سوال : کیا جماعت ہو جانے کے بعد رہ جانے والے افراد دوسری جماعت کروا سکتے ہیں ؟ کچھ لوگ اسے مکروہ خیال کرتے ہیں۔
جواب : ایک ہی مسجد میں دو بار جماعت کرانے کا جواز صحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور فقہاء ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم کا اس پر عمل رہا ہے۔
➊ : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ابصر رجلا يصلي وحده، فقال : “” الا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه [سنن ابي داود : 574]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اکیلا نماز پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا ایسا کوئی آدمی نہیں جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے۔ “
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
ايكم يتجر على هذا “”، فقام رجل فصلى معه [ترمذي، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى الجماعة فى مسجد قد صلى فيه 220، احمد 85، 83/3، ابويعلي 321/2، نصب الراية 57/2، حاكم 238/4، طبراني 218/1 ]
” تم میں سے کون شخص ہے جو اس کے ساتھ اجرت میں شریک ہو ؟ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی۔ “
علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے “نصب الرایۃ“ میں اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”قوت المغتذی“ میں لکھا ہے : ”جس آدمی نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت ایک ہی مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد میں آئے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں نماز ادا کرے تو یہ صحیح، مشروع اور جائز ہے اور آپ کا گزشتہ فرمان اس پر شاہد ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کا یہی مفہوم سمجھا اور وہ اس کے قائل و فاعل تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں لکھا ہے :
جآء أنس رضى الله عنه إلى المسجد قد صلٰي فيه فأذن واقام وصلٰي جماعة [بخاري، تعليقًا، كتاب الأذان : باب فضل صلاة الجماعة۔ ابن أبى شيبة 148/1]
” سیدنا انس رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے، جماعت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی۔ “
امام بغوی رحمہ اللہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث کے متعلق رقمطراز ہیں :
وَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلٰي أَنَّهُ يَجُوْزُ لِمَنْ صَلّٰي فِيْ جَمَاعَةٍ أَنْ يُّصَلِّيَهَا ثَانِيًا مَعَ جَمَاعَةٍ آخَرِيْنَ وَأَنَّهُ يَجُوْزُ اِقَامَةُ الْجَمَاعَةِ فِيْ مَسْجِدٍ مَرَّتَيْنِ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ [ شرح السنة 436/3]
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو، اس کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرے۔ اسی طرح مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ “
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يكره اعادة الجماعة فى المسجد ومعناه أنه صلٰي امام الحي وحضرها جماعة اخري استجب لهم ان يصلو ا جماعة و هذا قول ابن مسعود و عطاء و الحسن و النخعي و قتادة و اسحاق [ المعني 3/ 10]
”ایک مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا مکروہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گئی تو ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عطا، نخعی، قتادہ اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ “
پھر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اس کے بعد حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ذکر کی ہے۔
عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال فضل صلاة الجميع علٰي صلاة الواحد خمس وعشرون درجة [بخاري، كتاب التفسير : باب قوله : أنَّ قرآن الفجر كان مشهودا 4717، مؤطا 29/1، نسائي 241/1، ترمذي 216، ابن ماجه 787، دارمي 235/1، أبوعوانة 2/2، ابن خزيمة 364/2]
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جماعت کی نماز کی فضیلت اکیلے آدمی کی نماز پر 25 درجے زیادہ ہے۔ “
یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے تو وہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کر لے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا۔
➌ عن الجعد أبى عثمان قال مر بنا أنس بن مالك رضى الله عنه فى مسجد بني ثعلبة فقال اصليتم ؟ قال : قلنا نعم وذاك صلاة الصبح فأمر رجلا فأذن وأقام ثم صلٰي بأصحابه [أبويعلي 4355، ابن أبى شيبة 321/2، بيهقي 70/3، مجمع الزوائد 4/2، عبدالرزاق 291/2]
”حضرت ابوعثمان الجعد سے مروی ہے کہ بنوثعلبہ کی مسجد میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا: ”کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟“ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ”ہاں !“ اور وہ صبح کی نماز تھی۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم دیا، اس نے اذان اور اقامت کہی پھر اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ “
➍ ان ابن مسعود رضى الله عنه دخل المسجد وقد صلوا فجمع بعلقمة ومسروق والأسود [أبكار المنن ص : 253 اس كي سند صحيح هے۔ مرعاة شرح مشكوٰة 104/4]
” سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے علقمہ، مسروق اور اسود کو جماعت کرائی۔ “
مذکورہ بالا صریح احادیث وآثار سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کروا لینا بلا کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکا بر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔
مسجد میں دوسری جماعت کو مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل من بعض نواحي المدينة يريد الصلاة فوجد الناس قد صلوا فانصرف الٰي منزله فجمع أهله ثم صلٰي بهم [ مجمع الزوائد 48/2،
طبراني أوسط 4739، الكامل لابن عدي 2398/6]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ [تمام المنة ص : 155]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطراف سے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو جمع کیا پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ “
اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں۔ اس سے یہ دلیل لی جاتی ہے کہ اگر دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی فضیلت کو ترک نہ کرتے یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت عام مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہت زیادہ ہے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے :
اوّلاً : مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
”اس حدیث سے دوسری جماعت کی مکروہیت پر دلیل پکڑنا محل نظر ہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث اس بارے میں نص نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر میں نماز پڑھائی ہو بلکہ اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز مسجد میں پڑھائی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کی طرف جانا گھر والوں کو جمع کرنے کے لیے تھا نہ کہ گھر میں جماعت کروانے کے لیے۔ تو اس صورت میں یہ حدیث اس مسجد میں جس کا مؤذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحباب کی دلیل ہو گی۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو گھر ہی میں جماعت کرائی تو اس سے مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ انتہائی آخری بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی ایسی مسجد میں آئے جس میں جماعت ہو چکی ہو تو اس کو چاہیے کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھے بلکہ اس سے نکل کر گھر چلا جائے اور گھر میں اپنے اہل کے ساتھ نماز پڑھے۔
بہرحال اس کے لیے مسجد میں دوسری جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ یہ حدیث بعد میں آنے والے اکیلے آدمی کی اس مسجد میں نماز کی کراہت پر دلالت نہیں کرتی۔ اگر اس حدیث سے مسجد میں دوبارہ جماعت کے مکروہ ہونے پر دلیل لی جائے تو پھر اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ اکیلے بھی اس مسجد میں نماز نہ پڑھے۔ “ [ مرعاة المفاتيح 105/4]
ثانیاً : اگرچہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا: ہے مگر یہ محل نظر ہے، کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس راوی ہے اور یہ تدلیس التسویہ کرتا ہے جو انتہائی بڑی تدلیس ہے اور اس کی تصریح بالسماع مسلسل نہیں ہے۔
دوسری جماعت کو مکروہ خیال کرنے والوں کی دوسری دلیل :
عن ابراهيم أن علقمة والاسود اقبلا مع ابن مسعود رضى الله عنه الٰي مسجد فاستقبلهم الناس قد صلوا فرجع بهم الي البيت فجعل احدهما عن يمينه والآخر عن شماله ثم صلٰي بهما [عبدالرزاق ۳۸۸۳، ۴۰۹/۲، طبراني كبير ۹۳۸۰]
”ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ علقمہ اور اسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف آئے تو لوگ انہیں اس حالت میں ملے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی تھی تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے ایک کو دائیں جانب اور دوسرے کو بائیں جانب کیا پھر ان کو نماز پڑھائی۔ “
اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہیں جو مختلط اور مدلس تھے۔ [طبقات المدلس 30]
اور یہ روایت معنعن ہے اور مدلس راوی کی عن عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ نیز حماد کے اختلاط سے قبل تین راویوں کی روایت حجت ہوتی ہے۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يقبل من حديث حماد الا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثوري والدستوائي ومن عدا هٰؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط [ مجمع الزوائد ۱۲۵/۱]
”حماد بن ابی سلیمان کی وہ روایت قبول کی جائے گی جو اس سے قدماء یعنی اختلاط سے پہلے والے روایوں کی روایت ہو گی، جیسے شعبہ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی اور جو ان کے علاوہ اس سے روایت کریں وہ بعد از اختلاط ہے۔ “
تقریباً یہی بات امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔ [شرح علل ترمذي لابن رجب ص : 326]
اور یہ روایت حماد سے معمر نے بیان کی ہے لہٰذا یہ بھی قابل حجت نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دونوں شاگردوں کو دائیں بائیں کھڑا کر کے جماعت کرائی اور یہ بات احناف کو مسلم نہیں جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ [كتاب الآثار لمحمد بن حسن ص : 69 مترجم]
تیسری بات یہ ہے کہ اوپر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت کی کراہت کے بارے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں بلکہ صحیح روایات سے دوسری جماعت کا جواز نکلتا ہے اور یہی جواز والا مذہب زیادہ درست ہے۔ مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فارجع الاقوال عندنا هو أنه يجوز ويباح من اتٰي مسجدا قد صلى فيه بامام راتب وهو لم يكن صلاها وقد فاتته الجماعة لعذر ان يصلي بالجماعة والله اعلم [مرعاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح 107/4]
”ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں اس حال میں پہنچا کہ امام معین کے ساتھ نماز ادا ہو چکی ہو اور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی اور عذر کی بنا پر اس کی جماعت فوت ہو گئی تو اس کے لیے جائز و مباح ہے کہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔ “
بہرصورت یہ یاد رہے کہ بغیر عذر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی و کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں، کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکٹھی ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد اعجبني أن تكون صلاة المؤمنين واحدة حتٰي لقد هممت أن ابث رجالا فى الدور ينادون الناس بحين الصلاة [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب كيف الأذان 506، ابن خزيمة 199/1]
”مجھے یہ بات پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں۔ “
اس کے علاوہ بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید میں کئی ایک صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئیے، سوائے شرعی عذر کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ اگر ہم گھر سے نماز باجماعت کے ارادے سے نکلتے ہیں اور ہمارے آتے آتے نماز فوت ہو جاتی ہے تو مسجد میں آ کر ادا کرنے سے جماعت کا ثواب مل جائے گا جیسا کہ صحیح حدیث میں موجود ہے :
من توضأ فاحسن وضوءه ثم راح فوجد الناس قد صلوا اعطاه الله مثل اجر من صلاها وحضرها لا ينقص ذٰلك من اجرهم شيئا [أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب فيمن خرج يريد الصلاة فسبق بها 564، نسائي 111/2، شرح السنة 342/3، حاكم 208/1، تاريخ كبير للبخاري 46/8، أحمد 380/3]
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا: ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ یہ روایت حسن ہے۔ [نيل المقصود 564]
اور اس کا ابوداؤد میں ایک شاہد بھی ہے۔ ملاحظہ ہو [563] ، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ [صحيح أبوداؤد 528]
”جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر چل پڑا (مسجد کی طرف) اس نے لوگوں کو پایا کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو نماز باجماعت ادا کرنے اور اس میں حاضر ہونے والے کی طرح اجر دے گا اور ان کا اجر کم نہیں ہو گا۔ “
لہٰذا بغیر شرعی عذر کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے جماعت سے رہ گیا تو اور افراد کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کروا لی تو بلا کراہت جائز ہے۔