وعن سعد بن ابي وقاص رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي اخرجه مسلم.
”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے : یقیناً اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار غنی چھپا ہوا ہو۔ “
تخریج : [مسلم الزهد/11 ]
فوائد :
➊ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ سے ہیں بدری صحابی ہیں جنگ قادسیہ کے امیر اور فاتح ایران ہیں جب مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں شروع ہوئیں تو یہ گوشہ نشین ہو گئے صحیح مسلم میں ہے کہ ان ایام میں ان کے بیٹے عمر بن سعد ان کے پاس آئے سعد رضی اللہ عنہ انہیں دیکھتے ہی کہنے لگے۔ اعوذ بالله من شر هذا الراكب میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ سواری سے اترے اور کہنے لگے کہ آپ نے اپنے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں میں ہی ڈیرا لگا رکھا ہے اور لوگوں کو اس حال میں چھوڑ رکھا ہے کہ وہ حکو مت کے لیے آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں تو سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ خاموش ہو جاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناًً اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار، غنی، چھپا ہوا ہو۔ [مسلم الزهد/11 ]
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے بعض لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ اللہ کی محبت سے مراد یہ ہے کہ وہ بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے اس پر رحمت کرتا ہے اور اللہ کے بغض اور دشمنی سے مراد ان چیزوں کا الٹ ہے گویا ان حضرات کے نزدیک اللہ تعالیٰ نہ محبت کر سکتا ہے نہ عداوت۔ اسی لئے انہوں نے یہ تاویل کی۔ مگر ان حضرات کی بات درست نہیں۔ قرآن میں بے شمار جگہ اللہ کی صفت حب اور صفت عداوت بیان فرمائی گئی ہے :
إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [2-البقرة:195]
فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ [3-آل عمران:31]
فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ [2-البقرة:98]
ہر شخص جانتا ہے کہ محبت اور عداوت کیا ہوتی ہے۔ محبت کا معنی ارادہ خیر یا ہدایت یا رحمت ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ صفات اپنی جگہ مستقل صفات ہیں۔ ان حضرات کو یہ تاویل کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ انہوں نے اللہ کی محبت کو انسانی محبت کی طرح سمجھا جو بعض اوقات انسانی کمزوری ہوتی ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا: کہ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر بھی نہیں بلکہ سمیع و بصیر کا مطلب ہے کہ وہ علم رکھتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ علم الگ چیز ہے اور دیکھنا اور سننا الگ چیزیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی یہ صفت اور دوسری تمام صفات کسی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں بلکہ اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہے اگر یہ لوگ اس بات کو اپنے سامنے رکھتے تو کبھی صفات کا انکار یا ان کی تاویل نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ [42-الشورى:11]
” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع ہے بصیر ہے۔ “
مطلب یہ ہے کہ کہیں یہ سوچ کر اللہ تعالیٰ کی صفت سمع اور صفت بصر کا انکار نہ کر بیٹھنا کہ انسان بھی سمیع و بصیر ہے اگر اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر مان لیا تو وہ مخلوق کے مشابہ ہو جائے گا۔ فرمایا : اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ یعنی اللہ کا سننا دیکھنا مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ محبت بھی کرتا ہے اور عداوت بھی رکھتا ہے، مگر ایسی جو مخلوق کی محبت و عداوت کے مشابہ نہیں ہے۔ غور فرمائیے۔ ایسا پروردگار کس کام کا جو نہ سنتا ہو نہ دیکھتا، نہ اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہو نہ اپنے دشمنوں سے عداوت رکھتا ہو ؟
➋ اَلتَّقِي پرہیزگار جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والا اور ان کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز رہنے والا ہو۔
➌ الغَنيّ دولت مند، بے پروا یعنی اسے اللہ پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ مخلوق سے بےنیاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ليس الغني بكثرة العرض ولكن الغني عني النفس [صحيح بخاري 6446]
”دولتمندی دنیا کا ساز و سامان زیادہ ہونے سے نہیں بلکہ اصل دولتمندی نفس کا (مخلوق سے ) غنی ہونا ہے۔ “
اَلْغِنَي میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ہاتھ کی کمائی سے ضرورت کی اشیاء مہیا رکھتا ہے تاکہ اسے مخلوق کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ جیسا کہ سعد رضی اللہ عنہ ان ایام میں اونٹ اور بھیڑ بکریاں پالنے میں مشغول رہتے تھے۔
➍ اَلْخَفِيَّ چھپا ہوا، ناموری شہرت سے بچ کر اللہ کی عبادت میں مشغول کیونکہ شہرت اپنے ساتھ کئی آفات بھی لاتی ہے۔ مثلا ریاکاری، فتنوں میں شمولیت، اللہ کی بندگی کے لیے وقت نہ بچنا۔ جبکہ گمنامی میں آدمی کو عبادت کے لئے کھلا وقت مل جاتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی یاد سے مانوس ہوتا ہے وہ فتنوں سے اور ریاء سے محفوظ رہتا ہے اس کے تمام کام صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں۔