ایک معروف عوامی مقرر نے اس قصے کو بڑے درد و سوز کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کو گیا راستے میں مجھے ایک بوڑھی عورت ملی جو اپنے قافلے سے بچھڑ گئی تھی اس کی پریشانی اور مایوسی کو دیکھ کر اس سے بات کرنا چاہی تو سب سے پہلے میں نے اسے کہا :
«السلام عليك ورحمة الله»
تو وہ خاتون جواب دیتی ہے۔
«سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ» [36- يس :58]
”یعنی سلام نہایت مہربان رب کا قول ہے۔“
مراد یہ ہے کہ سلام کا جواب تو خود الله تعالیٰ کی جانب سے ہے۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
تو اس نے کہا:
«مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۚ» [7-الأعراف: 186]
”جسے الله بھٹکا دے اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔“
مراد یہ کہ میں راستہ بھول گئی ہوں۔
٭حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے پھر پوچھا آپ کہاں سے آ رہی ہیں؟
تو اس نے کہا:
«سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى» [17-الإسراء:1]
”یعنی پاک ہے وہ (اللہ) جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گیا۔“
مراد یہ تھی کہ مسجد اقصیٰ سے آ رہی ہوں۔
٭ عبد الله بن مبارك رحمہ اللہ فرمانے لگے، آپ یہاں کب سے پڑی ہیں؟
عورت نے جواب دیا:
«ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا » [ 19-مريم:10]
”برابر تین رات ہے۔“
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا تمھارے کھانے کا کیا انتظام ہے؟
عورت نے کہا:
«وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ» [26-الشعراء:79]
”وہ (اللہ) مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
یعنی کہیں نہ کہیں سے رزق مہیا ہو جاتا ہے۔
٭عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا وضو کا پانی موجود ہے؟
وہ کہنے گی :
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [5-المائدة:6]
اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔“
مطلب یہ کہ پانی نہیں مل رہا ہے تو تیمم کر لیتی ہوں۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ نے پوچھا : کھانا حاضر ہے کھا لیجیے۔
وہ کہے گی:
«أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ» [2-البقرة:187]
”روزے کو رات کے آغاز تک پورا کرو۔“
اشارہ یہ تھا کہ میں روزے سے ہوں۔
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے۔
وہ کہنے لگی :
«وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ » [2-البقرة:158]
”اور جو کوئی خوشی سے نیکی کا کام کرے تو بے شک الله تعالیٰ شکرگزار اور علیم ہے۔“
یعنی میں نے نفل روزہ رکھا ہے۔
٭عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے لیکن سفر میں تو روزہ افطار کر لینے کی اجازت ہے؟
خاتون کہے گی:
« وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ » [2-البقرة:184]
”اور اگر تم روزہ رکھو تو تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ اگرتم جانتے ہو۔“
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ پوچھنے لگے: آپ میرے جیسے انداز میں بات کریں۔
خاتون کہنے لگی :
«مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ» [50-ق:18]
”وہ انسان کوئی بات نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے پاس ایک مستند نگہبان ضرور ہوتا ہے۔“
یعنی چونکہ انسان کے ہر لفظ پر ایک فرشتہ نگہبانی کرتا ہے اور اس کا اندراج ہوتا ہے اس لیے بربنائے احتیاط قرآن کے الفاظ میں ہی بات کرتی ہوں۔
٭ عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ پوچھنے لگے : کسی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہیں؟
خاتون کہنے کی:
« وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا» [17-الإسراء:36]
”جو بات تمھیں معلوم نہ ہو اس کے درپے نہ رہو بے شک کان، آنکھ اور دل اس کی طرف سے جواب دہ ہیں۔ ‘‘“
یعنی جس معاملے کا پہلے سے آپ کو کچھ علم نہیں اور جس سے کوئی واسطہ نہیں اسے پوچھ کر اپنی قوتوں کو ضائع کرتے ہیں۔
٭عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے کہ مجھے معاف کر دیں میں نے واقعی غلطی کی ہے۔
خاتون کہے گی کہ :
«لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ » [12-يوسف:92]
”آج تم پر کوئی ملامت نہیں اور اللہ تمہیں بخش دے۔‘‘“
٭عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا، کیا آپ میری اونٹنی پر بیٹھ کر قافلہ سے جا ملنا پسند کریں گی؟
خاتون کہنے لگی :
«وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ » [2-البقرة:197]
”تم جو نیکی کر تے ہو اللہ اسے جان لیتا ہے۔“
یعنی اگر آپ مجھ سے حسن سلوک کرنا چاہیں تو الله اس کا اجر دے گا۔
٭ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے: اچھا تو پھر سوار ہو جاؤ، یہ کہہ کر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی اونٹنی بٹھا دی۔ خاتون نے کہا:
«قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ» [24-النور:30]
”اور ایمان والوں سے کہہ دیجیےکہ وہ (خواتین کا سامنا ہونے پر) نگاہیں نیچی رکھیں۔“
٭ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ مدعا سمجھ گئے اور منہ پھیر کر ایک طرف کھڑے ہو گئے لیکن جب خاتون سوار ہوئیں تو اونٹنی بدکی اور خاتون کا کپڑا کجاوے میں الجھ کر پھٹ گیا۔
اور وہ پکار اٹھیں :
«وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ » [42-الشورى:30]
”اور تمھیں جو مصیبت پہنچی ہے وہ تمھارے اپنے ہی کیے کراۓ (کوتاہی ولغزش) کا نتیجہ ہے۔“
یعنی خاتون گویا حضرت عبد الله کو توجہ دلا رہی تھیں کہ یہاں کچھ مشکل پیش آ گئی ہے۔ حضرت عبداللہ سمجھ گئے اور اونٹنی کا پیر باندھا اور کجاوے کے تسمے درست کیے۔ خاتون نے حضرت عبداللہ کی مہارت و قابلیت کی تحسین کرنے کے لیے آیت کے ذریعہ اشارہ کیا۔
خاتون کہنے گی :
« فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ» [21-الأنبياء:79]
”ہم نے سلیمان علیہ السلام کو اس معاملے میں فہم و بصیرت دی۔‘‘“
اور پھر جب سواری کا مرحلہ طے ہو گیا تو خاتون نے سواری کا آغاز کرنے کی آیت پڑھی:
خاتون کہے لگی :
«سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ » [43-الزخرف:13]
”پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے لیے مفید خدمت کے قابل بنا دیا، ورنہ ہم (اپنے بل بوتے پر) اس کے قابل نہ تھے اور یقیناً ہمیں لوٹ کر (جواب دیا کے لیے) اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔“
اب حضرت عبداللہ نے اونٹنی کی مہار تھامی اور حدی (عربوں کا مشہور نغمہ سفر) الاپتے ہوئے تیز تیز چلنے لگے۔
خاتون کہنے گی :
«وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ » [31-لقمان:19]
”اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو اور اپنی آواز دھیمی رکھو۔“
حضرت عبد اللہ بات سمجھ گئے اور آہستہ چلنے لگے اور گنگنانے کی آواز بھی پست کردی۔
خاتون کہنے لگی:
«فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ » [73-المزمل:20]
پھر قرآن میں جتنا کچھ آسانی سے پڑھ سکو پڑھو۔
یعنی فرمائش ہوئی کہ حدی (شعر و نغمہ) کے بجائے قرآن میں سے کچھ پڑھیے۔ حضرت عبداللہ قرآن پڑھنے لگے۔
خاتون نے اس پر خوش ہو کر کہا :
« وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ» [2-البقرة:269]
”اور اہل دانش و بینش ہی نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔“
٭ حضرت عبد اللہ نے کچھ دیر قرآن پڑھنے کے بعد کہا : اے خالہ کیا آپ کے شوہر ہیں؟ (زندہ ہیں)
خاتون نے کہا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ » [5-المائدة:101]
”اے ایمان والو! ایسی باتوں کے متعلق نہ پوچھو جو اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری معلوم ہوں۔“
خاتون کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں سوال نہ کرو اور قرینہ بتارہا تھا کہ غالبا خاتون کے شوہر فوت ہو چکے ہیں۔ آخر کار ان دونوں نے قافلہ کو جا پکڑا۔
٭ عبد الله بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا: اس قافلے میں آپ کا کوئی لڑکا یا عزیز ہے جو آپ سے تعلق رکھتا ہے؟
خاتون کہنے گی:
«الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ » [18-الكهف:46]
”مال اور اسباب دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔“
یعنی میرے بیٹے بھی تو قافلہ میں شامل ہیں اور ان کے ساتھ مال و اسباب بھی ہے۔
٭ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرمانے لگے : آپ کے لڑکے قافلہ میں کیا کام کرتے ہیں؟ یعنی آپ کا مطلب یہ تھا کہ انھیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ خاتون کہے گی :
«وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ» [16-النحل:16]
”اور نشانیاں ہیں اور ستاروں سے وہ راہ پاتے ہیں۔“
یعنی مراد یہ ہے کہ وہ قافلے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
٭ عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ کہنے لگے کہ آپ ان کے نام بتاسکتی ہیں؟
وہ خاتون کہنے لگی کہ :
«وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا» [4-النساء:125]
”اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو دوست بنایا۔“
« وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا » [4-النساء:164]
”اور موسیٰ سے کلام کیا۔“
«يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ» [19-مريم:12]
”اسے یحییٰ اس کتاب کو قوت سے پکڑو۔“
یعنی ان آیتوں کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے نام ابراہیم، موسیٰ اور یحییٰ ہیں۔
٭ عبداللہ نے قافلے میں ان ناموں کو پکارنا شروع کیا تو وہ تینوں نوجوان فورا حاضر ہو گئے۔
خاتون کہنے کی (اپنے لڑکوں سے) :
«فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ» [18-الكهف:19]
”اپنے لوگوں میں سے کسی کو اپنا سکہ (یعنی نقدی) دے کر شہر میں (کھانا خریدنے کے لیے) بھیجو اور اسے چاہیے کہ وہ دیکھے کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔ پھر اس میں سے تمھارے پاس روزی لے آئے۔“
یعنی لڑکوں کو کھانا کھلانے کی ہدایت کی اور جب کھانا لایا گیا تو خاتون نے حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا:
« كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ» [69-الحاقة:24]
”ہنسی خوشی کھاؤ پیو بسبب اس اچھے کام کے جو تم نے گذشتہ ایام میں کیا۔“
اور ساتھ ہی دوسری آیت پڑھی جس کا منشا یہ تھا کہ میں آپ کے حسن سلوک کی شکر گزار ہوں۔
«هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ » [55-الرحمن:6]
”نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہو سکتا ہے۔“
یہاں تک پہنچ کر یہ مبارک گفتگو ختم ہو گئی۔ اس ضعیف خاتون کے لڑکوں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو بتایا کہ ان کی والدہ چالیس سال سے اسی طرح قرآن ہی کے ذریعے گفتگو کر رہی ہیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
فضيلة الشيخ عبد الستارالحماد کہتے ہیں یہ واقعہ حکاية متكلم بالقرآن کے عنوان سے المستطرف في كل فن مستظرف جلد 1 ص 56 میں بیان ہوا ہے۔ اس کا کوئی حوالہ باسند بیان نہیں ہوا۔ بلا سند واقعات اکثر و بیشتر خود ساختہ ہوتے ہیں ویسے بھی اس کتاب میں ایک طرح کے دیگر واقعات بھی فضول اور بے بنیاد ہیں۔ اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کا ایک واقعہ امام ابن حبان نے بیان کیا ہے۔ روضة العقلاء ونزهة الفضلاء ص 72 طبع سعودیہ عربیہ انھوں نے اس کی سند بھی بیان کی ہے۔ اس میں ایک راوی محمد بن زکریا العلابی ہے۔ جس کے متعلق امام دارقطنی نے لکھا ہے کہ حدیثین بنایا کرتا تھا۔ [الضعفاء والمترو كين ص 483۔]