزاروں سے کی ہو، پھر کئی سال تک یہ کام کرتا رہا ہو حتی کہ وہ کروڑ پتی بن جائے، پھر اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق دے دے، تو اس سے کہا جائے کہ تیرا سرمایہ وہی دس بیس ہزار ہیں، لہٰذا تجھ پر اپنا سارا مال چھوڑ دینا اور اس گھر سے نکل جانا لازم ہو جاتا ہے، تیرا صرف وہی قلیل سا اصلی سرمایہ ہے، بہت سارے لوگ اس جیسی کیفیت کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ سود ہی پر مرنا پسند کرلیں گے لیکن اپنی پہلی فقیری اور در ماندگی کی حالت کی طرف لوٹنا قطعا برداشت نہیں کریں گے، اچھا بننے کے بجائے یہ شخص دوسروں کو بھی اچھا بننے سے روکے گا۔
بنا بریں اس جیسا اختیار دینا توبہ کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن جو مال اس نے توبہ سے پہلے نہیں لیا تھا اب اس سے اپنے اصلی سرمائے سے زیادہ لیناجائز نہیں۔ واللہ المستعان
[عبدالكريم خضير، فتاوي: 11/1]
——————

140- سونے کے ساتھ تبادلہ کرنا
سوال:
کیا سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے؟ مثال کے طور پر میں اپنے دوست کی انگوٹھی لے لوں اور اسے اس کے بدلے انگوٹھی دے دوں، اور ہم دونوں ہی دونوں انگوٹھیوں کی قیمتیں جانتے ہوں؟
جواب: اگر ان دونوں انگوٹھیوں کا وزن برابر ہے، اور ان دونوں میں سونے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں، اگر یہ تبادلہ نقد بہ نقد ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی ایک دوسرے کے مثل اور نقد بہ نقد ہوں۔ [صحيح مسلم 1587/81]
لیکن اگر ایک کا وزن زیادہ ہو تو یہ جائز نہیں حتی کہ اگر کم اور زیادہ کے درمیان فرق بھی ادا کر دیا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ایک دوسرے کے مثل ایک دوسرے کے برابر۔“
اگر کہنے والا کہے کہ پھر ہم یہ تبادلہ کس طرح کریں تو ہم کہیں گے یا تو ایک انگوٹھی کسی کو بیچ دیں، یا پھر آپ وہ انگوٹھی خرید لیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 121/235]
——————

141- اضافے کے ساتھ کرنسی کا ادھار تبادلہ
یہ ایک عام بات ہے کہ موجودہ زمانے میں کاغذی کرنسیوں کے ساتھ لین دین ہوتا ہے کیونکہ ایک تو ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے، انہیں منتقل کرنا آسان ہوتا ہے اور پھر انہیں گننے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ علماء کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ انہیں کسی کے ساتھ ملایا جائے، یا انہیں سونے کے ساتھ ملایا جائے یا چاندی کے ساتھ یا پھر سامان تجارت کے ساتھ؟
میرے نزدیک راجح رائے یہ ہے کہ یہ نقدی کے ساتھ ملحق ہیں۔ یعنی سونے اور چاندی کی طرح کاغذی کرنسی بھی مستقل زر ہے، لیکن یہ مختلف انواع کی نقدی کے ساتھ ملحق ہیں، یعنی اگر یہ مختلف ہو تو ہم انہیں سونے چاندی کے اختلاف کی طرح ہی لیں گے۔
مثال کے طور پر سائل نے جو بات کی ہے، ہم کہیں گے فرانسیسی کاغذی کرنسی مراکشی، جزائری یا تیونسی کرنسی نہیں، اور پھر ہم اس اختلاف کو سونے اور چاندی کے درمیان اختلاف کی طرح لیں گے، لہٰذا اگر ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک کی کرنسی کے ساتھ بیع ہو تو پھر مجلس عقد میں ایک دوسرے کو دینا ضروری ہے، یعنی تبادلہ کرنے والے ایک دوسرے سے علاحدہ ہونے سے پہلے نقد بہ نقد اس کا تبادلہ کریں لیکن اضافے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کرنسی کا ریٹ ایک ہزار ایک سو ہو اور اس نے اسے بینک میں بیچ دیا اور لوگوں نے اسے آپس میں ایک ہزار دو سو، یا چار سو یا تین ہزار میں بیچا تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کا غذی نقدی میں ممنوع چیز صرف ربا نسیئہ (ادھار سود) ہے، لیکن ربا الفضل یعنی اضافہ اس میں ممنوع نہیں، کیونکہ یہ کاغذی زر از خود کوئی ایسی معینہ دھات میں سے نہیں جس میں برابر ہونا ضروری ہو، بلکہ اس میں تو طلب و رسد کی بنا پر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لہٰذا اس میں کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ طلب و رسد کے ماتحت ہے لیکن ایک دوسرے کو قبضہ دینے سے پہلے جدا ہونا ممنوع ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 28/245]
——————

