میت کے بعد کھانے کی دعوت اور تعزیتی اجتماعات کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 383

سوال

ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تو اس کے ورثاء اور دوست احباب تعزیت کے لیے آتے رہتے ہیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہتا ہے۔ وقت بچانے کے لیے بعض لوگ تین دن کے بعد شادی کی طرز پر دعوت نامے بھیجتے ہیں، ایک خاص وقت مقرر کرتے ہیں اور کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ تعزیت کے لیے آنے والے لوگ اس وقت جمع ہوکر کھانا کھاتے ہیں اور کچھ رقم بھی اہلِ میت کو دے دیتے ہیں۔ اس طرح کرنے کا حکم کیا ہے؟ کیونکہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ عمل ناجائز ہے۔ براہ کرم تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہونا چاہیے کہ میت کے پیچھے طعام پکا کر لوگوں کو کھلانا یا گھروں میں تقسیم کرنا، جیسا کہ سوال میں ذکر ہوا، بلاشبہ حرام اور ناجائز ہے۔ اس غم اور پریشانی کے موقع پر شادی کی طرح رسم و رواج کا انعقاد بھی ناجائز ہے کیونکہ نہ احادیثِ نبویہﷺ میں اس کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی سلف و خلف سے اس قسم کا رواج منقول ہے۔

لہٰذا اس کو ضروری سمجھنا اور اس کا انعقاد کرنا بدعت ہے، اور اس دعوت کو عام کرنا بھی درست نہیں۔ کیونکہ دعوت کا اہتمام شریعت میں خوشی اور مسرت کے مواقع پر مشروع ہے، غم اور دکھ کے موقع پر نہیں۔ اس کے برخلاف غم کے وقت طعام بنانے سے رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

احادیث مبارکہ سے دلائل


((عن عكرمة عن ابن عباس رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن طعام المتباريين أن يوكل.))
ابوداود، كتاب الاطعمة، باب فى طعام المتباريين، رقم الحديث: ٣٧٥٣


((وعن ابى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المتباريان لايجابان طعامهما’الامام احمديعنى المتعارفين بالضيافة فخراورياء.))

ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر دعوت فخر، ریا اور نام کمانے کے لیے ہو تو ایسی دعوت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

آثارِ صحابہ و اقوالِ فقہاء

مثقی الاخبار میں ہے:
((عن جريربن عبدالله البجلى رضى الله عنه قال كنانعدالاجتماع إلى أهل الميت وضعة الطعام بعد دفنه من النياحه.))
رواه احمد

یعنی جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلِ میت کے ہاں جمع ہونا اور دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ شمار کرتے تھے۔

فتح القدیر میں ہے:
((اتخاذالطعام من اهل الميت بدعة مستقبحة لانه شرع فى السرورلافى الشرور.))

یعنی اہلِ میت کی طرف سے طعام تیار کرنا قبیح بدعت ہے، کیونکہ کھانا بنا کر لوگوں کو جمع کرنا خوشی کے مواقع پر مشروع ہے، غم کے موقع پر نہیں۔

عملی مسائل

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اہلِ میت کے پاس اس طرح کے کھانے کا انتظام کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی، لیکن لوگوں کے طعنے اور رسم و رواج کے دباؤ کی وجہ سے قرض لے کر بھی کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یتیموں کا مال بھی ناحق استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ سراسر حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَ‌ٰلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ نَارً‌ۭا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً‌ۭا﴾ (النساء: ١٠)

"یقیناً جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔”

خلاصہ

یہ رسم غلط اور ناجائز ہے۔ اسلام میں میت کے بعد دعوت یا کھانے کا اہتمام اہلِ میت کے ذمہ نہیں ہے۔ یہ بدعت اور قبیح عمل ہے جو لوگوں کے لیے بوجھ اور یتیموں کے حقوق کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے