الحمدلله رب العالمين و الصلوٰة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد :
”پی ایچ ڈی“ والے ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے ”المنھاج السوی من الحدیث النبوی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں بریلوی مسلک کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے صفحہ [223] پر انہوں نے ”تکبیر اولیٰ کے علاوہ نماز میں رفع یدین نہ کرنے کا بیان“ کا عنوان مقرر کر کے رفع یدین کے خلاف چودہ [14] روایات مع حوالہ پیش کی ہیں۔ [ص 223 تا 229] اس مضمون میں ان روایات پر تبصرہ و تحقیق پیش خدمت ہے۔
تنبیہ : عربی عبارات اور بہت سی تخریجات کو اختصار کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے، صرف روایت نمبر : [295/12] کو مع عربی عبارت نقل کیا گیا ہے۔
طاہر القادی کی پہلی دلیل [ 248/1] :
تبصرہ :
ہمارے نسخہ میں اس روایت کا نمبر [784] ہے۔
اس حدیث میں رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف یہی مسئلہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سجدوں میں) اٹھتے اور جھکتے وقت تکبیر کہا کرتے تھے۔ تمام اہل حدیث کا اس مسئلے پر عمل ہے۔ والحمدلله
اس روایت میں پہلے رفع یدین کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ اصول میں یہ مسئلہ مقرر ہے کہ ایک روایت میں ذکر ہو اور دوسری میں ذکر نہ ہو تو عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
◈ ابن الترکمانی (حنفی) لکھتے ہیں کہ :
ومن لم يذكر الشئ ليس بحجة على من ذكره
”اور جو شخص ذکر نہ کرے اس کی بات اس پر حجت نہیں ہے جو ذکر کرے۔“ [الجوهر النقي ج 4ص 317]
◈ احمد رضاخان بریلوی لکھتے ہیں کہ :
”اور آگاہی رکھنے والے، آگاہی نہ رکھنے والوں کی بنسبت فیصلہ کن ہوتے ہیں۔“ والله اعلم [فتاويٰ رضويه ج 5 ص 208 مطبوعه رضا فاؤنڈيشن، جامعه نظاميه رضويه لاهور]
جس طرح اس روایت کو تکبیر اولیٰ والے رفع یدین کے خلاف پیش کرنا غلط ہے اسی طرح اسے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے خلاف پیش کرنا بھی غلط ہے، نیز دیکھئے تیسری دلیل [250/3] مع تبصرہ۔
——————
دوسری دلیل [249/2] :
تبصرہ :
یہ روایت صحیح بخاری والے ہمارے نسخہ میں نمبر [785] پر ہے۔ صحیح مسلم کے دارالسلام والے نسخہ میں ا س کا نمبر [867] ہے۔
اس روایت میں بھی رفع یدین کے نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ (سجدوں میں) جھکتے اور اٹھتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے لہٰذا اس روایت کو بھی رفع یدین کے خلاف پیش کرنا غلط ہے۔
فائدہ : ”عطاء (بن ابی رباح) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ (نماز کے لئے) تکبیر کہتے وقت اور رکوع کرتے وقت (اور رکوع سے اٹھتے وقت) رفع یدین کرتے تھے۔“ [جزء رفع اليدين للبخاري بتحقيقي : 22وسنده صحيح]
——————
تیسری دلیل [250/3] :
تبصرہ :
یہ روایت ہمارے نسخہ میں [صحيح بخاري : 786 و صحيح مسلم، ترقيم دارالسلام : 873] موجود ہے،
اس روایت میں بھی رفع یدین نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ سجدوں اور دو رکعتوں سے قیام پر تکبیرات کا مسئلہ ہے لہٰذا اس روایت کو بھی رفع یدین کے خلاف پیش کرنا مردود ہے ورنہ پھر اس طرز استدلال کی وجہ سے تکبیر تحریمہ والا رفع یدین بھی متروک یا منسوخ ہو جائے گا !
فائدہ : ”سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز (پڑھنے) کے لئے کھڑے ہوتے وقت، رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔“ [جزء رفع اليدين للبخاري : 1 وسنده حسن، واللفظ له، سنن الترمذي : 3423 وقال : ”حسن صحيح“ صحيح ابن خزيمه : 584، وصحيح ابن حبان بحواله عمدة القاري للعيني 277/5]
——————
چوتھی دلیل :
تبصرہ :
یہ روایت ہمارے نسخہ میں، صحیح بخاری [789] و صحیح مسلم [دارالسلام : 868] میں موجود ہے۔
اس روایت میں بھی ترک رفع یدین کا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے بلکہ سمع الله لمن حمده اور ربنا لك الحمد کے ساتھ ساتھ تکبیروں کا بیان ہے لہٰذا اس حدیث کو بھی رفع یدین کے خلاف پیش کرنا غلط ہے۔
محدثین کرام میں سے کسی قابل اعتماد محدث نے ایسی روایات کو رفع یدین کے خلاف پیش نہیں کیا۔
حدیث نمبر [2] کے تبصرہ میں راقم الحروف نے ثابت کر دیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے تھے۔ لہٰذا راوی کے عمل کے بعد اس روایت سے ترک رفع یدین کا مسئلہ کشید کرنا راوی حدیث کی صریح مخالفت کے مترادف ہے۔
——————
پانچویں دلیل [252/5] :
تبصرہ : یہ روایت ہمارے نسخہ صحیح بخاری میں نمبر [803] پر موجود ہے۔
اس حدیث میں بھی سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد اور تکبیرات کا ذکر ہے لیکن رفع یدین نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہذا ایسی حدیث کو رفع یدین کے خلاف پیش کرنا غلط ہے۔
حدیث نمبر [2] کے تبصرہ میں یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز وہی ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے۔ اس طریقہ استدلال سے خود بخود ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز رفع یدین والی تھی، آپ سے ترک رفع یدین باسند صحیح یا حسن قطعا ثابت نہیں ہے۔
——————
چھٹی دلیل [253/6] :
تبصرہ :
یہ روایت ہمارے نسخہ صحیح بخاری میں نمبر [818، 819] پر موجود ہے۔
اس حدیث میں بھی رفع یدین نہ کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے جبکہ طاہرالقادری صاحب کے استدلال کے سراسر برعکس ابوقلابہ (تابعی) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (سیدنا) مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ کو شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا اور فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [صحيح البخاري : 737 و صحيح مسلم : 391 وترقيم دارالسلام : 864 واللفظ له]
آپ نے دیکھ لیا کہ اس متفق علیہ حدیث سے دو مسئلے ثابت ہیں۔
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقلابہ تابعی کے سامنے سیدنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والا رفع یدین کرتے تھے۔
لہٰذا جو لوگ ترک رفع یدین یا منسوخیت رفع یدین کے دعویدار ہیں، ان کا دعویٰ باطل ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے دیکھ لیا کہ طاہرالقادری صاحب نے نمبر بڑھانے کے لئے چھ غیر متعلقہ، عدم ذکر والی روایات پیش کی ہیں جن کا ترک رفع یدین کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب ان کی پیش کردہ دوسری روایات پر تبصرہ پیش خدمت ہے :
ساتویں دلیل [254/7] :
تبصرہ :
ان تمام کتابوں میں یہ روایت سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبدالرحمٰن بن الأسود عن علقمة کی سند سے مروی ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ مشہور ”مدلس“ ہیں۔
◈ ابن الترکمانی حنفی نے کہا :
الثوري مدلس ”یعنی ثوری مدلس ہیں۔“ [الجوهر النقي ج 8 ص 262]
◈ عینی حنفی نے کہا :
”سفیان مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کی عن والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی الایہ کہ اس کے سماع کی تصریح دوسری سند سے ثابت ہو جائے۔“ [عمدۃ القاری ج 3 ص 112 تحت 214] یہی بات قسطلانی نے بھی لکھی ہے۔ [ارشاد الساری ج 1ص 286]
◈ محمد عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں کہ :
”یعنی سفیان مدلس ہے اور یہ روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیر مقبول ہے جیساکہ آگے ان شاء اللہ بیان ہو گا۔“ [مناظرے هي مناظرے ص 249 مطبوعه : مكتبه جمال كرم دربار ماركيٹ لاهور]
◈ احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار ومتعمد میں مردود و نامستند ہے۔“ [فتاويٰ رضويه ج 5 ص 245طبعه محققه]
◈ احمد رضا خان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ :
”اور عنعنہ مدلس اصول محدثین پر نامقبول ہے۔“ [فتاويٰ رضويه ج 5 ص 266]
ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ یہ روایت غیر مقبول، نا مقبول اور مردود ہے۔
——————
آٹھویں دلیل [255/8] :
تبصرہ :
یہ روایت بھی سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، دیکھئے حدیث نمبر [254/7] کا تبصرہ،
یاد رہے کہ ابوحذیفہ وغیرہ صحابی نہیں بلکہ راویان حدیث تھے۔
——————
نویں دلیل [256/9] :
تبصرہ : اس روایت کا بنیادی راوی یزید بن ابی زید الکوفی ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ محدث دارقطنی نے فرمایا : ضعيف يخطئ كثيرا ”وہ ضعیف تھا اور بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔“ [سوالات البرقاني للدارقطني : 561]
◈ بیہقی نے فرمایا : غير قوي ”وہ قوی نہیں تھا۔“ [السنن الكبريٰ ج 2 ص 26]
◈ حافظ ابن حجر نے فرمایا : والجمهور عليٰ تضعيف حديثه ”اور جمہور اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔“ [هدي الساري ص 459]
◈ بوصیری نے کہا : وضعفه الجمهور ”اور جمہور نے اسے ضعیف قرار دای ہے۔“ [زوائد سنن ابن ماجه : 2116]
◈ اسماء الرجال کے مشہور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (متوفی 233ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
”یہ روایت صحیح السند نہیں ہے۔“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري ج 3 ص 264 رقم : 1239]
ڈاکٹر صاحب کو اس قسم کی کمزور اور کچی روایت پیش کرنی نہیں چاہئے تھی۔
——————
دسویں دلیل [257/10] :
تبصرہ :
طاہر القادری صاحب کی تخریج سے معلوم ہوا کہ اس روایت کو رواه أبوحنيفة ”امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے“، کہنا غلط ہے۔ اسے خوارزمی (متوفی 665ھ) نے أبو محمد البخاري عن رجاء بن عبدالله النهشلي عن شقيق بن إبراهيم عن أبى حنيفة….. کی سند سے روایت کیا ہے۔ [جامع المسانيد ج 1 ص 355]
ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب البخاری الحارثی کے بارے میں :
◈ ابواحمد الحافظ (حاکم کبیر) نے فرمایا :
كان عبدالله بن محمد بن يعقوب الأسناد ينسج الحديث
”استاد عبداللہ بن محمد یعقوب حدیثیں بناتا تھا۔“ [كتاب القرأت للبيهقي ص 178 رقم : 388 دوسرا نسخه ص 155، 154 و سنده صحيح]
اس شخص کی توثیق کسی نے نہیں کی۔ اس پر شدید جرحوں کے لئے دیکھئے میزان الاعتدال [ج2 ص 496] ولسان المیزان [349، 348/3] والکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث [ص 248]
◈ حافظ ذہبی نے اسے دیوان الضعفاء و المتروکین میں ذکر کیا ہے۔ [176 رقم : 2297]
◈ رجاء بن عبداللہ النہشلی کے حالات اور شخصیت نامعلوم ہے۔
ثابت ہوا کہ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے لہٰذا اسے رواه أبوحنيفة کہنا بہت بڑی غلطی ہے۔
——————
گیارہویں دلیل [258/11] :
تبصرہ :
اس روایت کا بنیادی راوی محمد بن جابر جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
◈ زیلعی حنفی فرماتے ہیں کہ : ومحمد بن جابر : ضعيف ”اور محمد بن جابر ضعیف ہے۔“ [نصب الرايه ج 1 ص 61]
↰ جو راوی خود حنفیوں کے نزدیک بھی ضعیف ہے اس کی روایت ڈاکٹر صاحب کیوں پیش کر رہے ہیں ؟
یہ روایت امام دارقطنی رحمہ اللہ الدارقطنی میں روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
تفرد به محمد بن جابر وكان ضعيفا ”اس کے ساتھ محمد بن جابر منفرد (اکیلا) ہے اور وہ ضعیف تھا۔“ [ج1 ص 295 ح 1120]
◈ مسند ابی یعلیٰ کے محقق حسین سلیم اسد نے لکھا :
إسناده ضعيف ”اس کی سند ضعیف ہے۔“ [453/8] یاد رہے کہ اسی نسخے کا حؤالہ ڈاکٹر صاحب نے دے رکھا ہے۔
◈ امام بیہقی نے یہ روایت ذکر کر کے امام دارقطنی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ”محمد بن جابر ضعیف تھا۔“ [السنن الكبريٰ ج 2 ص 79، 80]
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ بذات خود دوسری جگہ محمد بن جابر الیمامی کو ”ضعیف“ لکھتے ہیں۔ [السنن الكبريٰ ج 1 ص 134، 135]
◈ حافظ ہیثمی نے یہ حدیث مجمع الزوائد میں ذکر کر کے فرمایا :
رواه أ بو يعليٰ وفيه محمد بن جابر الحنفي اليمامي وقد اختلط عليه حديثه وكان يلقن فيتلقن
”اسے ابویعلیٰ نے روایت کیا اور اس میں محمد بن جابر حنفی (قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک فرد) یمامی ہے۔ اس کی حدیث اس پر گڈمڈ ہو گئی تھی اور وہ تلقین قبول کر لیتا تھا (یعنی پنجابی زبان میں ”لائی لگ“ تھا)۔ [ج2 ص 101]
↰ پنجابی کا لفظ ”لائی لگ“ میں نے برادر محترم مولانا محمد حسین ظاہری اوکاڑوی حفظہ اللہ سے سیکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ مقلد کا صحیح ترجمہ ہے۔
◈ حافظ ہیثمی دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :
وفيه محمد بن جابر السحيمي وهو ضعيف
”اور اس میں محمد بن جابر السحیمی (الیمامی) ضعیف ہے۔“ [مجمع الزوائد ج 2 ص 288باب ماجاء فى القود و القصاص و من لا قود عليه]
↰ آپ نے دیکھ لیا کہ اس روایت کے راوی کو ذکر کرنے والے محدثین بھی ضعیف ہی کہتے ہیں لیکن پھر بھی ڈاکٹر صاحب ایسی کمزور روایت اپنے استدلال میں پیش کررہے ہیں۔
اس روایت کے بارے میں :
◈ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : هذا حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [المسائل، رواية عبدالله بن احمد 242/1 ت 327]
——————
بارہویں دلیل [259/12] :
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنا چاہتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے اور بعض نے کہا : دونوں سجدوں کے درمیان (ہاتھ) اٹھاتے تھے۔“ [ابوعوانه 423/1 ح 1572]
تبصرہ :
یہ روایت مسند ابی عوانہ کے دو قلمی نسخوں میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
عن سالم عن أبيه قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلوٰة رفع يديه حتي يحاذي بهما وقال بعضهم حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع و بعد ما يرفع رأسه من الركوع ولا يرفعهما وقال بعضهم ولا يرفع بين السجدتين والمعني واحد
ان میں ایک قلمی نسخہ ہمارے استاد محترم پیر جھنڈا شیخ الاسلام ابوالقاسم محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے کتب خانہ سعیدیہ میں موجود ہے اور دوسرا نسخہ (عکس) مدینہ یونیورسٹی میں موجود ہے، دیکھئے میری کتاب ”نور العینین فی اثبات رفع الیدین“ [طبع سوم ص 69، 263] اور انوار خورشید دیوبندی کی کتاب ”حدیث اور اہل حدیث“۔ [طبع خامس عشر، جون 2003ه ص 912]
طاہر القادری صاحب نے اس حدیث کا ترجمہ غلط کیا ہے جبکہ صحیح ترجمہ درج ذیل ہے :
”سالم اپنے ابا (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے رفع یدین کرتے حتیٰ کہ دونوں (ہاتھ) برابر ہو جاتے اور بعض نے کہا : آپ کے کندھوں کے برابر ہو جاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد (رفع یدین کرتے تھے) اور دونوں (ہاتھ) نہیں اٹھاتے تھے اور بعض نے کہا : اور سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ اور معنی ایک ہے۔“
معلوم ہوا کہ لا يرفعهما کا تعلق بين السجدتين سے ہے من الركوع سے نہیں ہے۔ والمعني واحد کے الفاظ بھی صاف صاف اسی کی تائید کر رہے ہیں۔ مگر صد افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے دیوبندیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس روایت کو رفع یدین کے خلاف پیش کر دیا ہے حالانکہ یہ حدیث رفع یدین کے اثبات کے ساتھ سالم عن أبيه کی سند سے صحیح بخاری [736] و صحیح مسلم [ح 390 ترقيم دارالسلام : 861] میں موجود ہے۔
محدث ابوعوانہ الاسفرائنی والی روایت میں ان کے تین استادوں کے نام مذکور ہیں۔
① عبداللہ بن ایوب المخرمی، ② سعدان بن نصر اور ③ شعیب بن عمرو [ديكهئے ج 2 ص 90]
↰ سعدان بن نصر کی روایت السنن الکبریٰ للبیہقی میں ولا يرفع بين السجدتين ”اور آپ سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔“ [69/2] کے الفاظ سے موجود ہے۔ جبکہ سالم عن أبيه والی یہی روایت صحیح مسلم میں ولا يرفعهما بين السجدتين ”اور آپ دونوں ہاتھ سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔“ [ج 390 وترقيم دارالسلام : 861] کے الفاظ سے موجود ہے۔ ابوعوانہ رحمہ اللہ نے راویوں کے درمیان الفاظ کے اس اختلاف ولا يرفعهما اور ولا يرفع کو جمع کر کے والمعنيٰ واحد کہہ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ رفع یدین نہ کرنے کا تعلق سجدوں کے درمیان سے ہے، رکوع کے بعد سے نہیں ہے۔
↰ معلوم ہوا کہ ولا يرفعهما کو رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین سے ملا دینا غلط ہے۔ تفصیلی بحث کے لئے میری کتاب ”نور العینین“ دیکھیں [ص 68تا 71]
——————
تیرھویں دلیل [260/13] :
تبصرہ :
ڈاکٹر صاحب کے پاس مرفوع حدیثیں ختم ہو گئیں۔ اب انہوں نے آثار پیش کرنے شروع کر دیئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اس پیش کردہ اثر کے ایک راوی ابراہیم بن یزید النخعی رحمہ اللہ ہیں جو کہ ”مدلس“ تھے۔ [ديكهئے معرفة علوم الحديث للحاكم ص 108، أسماء من عرف بالتدليس للسيوطي : 1، كتاب المدلسين لابي زرعة ابن العراقي : 2، التبيين لأسماء المدلسين لسبط ابن العجمي : 2]
یہ روایت ”عن“ سے ہے لہذا ”ضعیف“ ہے۔ دیکھئے ساتویں دلیل [254/7] پر تبصرہ۔
اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والا رفع یدین ثابت ہے۔ دیکھئے : [شر ح سنن الترمذی لابن سیدالناس قلمی ج 2 ص 217] و نور العینین [ص 188] اس کی سند حسن ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین ثابت ہے۔ [ديكهئے صحيح بخاري : 739]
بلکہ آپ جس شخص کو دیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ [جزء رفع اليدين للبخاري بتحقيقي : 15 و سنده صحيح]
لہٰذا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
ان کے علاوہ درج ذیل صحابہ کرام سے بھی رفع یدین ثابت ہے :
➊ مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري : 373 و صحيح مسلم : 864/391]
➋ ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ [مسائل الامام احمد، رواية صالح بن أحمد بن حنبل، قلمي ص 174 و سنده صحيح]
➌ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ [السنن الكبريٰ للبيهقي 73/2 و سنده صحيح]
➍ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ [السنن الكبريٰ للبيهقي 73/2 و سنده صحيح]
➎ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ [جزء رفع اليدين للبخاري : 22وسنده صحيح، نيز ديكهئے 349/2 كا تبصره]
➏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما [مصنف ابن ابي شيبه 235/1]
➐ انس بن مالک رضی اللہ عنہ [جزء رفع اليدين للبخاري : 20 و سنده صحيح]
➑ جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ [مسند السراج ص 63، 62 ح 92 و سنده حسن]
مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین شروع نماز، رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي ج 2ص 75 وسنده صحيح]
منکرین رفع یدین، آثار کے معاملے میں بھی بالکل تہی دامن ہیں۔
——————
چودہویں اور آخری دلیل [261/14] :
تبصرہ :
یہ بھی مرفوع حدیث نہیں بلکہ ایک غیر ثابت شدہ اثر ہے اور ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب میں آخری دلیل ہے۔ [ديكهئے المنهاج السوي من الحديث النبوي ص 229]
اس اثر کو کسی قابل اعتماد محدث نے صحیح نہیں کہا جب کہ امام احمد نے اس پر جرح کی ہے۔ [ديكهئے المسائل، راوية عبدالله بن احمد 243/1 ت 329]
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
فلم يثبت عند أحد منهم علم فى ترك رفع الأيدي عن النبى صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم أنه لم يرفع يديه
”ان (علماء) میں سے کسی ایک کے پاس بھی ترک رفع یدین کا علم نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (ثابت) ہے اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے کہ اس نے رفع یدین نہیں کیا۔“ [جزء رفع اليدين : 40]
معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں ہے۔
◈ ابن الملقن (متوفی 804ھ) فرماتے ہیں کہ :
فأثر على رضى الله عنه ضعيف لا يصح عنه و ممن ضعفه البخاري
”پس علی رضی اللہ عنہ (سے منسوب) والا اثر ضعیف ہے۔ آپ سے صحیح ثابت نہیں ہے، اسے ضعیف کہنے والوں میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی ہیں۔“ [البدر المنيرج 3 ص 499]
اس کے برعکس سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرتے تھے۔ دیکھئے تیسری دلیل [250/3] کا تبصرہ اس روایت کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ [علل الخلال بحواله البدر المنير 466/3]
آپ نے دیکھ لیا کہ رفع یدین کے خلاف طاہر القادری صاحب نے تین قسم کی روایات پیش کی ہیں :
① غیرمتعلق روایات
② ضعیف روایات
③ ضعیف آثار
جبکہ صحیح احادیث و آثار سے رفع یدین (قبل الرکوع و بعدہ) کا کرنا ہی ثابت ہے۔ غالباً اسی وجہ سے :
◈ شاہ ولی اللہ الدہلوی فرماتے ہیں کہ :
والذي يرفع أحب إلى ممن لا يرفع إلخ
”اور جو شخص رفع یدین کرتا ہے وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہے جو رفع یدین نہیں کرتا۔“ [حجه الله البالغه ج 2 ص 10، اذكار الصلوٰة وهيآتها المندوب إليها]
یہ قول بطور الزام پیش کیا گیا ہے۔
قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اگر وہ مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو جزء رفع الیدین للبخاری، نور العینین فی اثبات رفع الیدین اور البدر المنیر لابن الملقن کی طرف رجوع کریں۔
وما علينا إلا البلاغ