142- کاغذی کرنسی کی دھاتی کرنسی کے ساتھ بیع
میری رائے کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ربا الفضل کرنسیوں کے درمیان جاری نہیں ہوتا، ربا الفضل اس وقت ہوتا ہے جب دونوں کی جنس ایک ہو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں تو جس طرح چاہو انہیں بیچو، اگر نقد بہ نقد
ہوں۔“ [صحيح مسلم 1587/81]
اگر ایک آدمی دس کاغذی ریالوں کے بدلے نو (9) لوہے کے ریال (سکے) خریدتا ہے اور یہ نقد بہ نقد ہو، یعنی دونوں عقد کی جگہ ہی یہ تبادلہ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر کوئی ایک بھی انھیں دینے یا لینے میں تاخیر کرے تو پھر بیع صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی اگر ایک نے دس ریال چاشت کے وقت دیے اور دوسرے نے کہا: عصر کے وقت آنا میں تجھے نو (9) ریال دے دوں گا، تو یہ جائز نہیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 29/235]
——————
143- ادھار کے بدلے ادھار کی بیع
سوال: ایسے شخص کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، جو ایک آدمی سے کہتا ہے: میں تجھے ایک سال کے ادھار پر 60 ہزار میں یہ گاڑی فروخت کرتا ہوں، اگر تم نے تم ادا نہ کی تو پھر اس کے اگلے سال رقم 70 ہزار ہو جائے گی، یہ ابتدائے عقد کی گفتگو ہے، اپنی رائے سے مستفید فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: یہ عقد حرام ہے کیونکہ یہ سود ہے، اگر بائع کو شک ہو کہ خریدار رقم ادا نہیں کر سکے گا تو اسے چاہیے کہ ابتدائے عقد میں رقم اور آخری حد تک مدت میں اضافہ کر دے، اگر انسان کوئی ایسی چیز بیچتا ہے جس کی حالیہ قیمت ایک ہزار ہے لیکن دو سالوں بعد اگر اس کی قیمت دو ہزار کے برابر ہو جاتی ہے، پھر وہ دو سال کے ادھار پر وہ چیز دے دیتا ہے تو اس کی قیمت دو ہزار کر سکتا ہے، یہ اس فرمان الہی:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة: 275]
میں داخل ہے۔
یا اسے ایک سال کے ادھار پر 1500 میں بیچ دیتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن اگر اسے یہ کہے کہ جس چیز کی قیمت ایک ہزار ہے، اسے میں ایک سال کے ادھار پر 1500 میں تجھے بیچتا ہوں، اگر تم نے ایک سال بعد رقم ادا نہ کی تو پھر تجھے دو ہزار دینے ہوں گے، یہ حرام اور نا جائز ہے کیونکہ یہ سود ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 36/235]
——————

بیع سلم اور دیون (ادھار) کے احکام
بیع سلم: بیع سلم کو بیع سلف بھی کہا جاتا ہے، اس سے مراد وہ بیع ہے جس میں پیشگی قیمت ادا کر دی جاتی ہے اور سامان حاضر نہیں ہوتا لیکن وہ مقدار اور صفات کے اعتبار سے معروف ہوتا ہے اور پیشگی قیمت وصول کرنے والے کے ذمے اسے مقرر وقت میں مہیا کرنا ہوتا ہے۔
دیون: دیون دین کی جمع ہے جس کا معنی ہے ہر دہ مالی ذمے داری یا مال جو کسی کے ذمے واجب الادا ہو، دین عام ہے اور قرض اس کی ایک قسم۔
——————

144- کوئی معلوم چیز، متعین مدت تک مہیا کرنے کی ذمے داری
اسے بیع سلم کہا جاتا ہے، اگر چیز معلوم ہو اور مدت بھی متعین، اور قیمت پیشگی وصولی کر لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر کہے: جو میری اس اونٹی یا فلاں اونٹنی کے پیٹ میں آج بچہ ہے، یا آئندہ سال ہوگا (آئندہ سال کا حمل) وہ میں تجھے بیچتا ہوں، یہ جائز نہیں، اگر وہ کہتا ہے: میں اپنی ذمے داری پر تجھے فلاں فلاں چیز 100 صاع یا سو کلو فروخت کرتا ہوں، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ کہے کہ اس کھجور کا پھل تجھے بیچتا ہوں تو یہ درست نہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 277/10]
——————

145- بیع سلم اور غرر (غرر سے مراد ہر وہ معاملہ ہے جس کا انجام معلوم نہ ہو) کے درمیان فرق
سوال: کچھ فارموں کے مالکان مثال کے طور پر کھجور کے پچاس (چھوٹے) پودے پچاس ہزار میں خرید لیتے ہیں اور ان کی نوعیت یا حجم کی تعین نہیں کرتے لیکن یہ شرط لگاتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے پچاس لے نہ لے تب تک کچھ بھی نہ بیچے۔
جواب: جب کوئی آدمی کسی سے کھجور کا (چھوٹا) پودا خریدتا ہے تو بلاشبہ اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: اس سے وہ پودے خرید لے جبکہ وہ حاضر نہ ہوں لیکن موصوف ہوں اور ان کی ادائی واجب الذمہ ہو، یعنی قیمت پیشگی وصول کر لی گئی ہو، اس صورت میں نوعیت، کمیت اور حجم کی تعیین ضروری ہے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”جو کسی چیز میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ مقرر ماپ تول اور معینہ مدت تک کرے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ میں نے تجھ سے اتنے درہموں کے بدلے سکری کھجور کے سو پودے خریدے۔
دوسری قسم: اگر وہ متعین ہو، یعنی حاضر ہو، موصوف نہ ہو، مثلا کہتا ہے: میں نے تجھ سے اس قطار کا پودا خریدا۔ یہاں اس پودے کی تعیین ضروری ہے۔ محض اس کے اوصاف بیان کرنا درست نہیں ہوگا، بلکہ کہے: یہ دس پودے۔ ان کی تعیین کرے، اور ان کا جو معروف نام ہے وہ لے، اگر اس طرح نہ ہو تو پھر وہ مجہول ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔“ [صحيح مسلم 1513/4]
[ابن عثيمين: لقاء الباب مفتوح: 16/12]
——————

146- مقررہ مدت تک سامان مہیا کرنے کی ذمے داری پر پیشگی رقم دینا
اگر آدمی ضرورت مند ہو اور کسی سے اس بنیاد پر نقد رقم لے کہ وہ ایک مقرر مدت کے بعد اس کو اس کے بدلے گندم، مکئی وغیرہ کی، ان کے پکنے سے پہلے، مقرر مقدار دے دے گا، اگر وہ شخص اپنے ذمے اس واجب الادا مقدار کا التزام کرتا ہے تو یہ مسئلہ بیع سلم کے مسائل میں شمار ہوگا۔ یہ بیع کی ایک قسم ہے جو چند شرطوں کے ساتھ صحیح ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) یہ اس چیز میں کی جائے جس کی صفت متعین اور منضبط کی جا سکے۔
(2) اس سامان کی اس طرح تحدید وتعین کی جائے کہ جس سے ظاہرا قیمت مختلف ہو جاتی ہو۔ لیکن اس کی جنس، نوع، مقدار، علاقہ، قدامت، جدت اور اعلی وادنی نوعیت کا بیان ہو۔
(3) اگر وہ اپنے والی چیز ہو تو ماپنے کے ساتھ اس کی مقدار ذکر کی جائے، اگر وہ وزن کی جانے والی چیز ہو تو وزن کے ساتھ اس کی مقدار ذکر کی جائے اور اگر وہ چیز گزوں میں دی جاتی ہو تو اس کے گز ذکر کیے جائیں۔
(4) اسے مہیا کرنے کے لیے متعین مدت کی شرط لگائی جائے۔
(5) جس چیز میں بیع سلم کی جارہی ہو، اس کا اپنی جگہ پایا جانا عام ہو، یعنی اس موسم یا جگہ میں وہ چیز عام پائی جائے۔
(6)مجلس عقد میں پیشگی قیمت وصول کرلی جائے۔
(7) اس چیز میں بیع سلم کی جائے جو رقم وصول کرنے والے کے ذمے ہو، یعنی وہ چیز وقت بیع اس کے پاس موجود نہ ہو، لیکن وہ اسے مہیا کرنے کا پابند ہو، اگر وہ کسی متعین (موجود چیز) میں بیع سلم کرے تو یہ درست نہیں۔
بیع سلم کے جائز ہونے کی قرآنی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع سلم (جس میں پیشگی قیمت وصول کرنے والے کے ذمے ایک مدت کے بعد سامان مہیا کرنا لازمی ہوتا ہے) اپنی کتاب میں حلال کی ہے اور اس کی اجازت دی ہے۔“ پھر انہوں نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔
اور حدیث سے اس کی یہ دلیل ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وہ (اہل مدینہ) پھلوں میں ایک دو سال کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی چیز میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ معلوم و متعین ماپ تول اور معینہ مدت تک کے لیے کرے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
[اللجنة الدائمة: 437]
——————

147- وہ نہ بیچ جو تیرے پاس نہیں
سوال: آج بعض تجارتی مقامات پر خریدار کوئی سامان خریدنے کے لیے جاتا ہے تو سیل میں کہتا ہے: تھوڑا انتظار کریں۔ پھر وہ کسی دوسری دکان سے جا کر وہ چیز لے آتا ہے۔ اس صورت کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ بیع سلم میں داخل ہے کہ نہیں؟
جواب: اگر وہ دونوں عقد بیع کر لیں تو یہ درست نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جو تیرے پاس نہیں وہ نہ بیچ۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3503]
لیکن اگر وہ وعدہ کریں اور دکاندار کہے کہ عصر کے بعد آنا، سامان اس نے صبح طلب کیا ہو، لیکن دکاندار کی نیت ہو کہ وہ یہ چیز خرید لے گا اور عصر کے بعد اس کو بیچ دے گا، تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عقد بیع نہیں ہوا، صرف سامان مہیا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سامان آنے سے پہلے ان دونوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوا ہو اور وعدے میں بھی ایک دوسرے کو پابند نہ کیا گیا ہو، بلکہ صرف یہ کہیں: ان شاء اللہ، میں شام کے وقت تمہارے لیے لے آوں گا، اگر یہ سامان خریدنے کا خواہشمند کسی دوسری جگہ سے وہ سامان خرید لے تو یہ دکاندار اس سے یہ نہ کہے کہ تم نے یہ سامان کیوں خریدا ہے؟
[ابن عثیمين: لقاء الباب المفتوح: 25/115]
——————

148- مقروض اگر وقت سے پہلے قرضہ ادا کر دے تو اس کے قرضے میں کچھ تخفیف کر دینا
یہ علما کے ہاں مسئلہ «ضع و تعجل» موجودہ بنکاری نظام میں اسے ”منفی سود“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اگر ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے کر دی جائے تو اصل سرمائے میں کمی کر دی جاتی ہے جسے ڈسکاؤنٹ کہا جاتا ہے، تاہم مذکورہ بالا مسئلہ اس سے مختلف ہے۔ (جلدی ادا کریں اور خفیف کروا لیں) کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے جواز کے متعلق علما میں اختلاف ہے اور صحیح قول جائز ہونے کا ہے۔ یہ امام احمد سے ایک روایت، امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کا اختیار کردہ موقف اور حضرت ابن عباس کی طرف منسو ب ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ جواز کے قول کی توجیہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ سود کے برعکس ہے، کیونکہ سود مدت کے مقابلے میں دونوں عوضوں میں سے کسی ایک کے اضافے کو شامل ہوتا ہے، جبکہ یہ مدت ساقط ہونے کے بدلے عوض کے کچھ حصے سے بری الذمہ ہونے پر مشتمل ہے، کچھ مدت ساقط ہونے کے بدلے کچھ عوض بھی ساقط ہو گیا اور دونوں نے اس کے ساتھ فائدہ اٹھا لیا، لہٰذا یہاں حقیقتا سود ہے نہ لغت کے اعتبار سے اور نہ عرف ہی کے لحاظ سے۔
کیونکہ سود کا معنی ہے: اضافہ، جو یہاں ناپید ہے۔ جنھوں نے اسے حرام قرار دیا ہے انہوں نے اسے سود پر قیاس کیا ہے، اور ان دونوں اقوال میں جو واضح فرق ہے وہ مخفی نہیں کہ ”یا تو سود دو یا پھر ادا کرو“ اور ”تم مجھے قبل از وقت ادا کر دو میں تمہیں ایک سو ہبہ کر دوں گا۔“ اس کی حرمت میں کوئی نص ہے نہ اجماع اور نہ قیاس ہی۔
[اللجنة الدائمة: 17441]
——————

149- قرض اتارنے میں ٹال مٹول سے کام لینے کا حکم
جو اپنا قرض چکانے کی قدرت رکھتا ہو، اس کے لیے، جب وقت آجائے اور جو اس کے ذمے واجب الادا ہو، اسے ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا حرام ہے، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی ایک کو مالدار کے پیچھے لگایا جائے تو وہ اس کے پیچھے چلے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2287 صحيح مسلم 1564/33]
لہٰذا جس کے ذمے قرض ہو، اس کو چاہیے کہ جن حقوق العباد کو ادا کرنا اس کے ذمے ہو، انہیں ادا کرنے میں جلدی کرے، یہ نہ ہو کہ اسے اچانک موت دبوچ لے اور اپنے وہ قرضوں کے ساتھ معلق ہو۔
[اللجنة الدائمة: 19637]
——————

150- مالدار کا ٹال مٹول کرنا
مالدار کے لیے ٹال مٹول کرناجائز نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی مالدار آدمی جو اپنے ذمے واجب الادا حقوق ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، انہیں ادا کرنے میں تاخیر کرے، تو یہ نا جائز ہے کیونکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی ایک کو مالدار کے پیچھے چلایا جائے تو وہ اس کے پیچھے چلے۔“
[اللجنة الدائمة: 8859]
——————

151- قرض کی توثیق اور دستاویزاتی شہادت کا بہترین طریقہ
اس کے تین طریقے ہیں:
پہلا طریقہ: کوئی چیز گروی رکھنا۔ بائع خریدار سے کہے: مجھے کوئی چیز بطور گروی دو۔ وہ یا تو وہی سامان، جو اس نے خریدا تھا، اس کے پاس گروی رکھوا دیتا ہے یا کوئی زمین یا کوئی گاڑی وغیرہ، اہم بات یہ ہے کہ وہ اس بیع میں کوئی چیز گروی کے طور پر لے لیتا ہے۔ یہ ایک طرح کا وثیقہ ہے، جب قرض اتارنے کا وقت آجائے اور قرض دار قرض ادا نہ کرے تو قرض دینے والے کو اختیار ہے کہ وہ گروی شدہ چیز بیچ کر اپنا حق پورا وصول کر لے۔
دوسرا طریقہ: ضمانت دینا ہے، یعنی مقروض کی ضمانت دینا، کوئی قابل اعتمادی مالدار اور وعدے کے لحاظ سے اچھی شہرت کا حامل شخص آکر کہے: میں اس شخص کے قرض کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب مدت پوری ہو جائے تو صاحب حق (قرض دینے والے) کو اختیار ہوگا کہ وہ ضمانت دینے والے سے اس کا مطالبہ کرے جس کی اس نے ضمانت دی تھی۔
تیسرا طریقہ: مقروض کو حاضر کرنے کی ذمے داری اٹھانا ہے، جسے کفالت کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شخص یہ ذمے داری اٹھاتا ہے کہ جب قرض واپس کرنے کا وقت آجائے گا تو وہ مقروض کو قرض دینے والے کے پاس لے کر حاضر ہوگا۔ ضمانت اور کفالت میں یہ فرق ہے کہ ضمانت قرض کی ضمانت ہوتی ہے جبکہ کفالت میں مکفول کو (جس کی ذمے داری لی جاتی ہے) حاضر کرنے کی ضمانت دی جاتی ہے، جب ضامن مکفول کو حاضر کر دے تو وہ اس سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 8/234]
——————

152- قرض ادا کرنا اور نذر پوری کرنا

اگر قرض نذر سے پہلے کا ہو تو اسے پہلے ادا کرنا چاہیے اور اگر نذر پہلے کی ہو تو پھر اسے قرض ادا کرنے سے پہلے پورا کرنا چاہیے، کیونکہ یہ چیز انسان کے ذمے واجب الادا کام کے متعلق ہے اور جو چیز انسان کے ذمے واجب الادا ہو، اس میں انسان اس وقت تک دوسری ذمے داری کو ادا نہیں کر سکتا جب تک پہلی ذمے داری ادا کرنے سے فارغ نہ ہو جائے، یہ اس وقت کی بات ہے جب اس نے کسی متعین چیز کی نذر نہ مانی ہو۔
مثلاً آدمی کہے: میں نے اللہ کے لیے نذر مانی ہے کہ یہ درہم یا یہ متعین کھانا صدقہ کروں گا، اس حالت میں وہ نذر کو مقدم کرے گا کیونکہ یہ متعین ہو چکی ہے اور یہ متعین اور مقرر چیز نذر کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 21/234]
——————

153- جو شخص قرض دینے والوں کے ایڈریس سے نا واقف ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
اگر مقروض ان کے پتوں سے ناواقف ہے تو وہ ان کے حقوق کا ان کی طرف سے نیت کر کے صدقہ کر دے، جب وہ آئیں یا ان کے پتے مل جائیں اور وہ صدقہ جاری رکھیں تو انہیں اس کا اجر مل جائے گا لیکن اگر وہ صدقہ برقرار نہ رکھیں تو وہ انہیں ان کے حقوق ادا کرے اور اسے صدقے کا اجر مل جائے گا۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 288/19]
——————

154- مقروض کے مال سے خفیہ خفیہ اپنا قرض وصول کرنا
اگر کسی انسان کا کسی پر قرضہ ہو تو اس کے لیے اسے خفیہ انداز میں اس سے لینا جائز نہیں، کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
”جس نے کوئی چیز تجھے امانت کے طور پر دی ہے، اس کی امانت واپس کر اور جس نے تیرے ساتھ خیانت کی ہے تو اس کے ساتھ خیانت نہ کر۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3534 سنن الترمذي، رقم الحديث 1264]
نفقات یعنی لازمی اخراجات کے سوا یہ کہیں وارد نہیں ہوا کہ کوئی صاحب حق اپنا حق خفیہ طریقے سے لے۔ حضرت ہند بن عتبہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں: ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اور میری اولاد کو بقدر کفایت خرچہ نہیں دیتا، اگر میں اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے کچھ لے لوں، تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اس کے مال سے اتنا لے لو جو تمہارے لیے اور تمھاری اولاد کے لیے معروف کے مطابق قابل کفایت ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5364]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دی کہ وہ اس کے مال سے اس کی لاعلمی میں اتنا لے سکتی ہے جو اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے قابل کفایت ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کے ذمے کسی کا خرچہ ہو اور وہ شخص اس پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لے تو وہ اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے قدر ضرورت اور معروف کے مطابق لے سکتا ہے۔
علماء کرام نے اس مسئلے کے ساتھ اس معاملے کا الحاق بھی کر دیا ہے جس کا سبب ظاہر ہو، جیسے مہمان جب کسی کے پاس آئے اور میزبان اس کی ضیافت نہ کرے تو مہمان کو اجازت ہے کہ وہ اس شخص کے مال سے، اس کے علم میں لائے بغیر، اتنا لے سکتا ہے جو اس کی ضیافت کے لیے کافی ہو، کیونکہ یہاں اس کا حق ظاہر ہے۔
جب کوئی آدمی کسی کے پاس مہمان بن کر جاتا ہے تو ایک دن اور ایک رات اس کی ضیافت کرنا میزبان کے ذمے واجب ہوتا ہے اور اس کے لیے اس کی مہمان نوازی سے پس و پیش کرنا جائز نہیں لیکن جہاں تک قرضوں کا معاملہ ہے اس میں قرض دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مقروض کے مال سے اس کی لاعلمی میں اپنا قرض وصول کر لے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 8/234]
——————

155۔ مسئلہ ظفر (کوئی چیز پا لینا)
ایک چوکیدار جو ایک بلڈنگ کے مالک کے ہاں کام کرتا ہے، کہتا ہے: بلڈنگ کا مالک مجھے میری تنخواہ نہیں دیتا، اس نے اس عمارت کے مالک کے تین سو ریال کہیں پائے اور رکھ لیے، کیا اس کے لیے وہ ریال لینا جائز ہے کہ نہیں؟
اس مسئلے کو اہل علم ”مسئلہ ظفر“ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، یہ راجح قول کے مطابق جائز نہیں، کسی انسان کا کسی پر کوئی حق تھا، اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا، کیا اس کے لیے، اگر وہ طاقت رکھتا ہو تو اس کے مال سے اپنے حق کے مطابق لے لینا جائز ہے کہ نہیں؟
ہم کہتے ہیں: صحیح یہ ہے کہ یہ جائز نہیں لیکن اگر حق کا سبب ظاہر تو پھر جائز ہے، مثلاً اگر وہ حق، جو اس کے ذمے واجب الادا ہے، خرچہ ہے، اگر خاوند بیوی کا واجب خرچہ ادا نہیں کرتا تو وہ اپنے خاوند کے مال سے لے لے، اسی طرح اگر کوئی کسی کا رشتے دار ہو اور اس کا خرچہ اس کے ذمے ہو لیکن وہ اس میں کوتاہی کرے تو وہ اس کے مال سے اپنا خرچہ لے سکتا ہے، ایسے ہی مہمان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر میزبان اس کی مہمان نوازی نہ کرے تو وہ اس کے مال سے لے سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ فتنے، عداوت، دشمنی اور جھگڑے کا سبب نہ بنے، لیکن سائل کا جو سوال ہے اس میں وہ اپنا خاص حق مانگتا ہے جس کا سبب ظاہر نہیں، لہٰذا اس کے لیے وہ درہم لینا جائز نہیں جو وہ اس کے مال سے لینے پر قادر ہوا ہے، بلکہ اس پر یہی واجب ہے کہ وہ اس مال سے ہاتھ کھینچ لے جو اسے ملا ہے۔ پھر اپنے مالک سے جھگڑا اور مطالبہ کرے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 7/234]
——————

156- ایک آدمی فوت ہو گیا ہے اور اس کی کچھ رقم میرے ذمے ہے
تم پر واجب ہے کہ اس کے ورثا کو تلاش کرو اور انہیں میت کی رقم دو، کیونکہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا مال اس کے ورثا کو منتقل ہو جاتا ہے، اگر تم انہیں پہچاننے سے معذور ہو جاؤ تو پھر اس رقم کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دو، یعنی جس کا مال ہے اس کی طرف سے نیت کرو، اللہ تعالیٰ اپنے علم قدرت اور قوت کے ساتھ اسے اس تک پہنچا دے گا جس کا وہ حق ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 17/234]
——————

157- سامان کے حساب کتاب میں غلطی
سوال: وہ سیل مین (فروخت کنندہ) جو حساب میں غلطی کرتا ہے۔ کبھی گاہک کو کم دے دیتا ہے اور کبھی زیادہ لیکن ارادے کے بغیر، کیا وہ کمی پوری کرے اور جو زیادہ ہے وہ لے لے؟
جواب: جب سیل مین کو علم ہو جائے کہ خریدار نے قیمت سے زیادہ تم دے دی ہے اور وہ اس کو جانتا ہو تو اس کے لیے وہ رقم لوٹانا ضروری ہے، اگر وہ مر گیا ہو تو وہ اس کے لواحقین کو لوٹائے، لیکن اگر وہ اسے جانتا نہیں اور اس کے واپس لوٹنے سے بھی نا امید ہو چکا ہے تو اس کی طرف سے صدقہ کر دے لیکن جب اس کے لیے یہ واضح ہو جائے کہ خریدار نے رقم کم دی ہے تو وہ اسے تلاش کرے اور اس رقم کا مطالبہ کرے جو اس نے کم دی ہے، لیکن وہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا تو اس معاملے میں عدالت کی طرف رجوع کیا جائے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 9/234]
——————

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply