بچپن میں حلیمہ کے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدر کا واقعہ

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

چالیس سال تک ہر بات کا جواب قرآن سے دینے والی عورت کا قصہ
ایک معروف عوامی مقرر نے اس قصے کو بڑے درد و سوز کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کو گیا راستے میں مجھے ایک بوڑھی عورت ملی جو اپنے قافلے سے بچھڑ گئی تھی اس کی پریشانی اور مایوسی کو دیکھ کر اس سے بات کرنا چاہی تو سب سے پہلے میں نے اسے کہا :
«السلام عليك ورحمة الله»
تو وہ خاتون جواب دیتی ہے۔
«سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ» [36- يس :58]
”یعنی سلام نہایت مہربان رب کا قول ہے۔“
مراد یہ ہے کہ سلام کا جواب تو خود الله تعالیٰ کی جانب سے ہے۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
تو اس نے کہا:
«مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۚ» [7-الأعراف: 186]
”جسے الله بھٹکا دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔“
مراد یہ کہ میں راستہ بھول گئی ہوں۔
٭حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے پھر پوچھا آپ کہاں سے آ رہی ہیں؟
تو اس نے کہا:
«سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى» [17-الإسراء:1]
”یعنی پاک ہے وہ (اللہ) جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گیا۔“
مراد یہ تھی کہ مسجد اقصیٰ سے آ رہی ہوں۔
٭ عبد الله بن مبارك رحمہ اللہ فرمانے لگے، آپ یہاں کب سے پڑی ہیں؟
عورت نے جواب دیا:
«ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا » [‎ 19-مريم:10]
”برابر تین رات ہے۔“
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا تمھارے کھانے کا کیا انتظام ہے؟
عورت نے کہا:
«وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ» ‎ [26-الشعراء:79]
”وہ (اللہ) مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
یعنی کہیں نہ کہیں سے رزق مہیا ہو جاتا ہے۔
٭عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا وضو کا پانی موجود ہے؟
وہ کہنے گی :
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [5-المائدة:6]
اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔“
مطلب یہ کہ پانی نہیں مل رہا ہے تو تیمم کر لیتی ہوں۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا : کھانا حاضر ہے کھا لیجیے۔
وہ کہے گی:
«أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ» [2-البقرة:187]
”روزے کو رات کے آغاز تک پورا کرو۔“
اشارہ یہ تھا کہ میں روزے سے ہوں۔
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے۔
وہ کہنے لگی :
«وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ » [2-البقرة:158]
”اور جو کوئی خوشی سے نیکی کا کام کرے تو بے شک الله تعالیٰ شکرگزار اور علیم ہے۔“
یعنی میں نے نفل روزہ رکھا ہے۔
٭عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے لیکن سفر میں تو روزہ افطار کر لینے کی اجازت ہے؟
خاتون کہے گی:
« وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ » [2-البقرة:184]
”اور اگر تم روزہ رکھو تو تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ اگرتم جانتے ہو۔“
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ پوچھنے لگے: آپ میرے جیسے انداز میں بات کریں۔
خاتون کہنے لگی :
«مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ» [50-ق:18]
”وہ انسان کوئی بات نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے پاس ایک مستند نگہبان ضرور ہوتا ہے۔“
یعنی چونکہ انسان کے ہر لفظ پر ایک فرشتہ نگہبانی کرتا ہے اور اس کا اندراج ہوتا ہے اس لیے بربنائے احتیاط قرآن کے الفاظ میں ہی بات کرتی ہوں۔
٭ عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ پوچھنے لگے : کسی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہیں؟
خاتون کہنے کی:
« وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا» [17-الإسراء:36]
”جو بات تمھیں معلوم نہ ہو اس کے درپے نہ رہو بے شک کان، آنکھ اور دل اس کی طرف سے جواب دہ ہیں۔ ‘‘“
یعنی جس معاملے کا پہلے سے آپ کو کچھ علم نہیں اور جس سے کوئی واسطہ نہیں اسے پوچھ کر اپنی قوتوں کو ضائع کرتے ہیں۔
٭عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے کہ مجھے معاف کر دیں میں نے واقعی غلطی کی ہے۔
خاتون کہے گی کہ :
«لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ » [12-يوسف:92]
”آج تم پر کوئی ملامت نہیں اور اللہ تمہیں بخش دے۔‘‘“
٭عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا، کیا آپ میری اونٹنی پر بیٹھ کر قافلہ سے جا ملنا پسند کریں گی؟
خاتون کہنے لگی :
«وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ » [2-البقرة:197]
”تم جو نیکی کر تے ہو اللہ اسے جان لیتا ہے۔“
یعنی اگر آپ مجھ سے حسن سلوک کرنا چاہیں تو الله اس کا اجر دے گا۔
٭ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے: اچھا تو پھر سوار ہو جاؤ، یہ کہہ کر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی اونٹنی بٹھا دی۔ خاتون نے کہا:
«قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ» [24-النور:30]
”اور ایمان والوں سے کہہ دیجیےکہ وہ (خواتین کا سامنا ہونے پر) نگاہیں نیچی رکھیں۔“
٭ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ مدعا سمجھ گئے اور منہ پھیر کر ایک طرف کھڑے ہو گئے لیکن جب خاتون سوار ہوئیں تو اونٹنی بدکی اور خاتون کا کپڑا کجاوے میں الجھ کر پھٹ گیا۔
اور وہ پکار اٹھیں :
«وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ » [42-الشورى:30]
”اور تمھیں جو مصیبت پہنچی ہے وہ تمھارے اپنے ہی کیے کراۓ (کوتاہی ولغزش) کا نتیجہ ہے۔“
یعنی خاتون گویا حضرت عبد الله کو توجہ دلا رہی تھیں کہ یہاں کچھ مشکل پیش آ گئی ہے۔ حضرت عبداللہ سمجھ گئے اور اونٹنی کا پیر باندھا اور کجاوے کے تسمے درست کیے۔ خاتون نے حضرت عبداللہ کی مہارت و قابلیت کی تحسین کرنے کے لیے آیت کے ذریعہ اشارہ کیا۔
خاتون کہنے گی :
« فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ» [21-الأنبياء:79]
”ہم نے سلیمان علیہ السلام کو اس معاملے میں فہم و بصیرت دی۔‘‘“
اور پھر جب سواری کا مرحلہ طے ہو گیا تو خاتون نے سواری کا آغاز کرنے کی آیت پڑھی:
خاتون کہے لگی :
«سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ‎‏ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ » [43-الزخرف:13]
”پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے لیے مفید خدمت کے قابل بنا دیا، ورنہ ہم (اپنے بل بوتے پر) اس کے قابل نہ تھے اور یقیناً ہمیں لوٹ کر (جواب دیا کے لیے) اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔“
اب حضرت عبداللہ نے اونٹنی کی مہار تھامی اور حدی (عربوں کا مشہور نغمہ سفر) الاپتے ہوئے تیز تیز چلنے لگے۔
خاتون کہنے گی :
«وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ » [31-لقمان:19]
”اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو اور اپنی آواز دھیمی رکھو۔“
حضرت عبد اللہ بات سمجھ گئے اور آہستہ چلنے لگے اور گنگنانے کی آواز بھی پست کردی۔
خاتون کہنے لگی:
«فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ » [73-المزمل:20]
پھر قرآن میں جتنا کچھ آسانی سے پڑھ سکو پڑھو۔
یعنی فرمائش ہوئی کہ حدی (شعر و نغمہ) کے بجائے قرآن میں سے کچھ پڑھیے۔ حضرت عبداللہ قرآن پڑھنے لگے۔
خاتون نے اس پر خوش ہو کر کہا :
« وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ» [2-البقرة:269]
”اور اہل دانش و بینش ہی نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔“
٭ حضرت عبد اللہ نے کچھ دیر قرآن پڑھنے کے بعد کہا : اے خالہ کیا آپ کے شوہر ہیں؟ (زندہ ہیں)
خاتون نے کہا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ » [5-المائدة:101]
”اے ایمان والو! ایسی باتوں کے متعلق نہ پوچھو جو اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری معلوم ہوں۔“
خاتون کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں سوال نہ کرو اور قرینہ بتارہا تھا کہ غالبا خاتون کے شوہر فوت ہو چکے ہیں۔ آخر کار ان دونوں نے قافلہ کو جا پکڑا۔
٭ عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا: اس قافلے میں آپ کا کوئی لڑکا یا عزیز ہے جو آپ سے تعلق رکھتا ہے؟
خاتون کہنے گی:
«الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ » [18-الكهف:46]
”مال اور اسباب دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔“
یعنی میرے بیٹے بھی تو قافلہ میں شامل ہیں اور ان کے ساتھ مال و اسباب بھی ہے۔
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرمانے لگے : آپ کے لڑکے قافلہ میں کیا کام کرتے ہیں؟ یعنی آپ کا مطلب یہ تھا کہ انھیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ خاتون کہے گی :
«وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ» [16-النحل:16]
”اور نشانیاں ہیں اور ستاروں سے وہ راہ پاتے ہیں۔“
یعنی مراد یہ ہے کہ وہ قافلے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے کہ آپ ان کے نام بتاسکتی ہیں؟
وہ خاتون کہنے لگی کہ :
«وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا» [‎4-النساء:125]
”اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو دوست بنایا۔“
« وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا » [4-النساء:164]
”اور موسیٰ سے کلام کیا۔“
«يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ» [19-مريم:12]
”اسے یحییٰ اس کتاب کو قوت سے پکڑو۔“
یعنی ان آیتوں کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے نام ابراہیم، موسیٰ اور یحییٰ ہیں۔
٭ عبداللہ نے قافلے میں ان ناموں کو پکارنا شروع کیا تو وہ تینوں نوجوان فورا حاضر ہو گئے۔
خاتون کہنے کی (اپنے لڑکوں سے) :
«فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ» [18-الكهف:19]
”اپنے لوگوں میں سے کسی کو اپنا سکہ (یعنی نقدی) دے کر شہر میں (کھانا خریدنے کے لیے) بھیجو اور اسے چاہیے کہ وہ دیکھے کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔ پھر اس میں سے تمھارے پاس روزی لے آئے۔“
یعنی لڑکوں کو کھانا کھلانے کی ہدایت کی اور جب کھانا لایا گیا تو خاتون نے حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا:
« كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ» [69-الحاقة:24]
”ہنسی خوشی کھاؤ پیو بسبب اس اچھے کام کے جو تم نے گذشتہ ایام میں کیا۔“
اور ساتھ ہی دوسری آیت پڑھی جس کا منشا یہ تھا کہ میں آپ کے حسن سلوک کی شکر گزار ہوں۔
«هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ » [55-الرحمن:6]
”نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہو سکتا ہے۔“
یہاں تک پہنچ کر یہ مبارک گفتگو ختم ہو گئی۔ اس ضعیف خاتون کے لڑکوں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو بتایا کہ ان کی والدہ چالیس سال سے اسی طرح قرآن ہی کے ذریعے گفتگو کر رہی ہیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
فضيلة الشيخ عبد الستارالحماد کہتے ہیں یہ واقعہ حکاية متكلم بالقرآن کے عنوان سے المستطرف في كل فن مستظرف جلد 1 ص 56 میں بیان ہوا ہے۔ اس کا کوئی حوالہ باسند بیان نہیں ہوا۔ بلا سند واقعات اکثر و بیشتر خود ساختہ ہوتے ہیں ویسے بھی اس کتاب میں ایک طرح کے دیگر واقعات بھی فضول اور بے بنیاد ہیں۔ اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کا ایک واقعہ امام ابن حبان نے بیان کیا ہے۔ روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ص 72 طبع سعودیہ عربیہ انھوں نے اس کی سند بھی بیان کی ہے۔ اس میں ایک راوی محمد بن زکریا العلابی ہے۔ جس کے متعلق امام دارقطنی نے لکھا ہے کہ حدیثین بنایا کرتا تھا۔ [الضعفاء والمترو كين ص 483۔]
——————

فضیل بن عیاض کا ڈاکے مارنا اور توبہ کا واقعہ
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلا میں لکھا ہے : ابراہیم بن لیث کہتے ہیں کہ مجھے محدث علی بن خشرم نے بتایا کہ انھیں فضیل بن عیاض کے ایک پڑوسی نے خبر دی ہے کہ حضرت فضیل بن عیاض نے راہزنی اور ڈاکہ ڈالنے کا عمل شروع کر رکھا تھا، ایک رات کا واقعہ ہے کہ ایک قافلہ ان کے پاس آ نکلا۔ قافلے کے آدمی نے دوسرے کو کہا : ہم اس قریبی بستی کی طرف چلے جائیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ اس راستے میں فضیل بن عیاض ڈاکے ڈالا کرتا ہے، اتفاق سے حضرت فضیل نے ان کی یہ گفتگو سن لی اور خوف خدا سے لرزہ براندام ہو گئے اور فرمانے لگے، اے میری قوم! اللہ تمھیں جزائے خیر عطاء فرمائے۔ (تم نے نیکی کی طرف میری رہنمائی کی ہے۔) جب تم مجھ سے ڈرتے ہو تو مجھے بھی اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ چنانچہ اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے (اور تمہیں گواہ بناتے ہوئے) اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔
یہ قصہ ضعیف سندوں سے مروی ہونے کی وجہ سے غیر ثابت اور مردود ہے۔ [سير اعلام النبلاء، 438/8
تاريخ دمشق 384/48]

——————

جو ہر رات سوره واقعہ پڑھے گا اس کو فاقہ نہیں آ ئے گا
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعات میں ایک روایت لائے ہیں کہ جب حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے جس بیماری سے آپ جانبز نہ ہوئے۔ اس بیماری میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، پوچھا : آپ کو کیا شکوہ ہے؟ فرمایا : اپنے گناہوں کا۔ دریافت کیا : خواہش کیا ہے؟ فرمایا : اپنے رب کی رحمت کی، پوچھا کسی طبیب کو بھیج دوں؟ فرمایا : طبیب نے ہی تو بیمار کر ڈالا ہے، پوچھا : کچھ مال دوں؟ فرمایا : مال کی کوئی حاجت نہیں، کہا : آپ کے بعد آپ کے بچوں کے کام آئے گا،فرمایا : کیا میری بچیوں کی نسبت آپ کو فقیری کا ڈر ہے؟ سنئے میں نے اپنی سب لڑکیوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ ہر رات سورة واقعہ پڑھ لیا کریں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص سورہ واقعہ کو ہر روز پڑھ لیا کرے اس کو ہرگز فاقہ نہیں پہنچے گیا۔ اس واقعہ کے راوی حضرت ابوظبیہ بھی اس سورت کو بلا ناغہ پڑھا کرتے تھے۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة رقم 289 و اخرجه ابن جوزي فى العلل 151 و ابن سني فى عمل اليوم واليلة 680 بيهقي فى شعب الايمان 2498، 2499]
اس میں شجاع راوی مجہول ہے۔
اس کی سند میں انقطاع ہے۔
اس کے متن میں نکارت ہے۔
اس کے راویوں میں ضعف ہے۔
غرض کہ اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
پھر بھی واعظین اپنی تقریروں میں اس کو پیش کرتے ہیں جبکہ ایسا کرنا غلط ہے۔
——————

بچپن میں حلیمہ کے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدر کا واقعہ
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ابوعمرو بن حمدان (حسن بن نفیر، عمرو بن عثمان، بقیہ بن ولید، بحیر بن سعید، خالد بن معدان، عبدالرحمن بن عمرو سلمیٰ) عتبہ بن عبد الله سے بیان کرتے ہیں کہ کسی صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے ابتدائی حالات کیسے تھے؟ تو آپ نے فرمایا : میری رضاعی ماں، بنی سعد بنی بکر سے تھی، میں نے بھائی سے کہا جاؤ امی سے کھانا لے آو، چنانچہ وہ کھانا لینے چلا گیا اور میں ریوڑ کے پاس تھا کہ دو سفید پرندے آئے گدھ کی طرح۔ ایک نے دوسرے کو کہا، کیا یہی ہے، دوسرے نے کہا ہاں! پھر دونوں نے مجھے جھپٹ کر پکڑا اور گدی کے بل پچھاڑ دیا پھر پیٹ چاک کر کے دل نکالا اور اس کو چیر کر دو سیاہ بوٹیاں نکالیں پھر ایک نے دوسرے کو کہا : برف کا ٹھنڈا پانی لاؤ، اس پانی سے انھوں نے میرا پیٹ دھویا پھر اولے کے ٹھنڈے پانی سے میرا دل صاف کیا، بعد ازاں اس نے کہا : سکینت اور تسکین قلبی لاؤ، پھر اس نے یہ دل پھر چھڑک دی۔ پھر ایک نے دوسرے کو کہا، ان کو ترازو کے ایک پلڑے میں بٹھاؤ اور دوسرے پلڑے میں ایک ہزار امتی، میں دیکھ رہا تھا کہ ہزار والا پلڑا اوپر اٹھا ہوا تھا، ہلکا تھا، مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھ پر گر نہ پڑیں پھر انھوں نے کہا : اگر پوری امت کے برابر بھی تولا جائے تو پھر بھی وزنی ہوگا۔ پھر مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں سخت خوفزدہ تھا۔ پھر میں نے امی کو سارا واقعہ بتایا تو اس کو خطرہ لاحق ہوا کہ بچے کی عقل ٹھیک نہیں رہی اور اس نے دعا دی کہ میں تجھے اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں، پھر اس نے سواری کو تیار کر کے مجھے پیچھے بٹھایا اور ہم مکہ میں پہنچ گئے تو اس نے میری والدہ سے کہا : میں نے امانت واپس کر دی اور اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے اور اس نے میرا ماجرا بھی بتایا تو والدہ کو کوئی فکر لاحق نہ ہوا اور اسے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے جسم سے نور خارج ہوا ہے، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مسند احمد 4/ 184، 185 رقم الحديث17798 سنن دارمي حديث رقم 13 ذكر الذهبي فى تاريخ الاسلام
49،48/2 مجمع الزوائد 222/8 مستدرك للحاكم 616/2]

ان کے ہاں، یہ حدیث عتبہ بن عبد السلمی کی ہے۔ اس کا دارومدار بقیہ بن ولید پر ہے اور وہ مدلس ہے سند کے کسی بھی حصے میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی بلکہ تمام طبقات میں عنعنہ سے بیان کیا ہے۔
نیز بحیر بن سعد اور خالد بن معدان کے درمیان بھی سماع کی صراحت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
——————

مشہور سیاح ابن بطوطہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر افتراء
ابن بطوطہ کہتا ہے : دمشق میں فقہائے حنابلہ میں امام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا شمار ہوتا ہے، عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے اگرچہ بہت سے فنون میں انہیں قدرت تکلم تھی، لیکن دماغ میں کسی قدر فتور آ گیا تھا، اہل دمشق ان کی بےحد تعظیم و تکریم کرتے یہ منبر پر بیٹھ کر وعظ فرمایا کرتے تھے۔ آگے چل کر ابن بطوطہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جمعہ کے دن گیا یہ جامع مسجد میں بیٹھے دعا فرما رہے تھے، اور کہہ رہے تھے۔ «ان الله ينزل كنزولي هذا.»
بے شک الله تعالیٰ آسمان سے دنیا پر اس طرح اترتا ہے۔ « ونزل درجة من در ج المنبر» جس طرح دیکھو میں منبر سے اترتا ہوں یہ کہہ کر وہ منبر کی سیڑھیوں میں سے ایک سیڑھی نیچے اترے۔ اس پر ایک مالکی فقیہ جس کا نام ابن الزہراء تھا، مخالفت میں کھڑا ہو گیا، لوگ اس فقیہ کے ساتھ ہو گئے اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہاتھوں اور جوتوں سے پٹائی کی یہاں تک کہ ان کا عمامہ گر گیا۔
تحقیق الحدیث :
یہ قصہ باطل ہے۔ [سفر نامه ابن بطوطه ص 126، 127 مترجم طبع نفيس اكيڈمي كراچي۔]
شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد ابی عبیدہ مشہور بن حسن ال سلمان اپنی کتاب قصص لا تثبت حصہ اول ص66، 67 پر اس پر سخت تنقید کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ واقعہ تین وجوہ کی بنیاد پر غلط ہے۔
پہلی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات پختہ عزم والوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انھیں نقل کریں تو ابن بطوطہ کے علاوہ کسی اور نے اسے نقل کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ وہاں بکثرت لوگ جمع تھے۔ نیز ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے کسی نے اس کو بیان کیوں نہیں کیا۔ بلکہ امام کے دشمنوں میں سے بھی اسے کوئی روایت نہیں کرتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بڑا واضح ہے اور آپ کا اس بات پر انکار بھی واضح ہے جو اس قصہ میں ان کی طرف منسوب کیا گیا۔ امام ابن تیمیہ اللہ کہتے ہیں ”اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح قرار دینا مثلاً یہ کہنا کہ اللہ کا استواء (بیٹھنا) مخلوق کے استوار کی طرح ہے یا اس کا نزول مخلوق کے نزول کی طرح ہے اسی طرح دیگر صفات کو قیاس کرنا تو ایسا شخص بدعتی اور گمراہ ہے۔ اس لیے کہ عقل کے ساتھ کتاب و سنت بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کسی بھی معاملے میں مخلوقات کی طرح قرار نہیں دیا جا سکتا۔“ [بحواله مجموع الفتاوي 262/5 وانظر التصفية و التربية ص 41،39 لفضيلة الشيخ على بن حسن الحلبي]
تیسری بات یہ ہے کہ ابن بطوطہ رمضان 726 ھ میں دمشق میں داخل ہوا جبکہ امام ابن تیمیہ شعبان 726ھ میں قلعہ میں داخل کر دیے گئے تھے۔ یہی ان کے شاگردوں وغیرہم کا بیان ہے، لہٰذا ابن بطوطہ نے غلط بیانی کی ہے۔
——————

والدہ کی دعا سے امام بخاری رحمہ اللہ کی بصارت لوٹنے کا قصہ
سیرة البخاری کے فاضل مؤلف مولانا عبدالسلام مبارک پوری لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی والدہ بڑی عابدہ اور صاحب کرامات خاتون تھیں۔ اللہ سے دعا کرنا، رونا، عاجزی کرنا ان کا حصہ خاص تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی آنکھیں صغیر سنی میں خراب ہو گئی تھیں، بصارت جاتی رہی، اطباء علاج سے عاجز آ گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی والدہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں۔ اے خاتون ! الله تعالیٰ نے تمھارے رونے اور دعا کرنے سے تمہارے بیٹے کی آنکھیں درست کر دیں، وہ کہتی ہیں کہ جس شب کو میں نے خواب دیکھا، اسی کی صبح کو میرے بیٹے (محمد) کی آنکھیں درست ہو گئیں، روشنی پلٹ آئی اور وہ بینا ہو گئے۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔
کرامات الاولیاء سے عنوان سے اور اللاکائی نے اسے شرح السنۃ میں ذکر کیا ہے ص 247، سند میں محمد بن الفضل البلخی راوی مجہول ہے۔
دوسری سند میں عبداللہ بن محمد بن اسحاق المسمار کا استاد مجہول ہے۔ [سير الاعلام النبلاء 392/12، تاريخ بغداد 10/2، طبقات الحنابله 274/1، تهذيب الكمال 445/24، تغليق التعليق 388/5، مقدمه فتح البائي 478/1]
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء