نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کرنے کی شرعی حیثیت
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نکاح کے بعد چھوارے کی شاعری تقسیم کرنا

سوال : ہمارے ہاں رسم ہے کہ نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے جاتے ہیں کیا یہ سنت طریقہ ہے؟
جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا ہے زندگی کے معاملات میں ایک اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا صحابہ اور صحابیات کے نکاح پڑھائے لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے ہمیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے کسی نکاح میں نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے ہوں اور یہ تو ایک ہندوانہ رسم ہے۔ تاہم مسلمانوں میں اس فعل کا رواج چند ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر ہے۔ ان کا مختصر تجزیہ درج ذیل ہے :
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوج بعض نسائه فشر عليه التمر» [بيهقي؁7/ 287، الكامل فى ضعفاء لارجال2/ 741]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی عورت سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خشک کھجوریں بکھیری گئیں۔“
اس روایت کی سند میں الحسن بن عمرو سیف العبدی راوی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے اور امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ [المعني فى ضعفاء الرجال 1/ 253، كتاب الضعفاء والمتروكين 1/208]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا: ہے : ”یہ راوی متروک ہونے کا مستحق ہے۔“ [كتاب المجروحين 213/2]
اس کی متابعات ابن ابی داؤد نے کی ہے لیکن اس کی سند میں سعید بن سلام راوی کذاب ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے کذاب، امام بخاری رحمہ اللہ نے روایات گھڑنے والا وضاع اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے متروک اور باطل روایات بیان کرنے والا قرار دیا ہے۔“ [كتاب الموضوعات264/6]
ثابت ہوا کہ یہ روایت باطل و موضوع ہے۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا زوج او تزوج نثر تمرا» [بيهقي : 288/7]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی شادی کرتے یا خود شادی کرتے تو خشک کھجوریں بکھیرتے۔“
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس کی سند میں عاصم بن سلیمان البصری راوی ہے جسے عمر بن علی نے جھوٹ اور وضع حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔“
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اسے بہت سارے محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ [المغني فى ضعفاء الرجال 502/1]
ثابت ہوا یہ روایت بھی جھوٹی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
”مجھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری آدمی کی شادی میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور انصاری کا نکاح کر دیا اور فرمایا : ”الفت، خیر اور اچھے کاموں کو لازم پکڑو، اپنے ساتھی کے سر پر دف بجاؤ۔“ تو اس کے سر پر دف بجائی گئی اور میوے اور شکر کے پیکٹ لائے گئے، آپ نے وہ صحابہ پر بکھیر دیے، لیکن قوم رک گئی اور انہوں نے اسے لوٹا نہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”کس قدر عمدہ بردباری ہے، لوٹتے کیوں نہیں ؟“ انہوں نے عرض کیا : ”اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس اور اس دن ہمیں لوٹنے سے منع کیا تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے تمہیں لشکروں کی لوٹ مار سے روکا تھا، ولیموں کی لوٹ سے نہیں روکا، لہٰذا تم لوٹو۔“
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہم سے چھین رہے تھے۔ [الكامل312/1، الموضوعات لابن الجوزي260/2]
یہ روایت بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس کی سند میں بشیر بن ابراہیم انصاری ہے۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا : ”وہ میرے نزدیک روایات گھڑنے والوں میں سے ہے۔“
امام بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”وہ ثقہ راویوں پر روایتیں گھڑتا ہے۔“
یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں بھی حازم اور لمازہ دونوں راوی مجہول ہیں۔ [الموضوعات لابن الجوزي 266/2]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری مرد اور عورت کی شادی میں شریک ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارا شاہد کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا: ہمارا شاہد کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دف۔ تو وہ دف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے ساتھی کے سر پر بجاؤ۔ پھر وہ اپنے برتن چھوہاروں سے بھر کر لائے اور انہوں نے چھوہارے وغیرہ بکھیرے تو لوگ اسے حاصل کرنے سے ڈرے۔ جب آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا : ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ سے منع کیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے لشکروں میں لوٹ سے منع کیا تھا، شادی اور اس قسم کے مواقع سے منع نہیں کیا۔“ [الموضوعات266/2]
اس کی سند میں خالد بن اسماعیل راوی ہے جو ثقہ راویوں پر روایات گھڑتا ہے، جیسا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا : ”اس سے کسی صورت بھی حجت پکڑنا جائز نہیں۔“
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس مسئلے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“ [بيهقي 288/7]
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے بانٹنے اور بکھیر نے کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور یہ صرف ایک رواج ہے جو مسلمانوں میں رائج ہو چکا ہے، اس لیے اس سے بچنے میں ہی خیر ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے